حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الزام سو فیصد درست ہے، آصف علی زرداری نے بلوچستان میں نون لیگ کی اتحادی حکومت کا تختہ الٹوایا۔ پھر اگلے مرحلہ پر صادق سنجرانی کو سینیٹ چیئرمین بنوایا۔ لیکن میاں نوازشریف نے نون لیگ کی بلوچستان حکومت گرائے جانے کا ذمہ دار سی پیک اتھارٹی کے موجودہ سربراہ عاصم سلیم باجوہ کو قرار دیا۔ پتہ نہیں درست موقف کس کا ہے اورغلط کون ہے قائد یا مجاہدین؟
2018میں سینیٹ انتخابات کے وقت نون لیگ کی حکومت تھی اور پیپلزپارٹی اپوزیشن میں پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن جماعتیں اتحاد بناتی ہیں تب پی پی پی تحریک انصاف اور آزاد ارکان نے مل کر اتحاد بنایا۔ صادق سنجرانی چیئرمین بنے۔ پی پی پی کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین۔
یہ عمل آج بھی طعنہ ہے لیکن حال ہی میں نون لیگ نے پنجاب میں سینیٹ کی 5نشستیں بلامقابلہ حاصل کرنے کی پیشکش پر لبیک کہا تحریک انصاف اور نون لیگ کو پنجاب سے سینیٹ کی پانچ پانچ اور ق لیگ کو ایک نشست مل گئی۔
خیبر پختونخوا میں اپوزیشن کے کن7ارکان نے خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور کن9ارکان نے ٹیکنو کریٹ نشست پر تحریک انصاف کو۔ اس صوبے میں اپوزیشن کو4نشستیں ملنی چاہئیں تھیں لیکن دو ملیں۔ کسی میں ہمت ہے نون لیگ اور جے یو آئی سے سوال کرے؟
جی نہیں جمہوریت خطرے میں پڑجائے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجاہدین سول سپر میسی آپ کو گالیاں دیں۔ زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی اور پھر دبئی میں پناہ لے لی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے نوازشریف نے لندن میں پناہ لے رکھی ہے۔ حساب برابر۔
منگل کو ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد سے نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے حامی ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان کے خیالات درست ہوں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ جب پی ڈی ایم کی گیارہ میں سے نو جماعتیں اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر لانگ مارچ کرنے پر متفق تھیں تو پیپلزپارٹی کی خواہش پر اسے وقت دینے اور پھر ہمدردوں سے حملہ کرانے کی بجائے بہتر یہ تھا کہ9جماعتیں مستعفی ہونے کا اعلان کرتیں اور مقررہ تاریخ پر لانگ مارچ شروع کردیتیں۔
آگے رب جانے اور رب ہی جانے۔
ایک علاقائی جماعت جو صرف سندھ تک محدود ہے، صوبہ پنجاب میں اس کا وجود ہی نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی نون لیگ اور اس کے اتحادیوں کو بلیک میل کررہی ہے غضب خدا کا۔
مجاہدین سول سپر میسی کو تو منگل کی شام ہی جی ایچ کیو کے گیٹ پر دھرنا دے کر بیٹھ جانا چاہیے تھا۔
ہمارے دوست استاد مشتاق احمد دونوں ہاتھوں میں تلواریں لئے پیپلزپارٹی کی گردن زدنی کے لئے پرجوش ہیں۔ پچھلے24گھنٹوں میں انہوں نے ایسی ایسی برائی اور بوٹ پرستی پیپلزپارٹی میں سے نکال لی ہے جس سے چڑیا بابا سے لے کر مجاہد افغانستان تک ناآشنا ہیں۔
سچ کہوں تو ہم سبھی ایسے ہی ہیں۔ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر بات کرنے کی بجائے پسندیدہ رخ پر اچھلتے کودتے ہیں۔
منگل کی شام سے زرداری کی بیوفائی کے قصے جھاڑ پونچھ کر نکالے جارہے ہیں۔ یہ مجاہدین ان مقدمات پر بات نہیں کرتے جو2013سے2018کے درمیان نون لیگ نے پیپلزپارٹی والوں کے خلاف بنوائے اور ملبہ چودھری نثار علی خان پر ہے کہ اس نے وزیراعظم کو بتائے بغیر مقدمات بنوائے تھے۔
نوابشاہ ضلع کونسل کے ایک سابق چیئرمین شوکت شاہ کی تصویر حاکم علی زرداری کی تصویر بناکر اچھالی جارہی ہے کہ حاکم زرداری ضیا الحق کو ہار پہنارہا ہے۔
جی بالکل ایسا ہی ہے بینظیر بھٹو نے نوازشریف کے بائیکاٹ کے باوجود 1985کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا جیت کر پیپلزپارٹی بنالی۔
ساعت بھر کے لئے رکئے اور ذہن نشین کر لیجے کہ ۔1985کی غیرجماعتی اسمبلی سے سیاست کا آغاز کرنے والے اور جنرل ضیا الحق سے لڑنے والے یکساں سوچ کے حامل نہیں ہیں۔
نوازشریف کی حمایت جرم ہے نا پیپلزپارٹی کی محبت کفر۔ ظلم یہ ہوگا کہ آپ اپنے کج مخالف لیڈر میں سے نکال کر دکھائیں۔
مکرر ایک بات عرض کرناچاہتاہوں ملک گیر مقبولیت رکھنے والی9سیاسی جماعتوں کی ایسی کون سی مجبوری ہے کہ وہ ایک علاقائی جماعت پیپلزپارٹی کے بغیر اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہیں نا تحریک چلاتی ہیں؟
اصولی طور پر تو انہیں یہ دونوں کام کرلینے چاہئیں تھے تاکہ پیپلزپارٹی کی سیاست کا جنازہ ذرا دھوم سے نکلے۔
حرف آخر یہ ہے کہ تاریخ و سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ لانگ مارچ سے قبل مستعفی ہونے سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوگی۔
اگر پی ڈی ایم کا ایجنڈا صرف عمران خان کی حکومت کو گرانا ہے تو پھر بسم اللہ کیجئے۔ لیکن اگر سیاسی عمل اور نظام میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ مقصود ہے تو باردیگر اپنی ادائوں پر غور کیجئے۔
اتحادوں کی سیاست کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ لیڈران تو ہنسی خوشی ظہرانے، عصرانے اور عشایئے پھڑکاتے مسکراتے گلے ملتے ہیں اور ہمدردان کھجل خوار ہوتے نفرتیں پالتے زندگی برباد کردیتے ہیں
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر