نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست بہاولپور کی قربانی||ظہور دھریجہ

تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اخبارات ،الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائے ابلاغ پر یوم قرارداد پاکستان 23مارچ کے تذکرے جاری ہیں ۔ اس موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک آزادی سے لیکر قیامِ پاکستان اور بعد ازاں استحکام پاکستان کیلئے وسیب کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں ۔ وسیب کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ سابق ریاست بہاولپور نے پاکستان کیلئے دامے ، درمے ، قدمے، سخنے ساتھ دیکر قربانی و ایثار کی نئی تاریخ رقم کی۔
اب ان قربانیوں کو تسلیم کرنے اور اس خطے کے لوگوں کو اس کا صلہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کی خدمات سرائیکی عوام کی طرف سے تھیں کہ کسی بھی ملک کا فرمانروا محض امین ہوتا ہے، اصل مالک عوام ہوتے ہیں ۔ ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لئے کتنی خدمات ہیں ؟
اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہو تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،
پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی۔ قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کو بنایا گیا ۔جس کی ریاست بہاولپور کے مقابلے میں خدمات عشر عشیر بھی نہ تھیں۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔
تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواب آف بہاولپور وائسرائے ہند کے استقبال سے اجتناب کرتے تھے مگر قائد اعظم کا دل سے احترام کرتے۔ وجہ یہ بھی کہ ان کے اندر ہمدرد انسان کا دل موجود تھا ۔کوئٹہ میں1935ء میں زلزلہ آیا یا پھر 1947ء مین ہندوستان سے آبادکاروں کے قافلے بہاولپور اسٹیشن پہنچے۔نواب بہاولپور بنفس نفیس بہاولپور اسٹیشن پہنچے۔ تحائف نقدی کے علاوہ اپنے ہاتھ سے مصیبت زدگان میں طعام تقسیم کیا ۔
علامہ اقبال نواب آف بہاولپور کے مداح اور عقیدت مند تھے انہوں نے آج تک کسی بادشاہ کا قصیدہ نہ لکھا۔ مگر نواب آف بہاولپور کیلئے انہوں نے طویل قصیدہ لکھا۔ نواب بہاولپور پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک ،کنگ ایڈورڈ کالج کی نصف بلڈنگ اور لاہور ایچی سن کالج کے بہت سے کمرے لاکھوں روپے خرچ کر کے تعمیر کرائے۔ریاست بہاولپور کی طرف سے تعلیمی مقاصد کیلئے لاہور کو سالانہ جو گرانٹ جاری ہوتی رہی اس کی تفصیل کے مطابق کنگ ایڈروڈ کالج ڈیڑھ لاکھ ،اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ،انجمن حمایت اسلام پچھتر ہزار،ایچی سن کالج دوہزار،اور پنجاب یونیورسٹی لاہور بارہ ہزار اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے ہسپتالوں اور دوسرے رفاہی اداروں کی ریاست بہاولپور کی طرف سے لاکھوں کی مدد کی جاتی رہی ۔
افسوس کہ آج ان تمام احسانات کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بہاولپور رجمنٹ جو وسیب کی علامت تھی ، کو ختم کیا گیا ، ملازمتوں کے دروازے بند کئے گئے ، فارن سکالر شپ ختم ہوئی ، ریونیو بورڈ لاہور چلے جانے سے ناجائز الاٹمنٹوں کا طوفان اٹھا دیا گیا ، بہاولپور کے دریا بیچ دیئے گئے ، واہگہ بارڈر آج تک کھلا ہے مگر بہاولنگر جنکشن بند ، امروکہ بند ، اس کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا گیا کہ کراچی دہلی کا سب سے بڑا ریلوے ٹریک میکلوڈگنج جنکشن بند کر دیئے گئے ، آج بہاولنگر اسٹیشن پر جائیں تو دنیا کے خوبصورت اسٹیشن کی ویرانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، دریائے ستلج کی موت کے بعد آج اس خطے میں دوسرا چولستان وجود میں آرہا ہے۔ آنے والی حکومت کو ان امور کی طرف توجہ دینا ہوگی۔
نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا ۔
بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔ سرائیکی قوم کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ وسیب کے لوگوں نے طلے والا کھسہ یعنی سونے کی تاروں والے جوتے پہنے مگر قیام پاکستان کے بعد وسیب کا سب کچھ لوٹ لیا گیا ، سرائیکی صوبہ محاذ کے بانی سیٹھ عبید الرحمن مرحوم بتاتے تھے کہ جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بہاولپور کو پنجاب کے پیٹ میں ڈالدیا گیا تو پنجاب بیورو کریسی اس طرح ٹوٹ پڑی جیسے یہ علاقہ فتح کر لیا ہو اور تو اور دفتروں سے قالین تک اٹھا لئے گئے ۔
یہ ہے بھی کربناک حقیقت کہ قیام پاکستان کے بعد دوسرے علاقوں کی طرح ریاست بہاولپور کو بھی مفتوحہ علاقہ سمجھا گیا اور آج تک اسی طرح کا سلوک جاری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا محسنوں کو اس طرح کے صلے ملتے ہیں ؟ کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے وجود کی عمارت مقامی افراد کی سر زمین پر قائم ہے، اسے کوئی گملے کی شکل میں ہندوستان سے اُٹھا کر نہیں لایا ۔
مہاجر بھائیوں کی اولادیں جو یہاں پیدا ہوئی وہ اس دھرتی کے بیٹے ہیں ، ان کو فاتحانہ طرز و فکر اختیار کرنے کی بجائے اسی وسیب کا حصہ بننا چاہئے۔ حکمرانوں کی بے توجہی کے باعث آج پاکستان کے مقامی باشندوں کی حالت دیکھئے، وہ اپنے ہی گھروں میں مہاجر بنا دیئے گئے ، وہ صرف وسائل سے محروم نہیں ہوئے ، انکی زبان ، تہذیب و ثقافت بھی خطرات کا شکار ہے۔
جب یوم آزادی کے موقعہ پر ریڈیو ، ٹی وی پر ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ،میں بھی پاکستان ہوں۔ یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ سنتا ہے تو منہ میں انگلی ڈال کر سوچوں میں گم ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ یوم آزادی کا پیغام یہ ہے کہ وسائل اور مسائل کی برابر تقسیم اور تمام علاقوں کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو۔ تاکہ وہ بھی ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ، میں بھی پاکستان ہوں ‘‘ کی گنگناہٹ میں شریک ہوں ۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

About The Author