نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

الیکشن کمیشن سے اگست میں آلو پالک تک||حیدر جاوید سید

ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں اور فقیر راحموں کو جو چند سبزیاں پسند ہیں ان میں آلو پالک شامل ہے۔ فقیر راحموں کہتے ہیں اس بار اگست میں ڈاکٹر شہباز گل کے مہمان بن کر آلو پالک کھائیں گے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفاقی وزرا جس طرح لشکروں کی صورت میں الیکشن کمیشن کے مورچہ پر گولہ باری میں مصروف ہیں اس کی وجہ ڈسکہ ضمنی الیکشن اور سینیٹ انتخابات ہیں؟
فقیر راحموں کا خیال ہے کہ وچلی گل (اصلی بات) کچھ اور ہے۔ وہ کیا ہے ہم نے دریافت کیا؟
جواب ملا فارن فنڈنگ کیس۔ پھر گویا ہوئے چند دن قبل ایک بڑے گھر میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بلوا کر کہا گیا کہ فارن فنڈنگ کیس میں کسی بھی مرحلہ پر وزیراعظم کو طلب نہ کیا جائے، پیغام پہنچا دیا گیا۔
الیکشن کمیشن آفس سے فون کے ذریعے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے کہا گیا سیکرٹری کو بلانا اور پیغام بھجوانا الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہونا ہے اس کا نوٹس لیا جاسکتا ہے لیکن وزیراعظم کے منصب کا احترام ہے۔
الیکشن کمیشن اپنی آئینی وقانونی ذمہ داریوں سے ہی عہدہ برآ ہوگا۔ فارن فنڈنگ کیس میں جب ضرورت پڑے گی انہیں پارٹی سربراہ کی حیثیت سے بلایا جائے گا، معاملہ یہیں سے بگڑا۔
سمجھا یہ جا رہا تھا کہ جس الیکشن کمیشن کو ہم نے بنایا ہے وہ تابعداری کرے گا۔ کیوں نہ کرے آخر نیب کا چیئرمین تو ہم نے نہیں لگایا مگر تابعداری میں سیف الرحمن سے بھی دو قدم آگے ہے۔
بظاہر ڈسکہ ضمنی الیکشن اور سینیٹ انتخابات کو جواز بتایا جارہا ہے مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر جو رائے دی تھی وہ تجویز کے زمرے میں آتی ہے حکم یا قانون کے زمرے میں نہیں۔
اچھا اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے کسی حکم سے روگردانی کی ہے تو عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن جس طرح لشکری الیکشن کمیشن پر چڑھ دوڑے ہیں اس سے لگتا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کیساتھ دو وجوہات اور بھی ہیں، اولاً فیصل واؤڈا کیس کا متوقع فیصلہ، الیکشن کمیشن کیلئے مشکل ہوگا کہ اس کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو نظرانداز کردے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ بادی النظر میں فیصل واؤڈا کا بیان حلفی جعلی ہے۔
وزیراعظم اور وفاقی وزرا اس وقت مزید برہم ہوئے جب انہیں اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ ضمنی الیکشن کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا ہے اس میں پنجاب حکومت کو مجرمانہ کردار کا مرتکب قرار دیا گیاہے
ابھی چند روز قبل وزیراعظم صاحب یاد کروا رہے تھے نیب کا چیئرمین ہم نے نہیں نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے لگایا ہے، اب اپنے ہی لگائے ہوئے چیئرمین پر عدم اعتماد اور استعفیٰ کا مطالبہ احتساب سے فرار کی کوشش ہے۔
جان کی امان رہے تو عرض کیا جائے سرکار! جو الیکشن کمیشن آپ نے تشکیل دیا اس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیوں؟
اب اسے کیا نام دیا جائے۔ ہم ایسے ہی ہیں اور سچ یہ ہے کہ جمہوری نظام میں اختیارات سعودی ولی عہد جیسے چاہتے ہیں۔ سادہ سی بات ہے انتخابی اصلاحات سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن کا کام نہیں، یہ کام منتخب پارلیمان کا ہے اور پارلیمان میں حکمران اتحاد سادہ اکثریت رکھتا ہے۔
ہمارے وزیراعظم اپوزیشن رہنماؤں کی شکلیں نہیں دیکھنا چاہتے، خیر چھوڑیں ہم کچھ اور لکھنا چاہتے تھے۔
وزیراعظم کے مشیر شہباز گل کیساتھ سوموار کے روز مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے جو سلوک کیا وہ کسی بھی طور درست نہیں مگر افسوس کہ یہ نوبت خود ان کے بیانات سے آئی۔ سوموار کو بھی انہوں نے افسوسناک واقعہ کے بعد پریس کانفرنس میں جو زبان استعمال کی وہ درست نہیں تھی۔ عادتیں زندگی کیساتھ رخصت ہوتی ہیں۔
شہباز گل پریس کانفرنس میں جذباتی ہوئے اور اپنی مادری زبان پنجابی میں بے تکان بولتے چلے گئے، کچھ دھمکیوں کیساتھ انہوں نے کہا جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا میری دادی آلو پالک پکارہی تھیں وہ اسے چولہے پر چھوڑ کر پاکستان کیلئے چل پڑیں، بیلنے چلتے رہے، جانور چرتے رہے۔
سوشل میڈیا کے ظالموں نے آلو پالک کا پوسٹ مارٹم کردیا۔ پوچھا گیا اگست میں تو پالک ہوتا ہی نہیں پھر آلو پالک کیسے پک رہا تھا۔
کہا گیا اگست میں تو ساون کا موسم ہوتا ہے اس موسم میں بیلنے بھی نہیں چلتے۔
ایک ستم ظریف نے کہہ دیا کہ سبز رنگ اصل میں پالک کا رنگ ہے۔ باتیں اور بھی ہوئیں لیکن رہنے دیجئے۔
ہم نے اب تک یہ سنا تھا کہ آدمی غصے میں مادری زبان بولتا ہے اور پورا سچ بولتا ہے۔ پہلی بار تجربہ ہوا کہ جھوٹ بھی بولا جاسکتا ہے۔
ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں اور فقیر راحموں کو جو چند سبزیاں پسند ہیں ان میں آلو پالک شامل ہے۔ فقیر راحموں کہتے ہیں اس بار اگست میں ڈاکٹر شہباز گل کے مہمان بن کر آلو پالک کھائیں گے۔
اب چلتے چلتے یہ سن لیجئے کہ کورونا وبا کی تیسری لہر اور سمارٹ لاک ڈاون کے ساتھ ہی انسانیت کے دشمن منافع خوروں نے اشیائے خوراک کی قیمتیں بڑھادی ہیں۔ ویسے سچ یہ ہے کہ منافع خوری اور کھال اُتارنے میں ہم دیسی مسلمانوں کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔
دو دن ادھر ایک دوست کے عزیز وفات پاگئے وہ بتارہے تھے کہ جو کفن پہلے33سو روپے کا آتا تھا اب57سو روپے کا آیا اور قبر بنانے والے نے 7ہزار روپے معاوضہ لیا۔ ہمارا بھی کوئی حال نہیں ہر قسم کی لوٹ مار اور چور بازاری کے بعد رحمت کے طلبگار بھی رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author