عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
مجھے لاہور سے محمد علی نثار کا فون آیا- وہ پوچھ رہے تھے کہ واجد شمس الحسن کی کتاب “بھٹو خاندان میری یادوں میں” کس نے شایع کی ہے اور کیسے ملے گی؟ یہ خبر خود میرے لیے بھی نئی تھی اور میرے دل میں اشتیاق پیدا کرنے والی تھی ۔ میں نے اسی وقت عکس پبلیکیشنز لاہور ے ڈائریکٹر نوفل جیلانی سے رابطہ کیا- انہوں نے مجھے بتایا کہ مجاہد بریلوی کےادارے لوح و قلم پبلیکیشنز نے اس کتاب کو شایع کیا ہے اور ساتھ ہی مجھے ان کا نمبر بھی دے ڈالا- میں نے ان کا نمبر ڈائل کیا، اس وقت کوئی جواب نہ آیا- اگلے دن میں نے اپنے موبائل فون پہ اس نمبر سے دو مرتبہ مس کال دیکھیں تو میں نے دوبارہ نمبر ملایا، اس مرتبہ بھی پھر فون نہیں اٹھایا گیا لیکن کچھ دیر بعد ہی اسی نمبر سے کال آنا شروع ہوگئی۔ فون پہ مجاہد بریلوی خود تھے۔ میں نے جیسے ہی اپنا نام بتایا تو کہنے لگے کہ یہ نام میں نے کسی جگہ پڑھا ہے،میں نے اپنا تعارف کرایا اور ان سے واجد شمس الحسن کی کتاب بھجوانے کی استدعا کی- انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف واجد شمس الحسن کی کتاب مجھے بھیج رہے ہیں بلکہ وہ مجھے حبیب جالب پہ مرتب کردہ کتاب بھی بھجوارہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ ایزی پیسا اکاؤنٹ بھجوادیں لیکن ابھی تک وہ اکاؤنٹ انھوں نے نہیں بھیجا لیکن ٹی سی ایس سے مجھے کتابیں اور ان کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ “رہبر” مل گئے ہیں-
واجد شمس الحسن کی کتاب میں نے 16 مارچ 2021ء کی شام پڑھنا شروع کی اور آج صبح 17 مارچ 2021ء کی صبح ناشتے کی میز پہ چائے نوش کرتے کرتے ختم کرڈالی- اس کتاب کے ملنے کے فوری بعد جب میں یہ پڑھ رہا تھا تو پی پی پی سٹی خانیوال کے سابق جنرل سیکرٹری محمد ارشاد گادھی تشریف لے آئے اور وہ واجبی پڑھے لکھے ہیں لیکن بھٹوز کی سیاست نے انھیں سیاسی شعور سے مالا مال کررکھا ہے اور ان کی دو بیٹیاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں- ان کو میں نے اس کتاب سے ایک اقتباس پڑھ کر سنایا اور جب اس اقتباس کے آخری لائنوں پہ پہنچے تو ہم دونوں کی آنکھیں بھیگ گئیں:
“مجھے معلوم تھا اس سگار کی قیمت 110 روپے ہے۔ میں نے کہا بھٹو صاحب! آپ مجھے اتنا مہنگا سگار پلا رہے ہیں ۔ اتنی تو میری تنخواہ نہیں۔ میں اتنا مہنگا سگار کیسے پیوں گا۔ بھٹو صاحب نے کہا۔ سگار کا ایک بکس آپ کو ہڑ مہینے ملتا رہے گا،یہ ہماری دوستی کا ۃخء ہے یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہا۔بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے نظیر بھٹوجب وزیراعظم تھیں تب بھی ہر مہینے ایک سگار کا ڈبہ مجھےمل جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زرینہ(بیگم واجد شمس الحسن) بے نظیر بھٹو سے کہا کرتی تھیں ، آپ ان کے لیے سگار کیوں لاتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ بی بی کہا کرتی تھیں، زرینہ واجد بھائی جب سگار پیتے ہیں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے بابا سگار پی رہے ہیں۔مجھے بابا کی وجہ سے سگار کی خوشبو اچھی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اکثر کوشش کرتا کہ اجلاس میں سگار نہ پیوں،مگر محترمہ مججھ سے پوچھتی تھیں، واجد بھائی آپ سگار کیوں نہیں پی رہے۔۔۔۔۔”
واجد شمس الحسن خوش قسمت آدمی ہیں کہ وہ دہلی میں سید شمس الحسن کے گھر پیدا ہوئے جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے معتمد ساتھی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسٹنٹ سیکرٹری رہے۔ ان کا گھردہلی میں دریا گنج میں تھا اور سارے ہندوستان سے مسلم لیگ کا جو رہنما دہلی آتا تو ان کی پہلی منزل سید شمس الحسن کا گھر ہی ہوا کرتا تھا۔ واجد شمس الحسن نے تقسیم ہند کے آخری مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس دوران آل انڈیا مسلم لیگ کی تمام اہلم شخصیات کو بھی انھوں نے دیکھا جن میں سے انھوں نے اپنی یادوں میں لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، پیر آف مانکی شریف، خان آف قلات، مولانا حسرت موہانی ، ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین، حسین شہید سہروردی، شیر بنگال فضل حق کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ ان کے والد کو بانی پاکستان نے اپنے ذاتی اور سرکاری خطوط و دستاویزات کا قیمتی اثاثہ دیا تھا جس میں سے انھوں نے دو کتابیں شایع کیں، ایک “صرف مسٹر جناح” اور دوسری کتاب ان کے خطوط کا مجموعہ ہے جبکہ باقی سب ریکارڈ واجد شمس الحسن نے پاکستان آرکائیوز اسلام آباد کے حوالے کردیا۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ان کے والد کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بہت گہرے تعلقات تھے اور بھٹو صاحب اکثر وبیشتر ان کے گھر آتے اور والد کی لائبریری روم میں بیٹھا کرتے تھے اور انھیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔
واجد شمس الحسن نے بھٹو صاحب کے حوالے سے اپنی یادوں کو قلمبند کرتے ہوئے پاکستان کی سیاست کے تاریخی لحاظ سے اہم واقعات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ جنگ میڈیا گروپ کے شام کے اخبار ڈیلی نیوز میں کام کرتے تھے جب ذوالفقار علی بھٹو کے ایوب حکومت سے اختلافات پیدا ہوئے اور معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو صاحب نے ایوب کابینہ سے استعفا دے ڈالا- ان دنوں بھٹو صاحب بار بار معاہدہ تاشقند کے تھیلے سے بلّی باہر نکالنے کا بہت زکر کرتے تھے۔ واجد شمس الحسن نے ایک دن بھٹو صاحب سے اس بلّی کی تفصیلات معلوم کرنا چاہی تو انہوں نے کہ اس بارے وقت آنے پہ وہ سارا راز افشا کریں گے ۔ لیکن تاشقند کے تھیلے سے وہ بلّی کبھی باہر نہ آسکی۔
انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے غضب کا حافظہ ہونے اور انتہائی دور تک دیکھنے والی نظر سے جڑے کئی ایک واقعات اپنی یادوں سے نکال کر پڑھنے کے لیے پیش کیے ہیں۔
اس کتاب کی تاریخی لحاظ سے زیادہ اہمیت اس وجہ سے بھی بنتی ہے کہ اس میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو پر پاکستان توڑنے کے الزام کا خود بھٹو صاحب کی بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں میں جائزہ لیا اور انھیں پاکستان توڑنے کے الزام سے بری کیا ہے۔ اس کتاب میں وہ پہلی بار موچی دروازے میں ذوالفقار علی بھٹو کے جلسہ عام میں خطاب کی تفصیل سامنے لائے ہیں جسے بنیاد بناکر روزنامہ آزاد لاہور میں عباس اطہر نے “ادھر ہم ادھر تم” کی سرخی لگائی اور اس سرخی کی بنیاد پہ ذوالفقار علی بھٹو پہ پاکستان توڑنے کا الزام لگتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
” بھٹو صاحب نے لاہور کے جلسے میں کہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں آپ کی اکثریت ہے اور مغربی پاکستان میں اگٹریت ہمیں ملی ہے- صوبائی خودمختاری کے تحت ہم مل کر حکومت کرسکتے ہیں- بھٹو صاحب نے کہا کہ ہم مل کر کوئی ایسا راستا نکالتے ہیں جس کے نتیجے ميں پاکستان متحد رہے۔ ادھر ہم خوش رہیں اور ادھر تم خوش رہو”
“میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے سانحے کے حوالے سے بھٹو صاحب کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا گیاتھا- وہ ایک سازش تھی۔ جس میں دائیں بازز کی جماعتیں، دانشور بھی شامل تھے اور بائیں بازو کا ایک حلقہ بھی۔”
ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے وقار، اس کے امیج کی کتنی پرواہ اور فکر تھی، اس کا اندازہ شملہ جانے والے پاکستانی صحافیوں اور دانشوروں سے جہاز میں روانگی کے وقت ان کے کہے الفاظ سے ہوتا ہے جس کا زکر واجد شمس الحسن نے اپنی اس کتاب میں تفصیل سے کیا ہے- جس کا اسکرین شاٹ اس کالم میں شامل ہے۔
واجد شمس الحسن نے اس کتاب میں تفصیل سے بتایا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دفاع کو روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے مضبوط بنانے کے لیے کون کون سے عملی اقدامات اٹھائے۔ اور انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو نصحیت کی تھی کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کو کبھی بھی کسی اسلامی ملک کو ٹرانسفر مت کرنا کیونکہ امریکی پاکستانی بم تو برداشت کرلیں گے لیکن وہ “اسلامی بم” کبھی برداشت نہیں کریں گے۔
اس کتاب میں انھوں نے بتایا ہے کہ کس طرح جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان کا غیر سرکاری پریس بھٹوخاندان کے خلاف جھوٹی خبریں شایع کررہا تھا، کیسے جنگ میڈیا گروپ کا اردو اخبار جنگ بھی اسی روش پہ عمل پیرا تھا جبکہ ڈیلی نیوز کے ایڈیٹر ہونے کے سبب واجد شمس الحسن نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور ایک موقعہ وہ آیا جب جنرل ضیاء الحق نے براہ راست میر خلیل الرحمان کو انھیں ہٹانے کو کہا، میر خلیل الرحمان نے ان کو اپنی روش بدلنے کو کہا تو وہ مستعفی ہونے کو بہتر خیال کرنے لگے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ایسا کرنے سے روکا اور کہا تھوڑی لچک پیدا کرلیں اور کوئی اور ایڈیٹر آگیا تو وہ زیادہ دشمنی کرے گا۔
واجد شمس الحسن کی اس کتاب میں پہلی بار جنرل مشرف کے مارشل لاء لگانے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس پہ ردعمل بارے باوثوق معلومات ملتی ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا پرنٹ میڈیا اور بعد ازاں الیکٹرانک میڈیا کس قدر بوگس رپورٹنگ اور جھوٹ پہ مبنی تجزیے کرتا رہا۔ انھوں نے جنرل مشرف سے بے نظیر بھٹو کی دبئی میں پہلی ملاقات سمیت بعد میں وطن واپسی تک ہونے والی پیش رفت کا تفصیلی احوال لکھا ہے۔ اس میں انھوں نے صاف لکھا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے کسی بھی موقعہ پہ اپنے اور اپنی پارٹی لیڈروں کے خلاف مقدمات ختم کرنے کی شرط عائد نہيں کی تھی- واجد شمس الحسن نے لکھا ہے کہ ان مذاکرات سے پہلے مشرف کے آنے کے پہلے مہینے جب مشرف نے بارہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا تو بے ںظیر بھٹو اس بات پہ بھی راضی تھیں کہ انتخابات سے دو سال پہلے صفائی ہو اور ایک آزاد و شفاف عدلیہ کے سامنے اور کسی بھی دباؤ سے آزاد ریاستی ادارے سب کا احتساب کریں لیکن جب احتساب ہی بدنیتی پہ مبنی ہو تو کیسے احتساب ہوسکتا تھا۔
اس کتاب میں محترمہ بے نظیربھٹو کی مسلم ممالک کے عوام سے دردمندی کے کئی چشم کشا واقعات درج کیے گئے ہیں جن میں سے ایک واقعہ صدام حسین کا کویت پہ حملہ تھا۔ بے ںطیر بھٹو سمجھتی تھیں کہ اگر ان کی صدر صدام حسین سے ملاقات ہوجاتی تو وہ صدام کو کویت سے واپسی پہ رضامند کرلیتیں۔ انہوں نے یاسر عرفات سے ملاقات کی اور ان سے بھی کہا کہ صدام حسین کو سمجھائیں وگرنہ امریکہ پورے مڈل ایسٹ کے مسلم ممالک کو تباہ و برباد کردے گا۔ یاسر عرفات نے اس موقعہ پہ امام جعفر صادق آل محمد سے منسوب ایک پیشن گوئی انھیں دکھائی اور اس میں مسلمانوں کے نجات دہندہ کے طور پر دو شخصیات کو جو پیش کیا گیا تھا اس کا مصداق اپن آپ کو اور صدام حسین کو قرار دیا تو بے ںطیر بھٹو نے کہا کہ اس سے آگے تو بات کرنےکی گنجائش ہی ختم ہوجاتی ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے وقت جب بے نظیر بھٹومصر کے دورے پر قاہرہ میں موجود تھیں تو وہاں سی آئی اے کا سربراہ ان سے ملنے کے لیے آنے والا تھا جو نہیں آیا تو پتا یہ چلا کہ اسے صدر غلام اسحاق نے بلایا تھا اور اسے کہا تھا کہ اپنی حکومت کو کہو کہ بے ںظیر بھٹو کی حمایت بند کردیں جوکہ ان کی مرضی و منشا کے خلاف ایٹمی مزائیل ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کررہی ہے- پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا اور ضیاء الحق کی باقیات اس زمانے میں بے نظیر بھٹو پہ اایٹمی پروگرام کا سودا کرنے اور کشمیر کاز کو ختم کرنے کا پروپیگنڈا کررہی تھی جبکہ واجد شمس الحسن کہتے ہیں کہ پاکستان کےایٹمی ہتھیاروں کو لیجانے والی مزائیل ٹیکنالوجی تک پاکستان کی رسائی کی انفارمیشن غلام اسحاق خان نے سی آئی اے کے سربراہ کو دی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا یہی پروپیگنڈا مشرف کے آخری دور میں اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد بھی کیا جاتا رہا۔
پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنساں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ذاتی خواہشات کے غلام کیسے عوام کے منتخب نمائندوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ سلوک کرتے ہيں، اس کا حوال بھي واجد شمس الحسن نے نومبر 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے ایف آئی اے کے ہاتھوں جس جسمانی اور ذہنی اذیت اور قید کا سامنا کیا اور جس طرح سے ان سے جھوٹا اعترافی بیان لینے کی کوشش ہوتی رہی اور اس کے پیچھے فاروق لغاری کا جو کردار تھا، اسے بھی انھوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔
اس کتاب میں واجد شمس الحسن نے “میموگیٹ سکینڈل” پہ نئے انکشافات کیے ہیں – ایسے ہی ایبٹ آباد امریکی آپریشن پہ بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ 74ء میں بھٹو صاحب سے بلوچستان میں فوجی آپریشن کی جو منظوری لی گئی اس کی بنیاد فوجی اور انٹیلی جنس قیادت کی بریفینگ پر تھی اور اس وقت ان اداروں میں جو لوگ لیڈ کررہے تھے انھوں ہی بعد ازاں بلوچ اور پشتون قیادت کو رہا کیا، ان پہ قآئم مقدمات ختم کردیے۔ اس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی جانے والی فوجی اور انٹیلی جنس رپورٹیں جن کی رو سے ولی خان، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو اور دیگر غدار تھے وہ بوگس تھیں۔ پاکستان میں کئی روشن خیال، لبرل دانشور و صحافی آج بھی بلوچستان آپریشن کا سارا ملبہ ذوالفقار علی بھٹو پہ ڈال دیتے ہیں۔
واجد شمس الحسن جو پیدائشی مسلم لیگی ، پاکستان کے قیام کے حامی ہیں اور اپنی اس میراث پہ فخر کرتے ہیں اس کتاب میں کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بلوچ، پشتون قوم پرستوں کے کانگریس سے الحاق اور ان کی پاکستان کے قیام کی مخالفت کے سبب ان سے سخت نفرت کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہیں یہ احساس ہوا کہ اپنی قوم سے محبت رکھنا، ان کے حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرنآ جرم نہیں ہے اور وہ اس معاملے میں غلط تھے۔
نئی نسل کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئیے تاکہ وہ اخباری سرخیوں سے قائم ہونے والے غلط سیاسی شعور کی جگہ ٹھیک سیاسی شعور حاصل کرسکیں- واجد شمس الحسن نے انتہائی قیمتی معلومات فراہم کی ہیں اور مجاہد بریلوی و رشید جمال مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے کئی ملاقاتوں میں یہ یادیں محفوظ کیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر