ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنی نوع انسان کا خاتمہ، اس سے کہیں پہلے ہو سکتا ہے، جس قدر ہمیں اندازہ ہے۔ متنوع کیمیائی اجزاء کا تجارتی استعمال دنیا بھر میں مردوں کی قوت تناسل Fertility پر منفی طور سے بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ نیویارک کے ماؤنٹ سینائی ہسپتال کے میڈیکل انسٹیٹیوٹ کی ماحولیاتی و تناسلیاتی ماہر وبائات شانا سوان کی نئی کتاب Countdown میں دریافت کیا گیا ہے کہ مردوں کے مادہ منویہ میں تناسلی جرثوں کی تعداد میں 1973 سے اب تک 60 % کمی واقع ہو چکی ہے۔
ان کی تحقیق کے مطابق اگر کمی کا یہی رجحان برقرار رہا تو مردوں کے مادہ منویہ میں تناسلی جرثوموں کی تعدا 2045 میں 0 % ہو جائے گی۔ صفر فیصد ہونے کا مطلب ہے کہ پھر کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ مزید انسان نہیں ہوں گے۔ مجھے پوچھنے دیجیے کہ اقوام متحدہ اس مسئلے پر ابھی اور اسی وقت ہنگامی اجلاس کیوں طلب نہیں کر رہی ہے؟
وہ کیمیائی اجزاء جو ایسا ہونے کا سبب ہیں ہر شے میں پائے جاتے ہیں پلاسٹک کے برتنوں، جس میں بچے کھانا لے کر سکول جاتے اور وہاں انہیں میں کھاتے ہیں، سے لے کر غذائیں لپیٹے جانے والے ریپرز تک میں، واٹر پروف کپڑوں میں، برتن دھونے اور صفائی کرنے والے کیمیائی محلولوں کی خوشبو میں، صابنوں اور شیمپووں میں، الیکٹرانکس اور کارپیٹنگز میں۔ ان میں وہ جنہیں PFAS سے موسوم کیا جاتا ہے وہ ”دائمی کیمیائی اجزاء“ کہلاتے ہیں کیونکہ وہ نہ تو فضا میں اپنی ہئیت کھوتے ہیں اور نہ ہی انسانی ابدان میں۔ وہ بس جمع ہوتے چلے جاتے ہیں، ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مزید اور مزید نقصان پہنچائے چلے جاتے ہیں، منٹ بہ منٹ، گھنٹہ بہ گھنٹہ، دن بہ دن۔ یوں جانیے کہ انسانیت مضمحل ہونے کے نقطے پر پہنچنے کو ہے۔
شانا سوان کی کتاب میں دریافتیں ہلا دینے والی ہیں، لکھتی ہیں، ”دنیا کے کچھ حصوں میں بیس برس کی عمر سے کچھ برس کی عورتیں کم زرخیز ہیں بہ نسبت اپنی دادیوں کے جب ان کی عمریں 35 برس کی تھیں“ ۔ اس کے علاوہ وہ بتاتی ہیں کہ آج کے مردوں کے مادہ منویہ میں ان کے دادا کی نسبت نصف تناسلی جرثومے ہیں۔ ”تناسلی معاملات کی موجودہ صورت حال، بنی نوع انسان کی بقاء کو خطرے سے دوچار کیے بن زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی“ وہ مزید کہتی ہیں، ”یہ عالمی وجودی بحران ہے“ ۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ سائنسی حقیقت ہے۔
جیسا کہ صرف تناسلی جرثوموں کا کم ہونا ہی زیادہ خوفناک نہ ہو، سوان کی تحقیق میں مزید دریافت ہوا کہ یہ کیمیائی اجزاء محض مادہ منویہ کی ہئیت ہی نہیں بگاڑ رہے بلکہ ان کے سبب مردوں کے تناسلی عضو چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں اور خصیوں کا حجم کم سے کم تر۔ یہ انسانوں کے لیے مکمل طور پر ہنگامی صورت حال سے کچھ کم تر معاملہ نہیں ہے۔
سوان کی کتاب میں پہلے سے کی گئی تحقیقات کی بازگشت بھی ہے جن میں ثابت کیا گیا تھا کہ PFAS مادہ منویہ بنانے کے عمل کو ضرر پہنچاتے ہیں، مردانہ ہارمونوں میں مخل ہوتے ہیں اور ان کا تعلق ”مادہ منویہ کے معیار، خصیوں کے حجم اور مردانہ عضو تناسل کی لمبائی کو کم کرنے سے جڑا ہے“ ۔ یہ کیمیائی اجزاء ہمارے بدنی اعمال کو باقاعدہ بوکھلا رہے ہیں۔ ان کے سبب دماغ کو ملے جلے پیغامات پہنچتے ہیں یوں جسمانی نظام درہم برہم ہوتا جا رہا ہے۔
باوجود اس کے کہ ہمیں ان کیمیائی مادوں سے متعلق سبھی کچھ معلوم ہے تو ان سے متعلق کچھ کیا کیوں نہیں جا رہا؟ اب تک اس خطرے سے متعلق تھوڑا سا قانونی سلسلہ بڑھا ہے، چند ایک ناکافی قوانین ترتیب دیے گئے ہیں۔ ایسے قوانین ملک در ملک، خطہ در خطہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مختلف ریاستوں میں مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر یورپی یونین نے phthalates کو بچوں کے کھلونوں میں استعمال کو محدود کیا ہے۔ اور ایسے phthalates کو جنہیں ”reprotoxic“ خیال کیا جاتا ہے یعنی جو انسانوں کی تناسلی صلاحیت کو ضرر پہنچاتے ہیں کے غذائی اشیاء میں استعمال کی حدیں مقرر کی ہیں۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کی کئی تحقیقات کے مطابق نونہالوں کا phthalated سے دو چار ہونا ”بہت پھیلا ہوا“ ہے۔ اور یہ کہ یہ کیمیائی مادہ ان نونہالوں کے پیشاب میں پایا گیا ہے جن کو نہلاتے ہوئے اور بعد میں ”بے بی شیمپو، لوشن اور پاؤڈر“ استعمال کیے جاتے ہیں۔ پھر بھی کوئی قوانین نہیں بنائے جا رہے نہ صرف اس لیے کہ ایسا نہ کیے جانے کی خاطر ایسی اشیاء تیار کرنے والی بڑی بڑی کمپنیاں لابنگ کرتی ہیں۔
ریاست واشنگٹن میں قانون سازوں نے ”ہمارے مستقبل کی خاطرآلودگی روکنے کا ایکٹ“ تو منظور کروا لیا لیکن اس میں یوں کہا گیا کہ ایجنسیوں کو چاہیے مضرکیمیائی مادوں پر نگاہ رکھیں اور ہر مضر کیمیائی مادے کے مطابق اقدام لیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے کیمیائی مادے برتے جانے لگے جو اتنے ہی مضر اور برے متبادل ہیں۔ کیمیائی مادوں کی پہلی اقسام phthalates، PFAS، PCBs، alkyphenol ethoxylate and bisphenol compounds، and organohalogen flame retardants ہیں۔ اس ریاست نے کیمیائی آلودگی روکنے کا بڑا اقدام لیا ہے لیکن ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی مناسب اور کافی قوانین نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے ملکوں کی طرح اس خطرے کے خلاف ایک ہلکی پھلکی لڑائی ہی لڑ رہا ہے۔
مثال کے طور پر آپ آج ریاست مشی گن میں اوسکوڈا کے مقام پر موجود ہرن کا گوشت نہیں کھا سکتے کیونکہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے ایرفورس کے سابقہ اڈے کے نزدیک پکڑی گئی ایک ہرن کے گوشت میں پائی PFAS کی ہوشربا مقدار کی وجہ سے ”مت کھائیے“ کی ہدایت جاری کی ہے۔
پھر پچھلے ہفتے کی ہی تو بات ہے جب حکام نے ایریزونا کے لیوک ایر بیس کے نزدیک سینکڑوں رہائشیوں کو گھروں میں موجود پانی پینے سے روکا گیا تھا کیونکہ ٹیسٹ کیے جانے کے دوران پانی میں زہریلے کیمیائی مادے بہت بڑی مقدار میں پائے گئے تھے۔ امریکہ میں رہنے والے قریب قریب ہر شخص کے خون کے ٹیسٹ کے دوران ایسے مادے دریافت ہوئے ہیں۔ ایسے کیمیائی اجزاء دنیا کے ہر شخص کے بدن میں موجود ہیں بلکہ گہرے سمندر میں پائی جانے والی مچھلیوں اور ہوا میں اڑتے پرندوں کے جسموں میں بھی۔
یوں ہم باقاعدہ مر رہے ہیں۔ مادیہ منویہ میں تناسلی جرثوموں کی تیزی سے کم ہوتی مقدار کے بارے میں فوری طور پر غوروخوض کیا جانا چاہیے اور اس مسئلے کو آج سے ہی حل کرنے کی کوششیں کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر