حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ملک میں نفرتوں کی سیاست کس نے شروع کی اور دوام کس نے دیا۔ لمبی کہانی ہے اور بدقسمتی سے اس میں وہ جماعت بھی شامل ہے جس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان اس نے بنایا تھا۔
خیر اس دعوے کو اٹھارکھیئے کیونکہ تاریخ کے دفتر کھلے تو بہت سارے ’’شرفا‘‘ کی پگڑیاں اچھلیں گی۔ شرفا کی پگڑیاں اچھالنا اچھی بات تو نہیں نا۔
تاریخ و سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے ہماری رائے یہ ہے کہ اب آگے بڑھ لیجئے۔نفرت، عدم برداشت، یہ چور وہ لٹیرا۔ فلاں غدار، فلاں یہودوہنود کا ایجنٹ اور کفر کفر سے کھیلنے سےا جتناب ضروری ہوگیا ہے، بہت بھگت لئے، اتنا کچھ گنواچکے کہ اگر نہ گنوایا ہوتا تو حالات اتنے برے نہ ہوتے۔
مسائل بڑھ رہے بلکہ سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ کورونا وبا کو آپ وبا سمجھیں یا فراڈ، مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس کی پچھلی دو لہروں کے دوران مجموعی طور پر ایک کروڑ پچاسی لاکھ افراد بیروزگار ہوئے۔
دو دن اُدھر ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ان افراد کی تعداد میں مزید 38فیصد اضافہ ہوا ہے جو آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن کا شکار ہوئے ہیں۔
کچھ دیر قبل میرے ایک دوست ڈاکٹر طلعت محمود نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’کورونا وبا کی وجہ سے دیگر مسائل تو ہیں ہی نفسیاتی عوارض کے مریضوں میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے‘‘۔
ٹھنڈے دل سے اہل اقتدار اور قائدین حزب اختلاف کو سوچنا چاہیے کہ اس مملکت میں بسنے والے لوگوں کے قائدین کی حقیقی اور اولین ذمہ داری کیا ہے؟
شبلی فراز تبدیلی سرکار کے وفاقی وزیر اطلاعات اور عمران خان کی کچن کیبنٹ کا حصہ ہیں اپنی سینہ زوری اور منہ زوری (یعنی ڈبل پی ایچ ڈی ہیں) کی وجہ سے ہی اطلاعات و نشریات کے وزیر بنائے گئے۔ وہی شبلی فراز بھی گزشتہ روز کہہ اٹھے ’’حکومت اور اپوزیشن کو اختلافات ایک طرف رکھ کر مل بیٹھناچاہیے تاکہ معاشی استحکام کے لئے غوروفکر کے بعد حکمت عملی وضع کی جائے‘‘۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ کاش یہ خیال زبان داری کے عالمی مقابلوں سے قبل آیا ہوتا۔ مگر کوئی بات نہیں خیال آہی گیا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔
معاشی عدم استحکام کی کئی وجوہات ہیں۔ اہم ترین وجہ پچھلے 41برسوں کی افغان پالیسی ہے۔
میرے پشتون دوست کہتے ہیں افغان پالیسی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا منافع بخش کاروبار ہے۔
مجھ میں تردید کی ہمت نہیں مگر ہمیں (مجھے اور پشتونوں) کو یہ سوچنا ہوگاکہ اس پالیسی کے نقصانات کا بوجھ تو عوام اٹھارہے ہیں
9/11کے بعد کے جب ہمارے کمانڈو صدر نے الٹی زقند بھرتے ہوئے امریکہ کی نئی ملازمت پر اکتفا کرنے میں دانائی جانی تو ان سطور میں ہی عرض کیا تھا (اُن دنوں پشاور کے ایک اخبار سے بطور ایڈیٹر منسلک تھا)
’’ افغان انقلاب ثور کے بعد ہم نے جو افغان پالیسی اپنائی اس کی وجہ سے ملکی معیشت کو 3سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اب جو راستہ اپنایا جارہا ہے یہ مزید زیربار کرے گا ایک خاص طبقے کی دیہاڑیاں اور موجیں ضرور لگیں گی مگر مملکت اور عوام بدحال ہوں گے‘‘۔
بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ کچھ عرصہ قبل اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اعترافی بیان تو آیا کہ 40سال کی افغان پالیسی غلط تھی اس نے ہمارے لئے مسائل پیدا کئے۔
افسوس کہ یہ بیان بیان ہی رہا تبدیلی دیکھائی نہیں دی۔
معاشی ابتری کا جب بھی ’’ذکرِخیر‘‘ ہوگا افغان پالیسی ضرور زیربحث آئے گی کیونکہ یہ پالیسی ہماری معیشت پر ہمالیہ جتنا بوجھ ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔
معاشی بوجھ بننے والی پالیسیوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے منظم منصوبہ بندی کے تحت یہاں سیاستدانوں کو گالیاں دلوائی گئیں۔
ساعت بھر کے لئے رکیئے، سیاستدان فرشتے ہرگز نہیں انسان ہیں میری اور آپ کی طرح گوشت پوست کے، مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ بربادیوں میں ان کا حصہ دو سے تین فیصد بھی نہیں بنے گا۔
پچھلے چالیس بیالیس برسوں کے نقصانات (معاشی) کی بڑی ذمہ داری افغان پالیسی پر ہے۔ اگلے مرحلہ میں اس لشکر پرستی پر جو باقاعدہ ریاست نے بنوائے، سجائے، پالے اور وہ پھر ریاست کے ساتھ عوام کے گلے پڑگئے۔
یہاں ایک سوال ہے وہ یہ کہ افغان پالیسی کے دونوں مرحلوں (9/11سے قبل اور بعد میں) میں امریکہ سے جو کچھ بھی وصول ہوا وہ گیا کہاں؟
میں بھی کتنا سادہ ہوں کہ پوچھ رہا ہوں کہ کہاں گیا۔
یقیناً آپ میری طرح سادہ نہیں ہوں گے اس لئے جانتے ہوں گے کہ وہ سارا مال کہاں گیا۔
میں جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کے بچوں (یہ ایک مثال ہے) کو دیکھتا ہوں تو پتہ نہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ انہوں نے پائوں میں جوتوں کی جگہ ہمارے ان پیاروں کے سر پہن رکھے ہیں جو ان کے باپوں نے افغان جنگ میں مروادیئے تھے۔
کسی دن حساب کیجئے کہ افغان پالیسی اور جہاد یا 9/11 کے بعد کی انسداد دہشت گردی جنگ میں کتنے سیاستدان امیر ہوئے۔
کتنے مُلا، جہادی فرنچائزی اور اسٹیبلشمنٹ کے بڑے۔
معاف کیجئے گا بات دور نکل گئی میں تو یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر معاشی استحکام کے لئے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے اور اگر دونوں مل بیٹھیں تو خدا کے لئے ان ساری پالیسیوں سے جان چھڑوادیں جو ہماری معیشت پر بوجھ ہیں
یا یوں کہہ لیں یہ پالیسیاں نہیں جونکیں ہیں جو معیشت کے ساتھ ہمارا بھی خون چوستی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر