پی ڈی ایم کی میٹنگ میں کھلم کھلا Clash ہوا اور بات کریش تک آ گئی۔ دوسری جانب ن لیگ اور مریم نواز Smash کیے جانے کی دھمکیوں کے باوجود اپنا جارحانہ انداز ِسیاست برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات دراصل آئیڈلسٹک (تصوراتی)اور رئیلسٹک (حقیقت پسندانہ)رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مریم نواز، مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف چاہتے ہیں کہ اجتماعی استعفے دے کر لانگ مارچ کیا جائے اور یوں پارلیمان کے اندر اور باہر ایسی بحرانی صورتحال پیدا کر دی جائے کہ حکومت کے پاس نئے الیکشن کروانے کے سوا چارہ نہ ہو۔

دوسری طرف آصف زرداری کا حقیقت پسندانہ رویہ یہ کہتا ہے کہ فی الحال ملک میں بحرانی صورتحال نہیں، پارلیمان سے استعفے دینے کا اس وقت تک فائدہ نہیں جب تک پورے ملک میں احتجاج کی فضا نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ عمران خان کی طرح اسمبلیوں سے استعفے دے دیں اور ان کا اثر بھی نہ ہو اور پھر وہ استعفے واپس لینے پڑیں۔

آصف زرداری کا موقف یہ ہے کہ مرحلہ وار چلا جائے اور سب سے آخری اقدام اجتماعی استعفے ہوں جب اس کے لیے فضا تیار ہو اور جب استعفے دیے جائیں تو حکومت کے لیے نئے الیکشن کے سوا کوئی آپشن بچا ہی نہ ہو۔

اصولی اختلافات کے علاوہ پی ڈی ایم میں مفادات کا کھیل بھی موجود ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت نہیں چھوڑنا چاہتی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد سندھ میں ان کے مخالف برسر اقتدار آ جائیں گے اور ان کے لیے سندھ کی محفوظ پناہ گاہ ایک آزمائش گاہ میں تبدیل ہو جائے گی۔

پیپلزپارٹی کو جام صادق اور ارباب رحیم کے ادوار یاد ہیں اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ ان ادوار ہی کی طرح حالات پیدا ہوں۔ پیپلزپارٹی یہ بھی سوچتی ہے کہ ن لیگ ان سے سندھ حکومت کی قربانی مانگ رہی ہے اور بدلے میں الیکشن کے بعد نو ن لیگ کو حکومت ملے گی پیپلز پارٹی خالی ہاتھ رہ جائے گی۔ زرداری صاحب اپنا اقتدار قربان کر کے تاج و تخت ن لیگ کے حوالے کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔

پاکستان کی اپوزیشن

مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی ادھوری تحریک نہ چلائے، وہ چاہتے ہیں کہ سندھ حکومت برقرار رکھنے اور اجتماعی استعفوں سے انکار کر کے پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اجتماعی استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کیا جائے کیونکہ یہ ایک ادھوری کوشش ہو گی۔ ان کی خواہش ہے کہ لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے اگر ایک ساتھ آ جائیں تو یہ حکومت کو گرانے اور کمزور کرنے کا کارگر حربہ ہوں گے۔

پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی دراصل اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل میں لگی ہوئی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت اور سندھ حکومت کا برقرار رہنا دراصل اسی ڈیل کا حصہ ہے۔

ن لیگ کے بعض انتہا پسند تو یہ الزام بھی لگا دیتے ہیں کہ زرداری صاحب نہ تو نئے انتخابات چاہتے ہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت کو فوراً گرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سندھ حکومت چلتی رہے اور پیپلز پارٹی پارلیمان میں بھی موجود رہے۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی کا ایک دیرینہ موقف یہ ہے کہ چاہے دھاندلی ہو یا نا انصافی ان کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ پارلیمانی سیاست کے اندر موجود رہ کر سیاست کرنا ہی بہتر ہے۔ پارلیمان سے باہر ہو گئے تو آپ سسٹم سے باہر ہو جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا یہ موقف بھی ہے کہ لانگ مارچ تو ٹھیک ہے مگر دھرنا دے کر دارالحکومت کا محاصرہ کرنا ٹھیک نہیں۔ دونوں فریقوں کے دلائل میں اپنا اپنا وزن ہے۔

اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ جائے گی مگر میری رائے ہے کہ اختلافات کے باوجود یہ اکھٹے چلتے رہیں گے۔ ان کے اختلافات بھی موجود رہیں گے اور یہ سیاست کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ بھی نکالتے رہیں گے۔

پی ڈی ایم کو اگر اپنے مستقبل کو محفوظ کرنا ہے تو انہیں کسی ایک پارٹی کے مفاد کے بجائے اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ ساری قربانیاں پیپلزپارٹی سے مانگیں گے اور انہیں بدلے میں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا تو وہ کیوں اس حکمت عملی کو مانیں گے؟

اس لیے پی ڈی ایم کو چاہیے کہ سب کو ساتھ چلانے کے لیے ٹھنڈے دل سے حکمت عملی ترتیب دیں۔ مولانا فضل الرحمن ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں انہیں اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے سب سیاسی جماعتوں کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے تحفظات کو ختم کرنے کے لیے الیکشن کے بعد کے منظر نامے پر بھی ابھی سے گفتگو ہونی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے حصہ ملے گا؟ کیا انتخابی اتحاد بنے گا؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کا جواب حاصل کیے بغیر پیپلزپارٹی سے سندھ حکومت کی قربانی مانگنا جائز نہیں بنتا۔