ذوالفقار علی لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
کسی مقامی آدی واس نے کہا تھا کہ جب اس زمین سے آخری درخت کاٹ دیا جائیگا، جب دنیا کی آخری مچھلی پکڑ کر پکا لی جائیگی ، جب سارے دریا زہر آلود کر دئے جائیں گے تب ہمیں احساس ہو گا کہ ہم کاغذ کی کرنسی سے اپنا پیٹ نہیں بھر سکتے !!
ہماری کرہ ارض پر کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ انسان چند ٹکوں کی خاطر اس زمین کے تمام وسائل کو اپنا حق ملکیت سمجھتا ہے اور ان کو بے دردی سے تباہ و برباد کر رہا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال ہیڈ تونسہ بیراج کے اپ سٹریم میں واقع لاشاری والا جنگل کے ساتھ ہونے والا درد ناک واقعہ ہے جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ جنگل پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے ۔ اس جنگل کے چاروں طرف دریا سندھ کا پانی بہتا ہے۔ تونسہ بیراج بننے کی وجہ سے یہاں قدرتی طور پر دریا کی مٹی آہستہ آہستہ اکٹھی ہوتی گئی اور یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت جزیرہ بن گیا جس کے اندر مختلف القسم کے درخت اور نباتات کا جنم ہونے لگا۔ دریا کی لائی ہوئی مٹی بہت زرخیز ہوتی ہے اس لئے یہاں پر چند سالوں میں ایک گھنا جنگل اُگ آیا۔اس جنگل میں آہستہ آہستہ مختلف جانور، نایاب پرندے اور بہت ساری حشرات کو بھی نیا گھر مل گیا۔ اس گھنے جنگل میں ہرن، بارہ سنگھا، جنگلی بیل اور گائیں، سنہرا گیدڑ، نایاب لومڑی اور جنگلی سور بڑی تعداد میں اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ اس جنگل میں دیسی شہد کی مکھیاں بھی بڑی تعداد میں اپنے چھتے بناتی ہیں اور سالانہ سینکڑوں من شہد یہاں پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاؤہ اس میں روس اور سائیبیریا سے ہجرت کرنے والے پرندے بھی بڑی تعداد میں ہر سال آکر آباد ہوتے ہیں اور اپنا وقت گزارتے ہیں۔ یہاں پر مقامی پرندوں کی بھی بہتاب ہے جس میں کالا تیتر، کوے، ٹیل، مرغابی اور بٹیر رہتے ہیں۔ درختوں میں زیادہ تر ” لائی” اور بھان کے درخت اُگتے ہیں ۔اس کے علاؤہ یہاں پر بڑی تعداد میں ” سچا کانا” جس کی ” پتلیں ” بنائی جاتی ہیں پایا جاتا ہے جس سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ یہ بہت بڑی چراگاہ بھی ہے جہاں بھینسیں اور گائیں چرتی رہتی ہیں۔
اتنے وسائل سے بھر پور جنگل کو اپنے تصرف میں لینے کیلئے یہاں مقامی طاقتور لوگوں اور سیاسی خاندانوں کے درمیان چپقلش بھی جاری رہتی ہے۔ عموما جو کوٹ ادو اور کے حلقے سے ایم این اے یا ایم پی اے بنتا ہے جنگل بھی اس کے قبضے میں آ جاتا ہے اور وہ اس جنگل کو سونے کی چڑیا سمجھ کر اسے کو اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ یہاں کی مقامی اشرافیہ اپنی پارٹیوں کے سربراہوں اور مقامی انتظامیہ کو خوش کرنے کیلئے ان کو نایاب پرندوں کا شکار کرواتی ہے، ان کو شہد کی بوتلیں بھیجتی ہے، بارہ سنگھے اور ہرن کا گوشت بھیجتی ہے اور کبھی کبھی بلا کر شکار بھی کرواتی ہے، یہاں شغل میلے کے طور پر جنگلی سوروں پر کُتے چھوڑ کر بے رحمانہ رسم کا بھی احتمام کیا جاتا ہے۔ اس جنگل کو بچانے کیلئے مختلف محکمے بھی قائم ہیں جن میں محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف قابل ذکر ہیں۔ مگر شومئی قسمت یہی محکمے اور ادارے اس کی حفاظت کرنے کی بجائے اس کو ویران کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
سیاسی طور پر مضبوط تین خاندان اس جنگل پر قابض رہے جن میں سب سے پہلے میلادی کھر اور مصطفی کھر کا خاندان اس جنگل پر قابض رہا۔ اس کے بعد مڈ نائنٹی میں جب نواز شریف کی حکومت آئی تو یہاں پر بھی طاقت کا توازن ہنجرا خاندان کے حصے میں آیا اور جنگل بھی ان کے قبضے میں آگیا۔ بیس پچیس سال تک اس جنگل پر ہنجرا خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ اس خاندان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو جنگل سے محبت کرتے تھے اور ان کی وجہ سے یہ جنگل کافی پھلتا پھولتا بھی رہا۔ یقینا ہنجرا خاندان بھی اس کو اپنے فائدے اور مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا مگر درختوں کی کٹائی اور بڑے پیمانے پر شکار نہیں ہوا۔ سنئہ 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ہنجرا خاندان بھی یہاں سے ہار گیا اور اقتدار اشرف خان رند اور شبیر قریشی کے پاس چلا گیا۔ پی ٹی آئی کے ایم پی اے اشرف رند نے جب اس جنگل کو ہنجرا خاندان سے چھڑا کر اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی تو یہاں سے اس جنگل کی تقدیر میں بھی ایک خوفناک موڑ آیا۔ مقامی انتظامیہ اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر اشرف خان رند نے جنگل کا زیادہ تر حصہ ہنجرا خاندان سے ہتھیا لیا اور پھر اس حصے پر لوٹ مار کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ جنگل رامسر سائیٹ ڈیکلئرڈ ہے اور اسے پرندوں جانوروں کے تحفظ کی تسلیم شدہ جگہ ہے جہاں پر شکار کرنا منع ہے۔
پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے سب سے پہلے اس جنگل کے درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا اور ہزاروں درخت کاٹ دئیے گئے جن کا سب سے بڑا مقصد پیسہ کمانا تو تھا ہی لیکن اس کے پس منظر میں وسیع پیمانے پر ایک منصوبہ بندی بھی تھی تاکہ جنگل جب اچھی طرح سے صاف کر دیا جائے تب اس زمین پر نقد آور فصلیں کاشت کر کے اسے مستقل طور پر قبضے میں لے لیا جائے ۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
جب جنگل کاٹا جا رہا تھا تب بھی سب ادرواں کو علم تھا مگر وہ اس جرم اور دھندے میں ملوث تھے اس لئے انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔
میرا ماننا ہے جنگل اور دریا سوچتے بھی ہیں اور اپنے بچاؤ کیلئے حکمت عملی بھی بناتے ہیں ۔ اس تناظر میں ایک دن میں اور میرے کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے تو ہم نے اچانک منصوبہ بنایا کہ آج جنگل کی سیر کرتے ہیں۔ جب ہم وہاں پر پہنچے تو ہم نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ جنگل کو بے دردی سے کاٹا جا رہا تھا، صاف کی گئی زمین پر ٹریکٹر ہل چلا رہے تھے ، شکاری کتوں کے غول کے غول جنگل کے اندر پھر رہے تھے، بہت سارے جانوروں کو یا تو زندہ پکڑ کر بیچ دیا گیا تھا یا ان کو شکار کر کے مار دیا گیا تھا اور ان کا گوشت سیکرٹریز سے لیکر پارٹیوں کے سر براہوں کے دستر خوانوں میں پکا کر کھایا جا چکا تھا۔ اور باقی ماندہ جنگل پر قبضے کی جنگ جاری تھی۔ اس دوران میں نے ایک ویڈیو بنائی اور “ Wisdom Saga” کے پلیٹ فارم پر چڑھا دی۔
یہ ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تو ان کو تھوڑا سا ڈر محسوس ہوا۔ پھر انہوں نے جلد بازی میں اپنا قبضہ مکمل کرنے کیلئے پورے جنگل کو ہی آگ لگا دی۔ مقامی ذرائع سے جو سروے کیا گیا اس کے مطابق دو ہزار ایکڑ پر جنگل جل کر راکھ ہو گیا، ہزاروں پرندے جل گئے، لاکھوں گھونسلے آگ کا ایندھن بنے ، کئی قیمتی جانور جھلس گئے اور جو بچ گئے وہ ڈر کے مارے یا تو دریا میں کود گئے یا کچھ تیر کر باہر آبادی میں پھیل گئے۔
یہ قیامت خیز منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور ان کا درد بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ مجھے اب یہ معلوم ہے کہ اتنا سب ہو جانے کے بعد اب انکوائری ہو رہی ہے اور انکوائری بھی وہی ادارے کر رہے ہیں جو اس دھندے میں خود ملوث ہیں۔ اس رپورٹ میں کیا ہو گا وہ پاکستان میں رہنے والے لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔اس لئے یہاں سول سوسائٹی نے احتجاج بھی کیا اور مطالبہ رکھا کہ جو بھی اس واقعے میں ملوث ہے اس کی آزاد اداروں سے انکوائری کروائی جائے اور اس پر ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے،جو اپنی سفارشات مرتب کر کے اس جرم میں ملوث لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دے تاکہ آئندہ یہ ظلم کرنے کی جرات کوئی نہ کرے۔
اس سارے واقعے کی ویڈیوز ہمارے یو ٹیوب چینل ” وزڈم ساگا ” پر موجود ہیں اگر کسی میں یہ درد ناک منظر دیکھنے کا حوصلہ ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
آخری بات یہ زمین ہمارا گھر ہے ، اس گھر کو جو بھی گندہ کرے اس کو بے نقاب کیا جائے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب بطور انسان ہم اتنے تہی دامن ہو جائیں گے کہ ہمارے پاس چند کالی سڑکیں، کنکریٹ کی عمارتیں اور بڑی بڑی مشینری ہو گی اور کچھ نہیں ہوگا بس پھر رہ لیجئے گا ان کے ساتھ !!!
ہماری کرہ ارض پر کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ انسان چند ٹکوں کی خاطر اس زمین کے تمام وسائل کو اپنا حق ملکیت سمجھتا ہے اور ان کو بے دردی سے تباہ و برباد کر رہا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال ہیڈ تونسہ بیراج کے اپ سٹریم میں واقع لاشاری والا جنگل کے ساتھ ہونے والا درد ناک واقعہ ہے جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ جنگل پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے ۔ اس جنگل کے چاروں طرف دریا سندھ کا پانی بہتا ہے۔ تونسہ بیراج بننے کی وجہ سے یہاں قدرتی طور پر دریا کی مٹی آہستہ آہستہ اکٹھی ہوتی گئی اور یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت جزیرہ بن گیا جس کے اندر مختلف القسم کے درخت اور نباتات کا جنم ہونے لگا۔ دریا کی لائی ہوئی مٹی بہت زرخیز ہوتی ہے اس لئے یہاں پر چند سالوں میں ایک گھنا جنگل اُگ آیا۔اس جنگل میں آہستہ آہستہ مختلف جانور، نایاب پرندے اور بہت ساری حشرات کو بھی نیا گھر مل گیا۔ اس گھنے جنگل میں ہرن، بارہ سنگھا، جنگلی بیل اور گائیں، سنہرا گیدڑ، نایاب لومڑی اور جنگلی سور بڑی تعداد میں اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ اس جنگل میں دیسی شہد کی مکھیاں بھی بڑی تعداد میں اپنے چھتے بناتی ہیں اور سالانہ سینکڑوں من شہد یہاں پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاؤہ اس میں روس اور سائیبیریا سے ہجرت کرنے والے پرندے بھی بڑی تعداد میں ہر سال آکر آباد ہوتے ہیں اور اپنا وقت گزارتے ہیں۔ یہاں پر مقامی پرندوں کی بھی بہتاب ہے جس میں کالا تیتر، کوے، ٹیل، مرغابی اور بٹیر رہتے ہیں۔ درختوں میں زیادہ تر ” لائی” اور بھان کے درخت اُگتے ہیں ۔اس کے علاؤہ یہاں پر بڑی تعداد میں ” سچا کانا” جس کی ” پتلیں ” بنائی جاتی ہیں پایا جاتا ہے جس سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ یہ بہت بڑی چراگاہ بھی ہے جہاں بھینسیں اور گائیں چرتی رہتی ہیں۔
اتنے وسائل سے بھر پور جنگل کو اپنے تصرف میں لینے کیلئے یہاں مقامی طاقتور لوگوں اور سیاسی خاندانوں کے درمیان چپقلش بھی جاری رہتی ہے۔ عموما جو کوٹ ادو اور کے حلقے سے ایم این اے یا ایم پی اے بنتا ہے جنگل بھی اس کے قبضے میں آ جاتا ہے اور وہ اس جنگل کو سونے کی چڑیا سمجھ کر اسے کو اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ یہاں کی مقامی اشرافیہ اپنی پارٹیوں کے سربراہوں اور مقامی انتظامیہ کو خوش کرنے کیلئے ان کو نایاب پرندوں کا شکار کرواتی ہے، ان کو شہد کی بوتلیں بھیجتی ہے، بارہ سنگھے اور ہرن کا گوشت بھیجتی ہے اور کبھی کبھی بلا کر شکار بھی کرواتی ہے، یہاں شغل میلے کے طور پر جنگلی سوروں پر کُتے چھوڑ کر بے رحمانہ رسم کا بھی احتمام کیا جاتا ہے۔ اس جنگل کو بچانے کیلئے مختلف محکمے بھی قائم ہیں جن میں محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف قابل ذکر ہیں۔ مگر شومئی قسمت یہی محکمے اور ادارے اس کی حفاظت کرنے کی بجائے اس کو ویران کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
سیاسی طور پر مضبوط تین خاندان اس جنگل پر قابض رہے جن میں سب سے پہلے میلادی کھر اور مصطفی کھر کا خاندان اس جنگل پر قابض رہا۔ اس کے بعد مڈ نائنٹی میں جب نواز شریف کی حکومت آئی تو یہاں پر بھی طاقت کا توازن ہنجرا خاندان کے حصے میں آیا اور جنگل بھی ان کے قبضے میں آگیا۔ بیس پچیس سال تک اس جنگل پر ہنجرا خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ اس خاندان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو جنگل سے محبت کرتے تھے اور ان کی وجہ سے یہ جنگل کافی پھلتا پھولتا بھی رہا۔ یقینا ہنجرا خاندان بھی اس کو اپنے فائدے اور مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا مگر درختوں کی کٹائی اور بڑے پیمانے پر شکار نہیں ہوا۔ سنئہ 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ہنجرا خاندان بھی یہاں سے ہار گیا اور اقتدار اشرف خان رند اور شبیر قریشی کے پاس چلا گیا۔ پی ٹی آئی کے ایم پی اے اشرف رند نے جب اس جنگل کو ہنجرا خاندان سے چھڑا کر اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی تو یہاں سے اس جنگل کی تقدیر میں بھی ایک خوفناک موڑ آیا۔ مقامی انتظامیہ اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر اشرف خان رند نے جنگل کا زیادہ تر حصہ ہنجرا خاندان سے ہتھیا لیا اور پھر اس حصے پر لوٹ مار کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ جنگل رامسر سائیٹ ڈیکلئرڈ ہے اور اسے پرندوں جانوروں کے تحفظ کی تسلیم شدہ جگہ ہے جہاں پر شکار کرنا منع ہے۔
پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے سب سے پہلے اس جنگل کے درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا اور ہزاروں درخت کاٹ دئیے گئے جن کا سب سے بڑا مقصد پیسہ کمانا تو تھا ہی لیکن اس کے پس منظر میں وسیع پیمانے پر ایک منصوبہ بندی بھی تھی تاکہ جنگل جب اچھی طرح سے صاف کر دیا جائے تب اس زمین پر نقد آور فصلیں کاشت کر کے اسے مستقل طور پر قبضے میں لے لیا جائے ۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
جب جنگل کاٹا جا رہا تھا تب بھی سب ادرواں کو علم تھا مگر وہ اس جرم اور دھندے میں ملوث تھے اس لئے انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔
میرا ماننا ہے جنگل اور دریا سوچتے بھی ہیں اور اپنے بچاؤ کیلئے حکمت عملی بھی بناتے ہیں ۔ اس تناظر میں ایک دن میں اور میرے کچھ دوست بیٹھے ہوئے تھے تو ہم نے اچانک منصوبہ بنایا کہ آج جنگل کی سیر کرتے ہیں۔ جب ہم وہاں پر پہنچے تو ہم نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ جنگل کو بے دردی سے کاٹا جا رہا تھا، صاف کی گئی زمین پر ٹریکٹر ہل چلا رہے تھے ، شکاری کتوں کے غول کے غول جنگل کے اندر پھر رہے تھے، بہت سارے جانوروں کو یا تو زندہ پکڑ کر بیچ دیا گیا تھا یا ان کو شکار کر کے مار دیا گیا تھا اور ان کا گوشت سیکرٹریز سے لیکر پارٹیوں کے سر براہوں کے دستر خوانوں میں پکا کر کھایا جا چکا تھا۔ اور باقی ماندہ جنگل پر قبضے کی جنگ جاری تھی۔ اس دوران میں نے ایک ویڈیو بنائی اور “ Wisdom Saga” کے پلیٹ فارم پر چڑھا دی۔
یہ ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تو ان کو تھوڑا سا ڈر محسوس ہوا۔ پھر انہوں نے جلد بازی میں اپنا قبضہ مکمل کرنے کیلئے پورے جنگل کو ہی آگ لگا دی۔ مقامی ذرائع سے جو سروے کیا گیا اس کے مطابق دو ہزار ایکڑ پر جنگل جل کر راکھ ہو گیا، ہزاروں پرندے جل گئے، لاکھوں گھونسلے آگ کا ایندھن بنے ، کئی قیمتی جانور جھلس گئے اور جو بچ گئے وہ ڈر کے مارے یا تو دریا میں کود گئے یا کچھ تیر کر باہر آبادی میں پھیل گئے۔
یہ قیامت خیز منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور ان کا درد بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ مجھے اب یہ معلوم ہے کہ اتنا سب ہو جانے کے بعد اب انکوائری ہو رہی ہے اور انکوائری بھی وہی ادارے کر رہے ہیں جو اس دھندے میں خود ملوث ہیں۔ اس رپورٹ میں کیا ہو گا وہ پاکستان میں رہنے والے لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔اس لئے یہاں سول سوسائٹی نے احتجاج بھی کیا اور مطالبہ رکھا کہ جو بھی اس واقعے میں ملوث ہے اس کی آزاد اداروں سے انکوائری کروائی جائے اور اس پر ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے،جو اپنی سفارشات مرتب کر کے اس جرم میں ملوث لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دے تاکہ آئندہ یہ ظلم کرنے کی جرات کوئی نہ کرے۔
اس سارے واقعے کی ویڈیوز ہمارے یو ٹیوب چینل ” وزڈم ساگا ” پر موجود ہیں اگر کسی میں یہ درد ناک منظر دیکھنے کا حوصلہ ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
آخری بات یہ زمین ہمارا گھر ہے ، اس گھر کو جو بھی گندہ کرے اس کو بے نقاب کیا جائے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب بطور انسان ہم اتنے تہی دامن ہو جائیں گے کہ ہمارے پاس چند کالی سڑکیں، کنکریٹ کی عمارتیں اور بڑی بڑی مشینری ہو گی اور کچھ نہیں ہوگا بس پھر رہ لیجئے گا ان کے ساتھ !!!
اے وی پڑھو:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر