جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع رحیم یار خان کے معروف تاریخی قصبہ چاچڑاں شریف کی ہمسائیگی میں واقع موضع احمد کڈن، موضع مڈ عادل،چک احمد یار کے ہستے بستے گھروں کے دریا بُرد ہونے کے کرب ناک مناظر میرے سامنے ہیں. درجنوں کی تعداد میں محنت کش کسانوں مزدوروں کے گھروں کو دریا مکمل طور پر نگل چکا ہے. ان کا نام و نشان بھی مٹ ہے. باقی ماندہ گھروں کے مکین دریا کٹاؤ کی وحشت کو دیکھتے ہوئے انتہائی خوف و ہراس کے عالم میں ہیں. وہ اپنی جمع پونجی سے بنائے گئے اپنے اپنے گھروں کو ہنگامی بنیادوں پر مسمار کرکے بلڈنگز کا میٹریل بچانے کے لیے کوشاں ہیں.
دریائی کٹاؤ جس بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ان حالات میں اپنی جان و مال کو بچانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہے.متاثرہ علاقہ جات کیونکہ وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کا انتخابی حلقہ ہیں. اس لیے بہت سارے لوگوں کو ان عوامی نمائندگان اور وزراء کو کوستے اور بددعائیں دیتے بھی سنا ہے.جام اسماعیل گھلیجہ نامی نوجوان نے بتایا کہ الیکشن کے دنوں سے لے کر اب تک یہ صاحبان ہمارے بزرگوں کے ساتھ سپر بند منظور کروانے کے وعدے اور فنڈز ریلیز کے دلاسے دیتے چلے آئے ہیں.عوام کو گھر بنا کر دینے کے دعیودار حکمرانوں اور ان صاحبان کی آجکل نے آج سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ہم لوگ اپنےگھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں.سپر بند نہ بننے کی وجہ سے زمینوں کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر بھی دریائی کٹاؤ کی نذر ہو چکے ہیں. اقتدار کی رنگنیوں میں گم ہمارے ووٹوں سے جیتنے والے عوامی نمائندگان نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا.
اگر بے نظیر شہید بریج کی گائیڈ وال کو نقشے اور ریکارڈ کے مطابق گُد پوراور سُمکہ سپر بند تک ملا دیا جاتا تو یہ حالات نہ ہوتے.منظور شدہ گائیڈ وال کے فنڈز اگر سابقہ حکومت تخت لاہور واپس نہ لے جاتی تو یہ مواضعات دریا برد نہ ہوتے اس طرح وحشت اور بے رحمی سے لوگ بے گھر نہ ہوتے. وزراء اور ان کے حواریاں عوام سے مسلسل جھوٹ بولتے رہے کہ سپر بند کی منظوری حاصل کر لی گئی ہے. پہلے کہا جاتا رہا کہ جنوری فروری میں کام کا اغاز ہو جائے گا. جب فروری بیت گیا تو پھر 10مارچ کا لارا لگانا شروع کر دیا. اللہ ان سے پوچھے گا. جھوٹ بول بول کر عوام کو برباد کر دیاہے.
محترم قارئین کرام،، کالم کی طوالت کے پیش نظر متاثرین کے جذبات کو یہاں مکمل بیان کرنا مشکل ہے.ان کے جذبات کیا ہیں، بس گویا ویݨ ہیں آہیں سسکیاں، بددعاؤں کا وہ انبار ہیں جنھیں نکال کر وہ اپنے دل کا غبارہلکا، غم وغصہ ٹھنڈا کر رہے ہیں. اب ہم ان موجودہ حالات و حقائق کا ایک دوسرا رخ دیکھتے ہیں.میرے ذہن میں مسلسل یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ کیا دریائی کٹاؤ کو روکنا مکمن ہے یا نہیں?.
اس سوال کی ٹیکنیکل صورت حال کو جاننے کے لیے میں نے اپنے ایک مہربان دوست محکمہ اریگیشن کے سابق چیف انجینئر محترم احسان احمد خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے میرے سوال کے جواب میں بتایا کہ کٹاؤ کو روکنا بالکل ممکن ہے مگر…. دریا کے اندر اگر کسی جگہ دریا کٹاؤ کرتا ہے تو اس کو روکنا محکمہ اریگیشن کی ذمہ داری نہیں.ہاں البتہ کسی بستی گاؤں یا آبادی کو بچانے کے لیے ضلعی انتظامیہ یا عوامی نمائندگان ایم پی اے، ایم این اے کوئی حفاظتی بند وغیرہ بنانا چاہتے ہیں تو محکمہ اریگیشن ٹیکنیکل سپورٹ ضرور فراہم کرتا ہے.
ہاں البتہ کسی بھی جگہ اگر کسی حفاظتی بند کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو محکمہ ہنگامی بنیادوں پر اور بغیر ٹینڈر دیئے بھی کام شروع کر دیتا ہے.محترم احسان احمد خان نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے مزید بتایا کہ 2010ء کے تباہ کن سیلاب کی تباہ کاریوں، ریلیف اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لیے ایک اعلی سطحی کمیشن تشکیل دیا تھا. ایک فلڈ پلان ایکٹ بھی بنایا جا چکا ہے.جس میں دریا کی تعریف کچھ یوں کی گئی کہ ایک کنارے کے بند سے دوسرے کنارے کے بند تک کا تمام درمیانی علاقہ دریا ہے. چاہے وہاں پانی بہتا ہے یا نہیں.ضلع رحیم یار خان اور راجن پور کے منچن بند اور فخر بند کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فخر بند منچن بند کی طرح مکمل بند نہیں. یہ بعض جگہوں ہے اور بعض پر نہیں ہے. ایسی جگہوں کے لیے دریا کی تعریف یہ کی گئی کہ جہاں جہاں چھل یعنی سیلاب کا پانی جاتا ہے وہاں تک دریا تصور ہوگا. دریا میں ہونے والی تعمیرات درست نہیں ہیں. سیلاب آتے اور کٹاؤ ہوتے رہتے ہیں دریا میں جا کر گھر بنانے والوں کو بھی کچھ سوچنا گا.حالات کے مطابق گھر بنانے اور رادھی آبادی کرنے کی سوچ اپنانی ہوگی.
یہ ایک حقیقت ہے کے دریائی علاقے کے اندر بہت ساری آبادیاں اور بڑی بڑی بستیاں قائم اور آباد ہو چکی ہیں. ان بستیوں اور آبادیوں کے بچاؤ کے لیے مختلف ادوار میں حفاظتی سپر بند بھی بنائے گئے ہیں.
موجودہ دور میں کچھ عرصہ قبل علی پور کے ایم پی اے سردار خرم لغاری نے بھی سپر بند منظور کروائے ہیں شیند ہے کہ ان کے فنڈز بھی ریلیز ہو چکے ہیں. کیا وفاقی وزیرمخدوم خسرو بختیار اور صوبائی خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اپنے غریب و محنت کش ووٹروں کے سینکڑوں گھروں اور ہزاروں لوگوں کو بچانے کے لیے سپر بند کی منظوری نہیں کروا سکتے تھےیا اب نہیں کروا سکتے. آخر وجہ کیا ہے وعدے تو کرتے رہے اور دلاسے بھی دیتے رہے مگر نتیجہ آج سب کے سامنے ہے.
محترم قارئین کرام،، مڈ عادل، احمد کڈن، چک احمد یار کی دریا برد ہونے والی آبادیاں اور گھر منچن بند سے صرف آٹھ ایکڑ کے فاصلے پر ہیں. اب سوچنے اور فکر کرنے والی بات یہ ہے کہ سینکڑوں گھرانے اور وہاں کے لوگ اجڑ چکے ہیں.
دریا کی بھوک اور وحشت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی.محمد اسماعیل گھلیجہ بتا رہے تھے کہ بعض جگہوں پر دریا اور منچن بند کے درمیان صرف پانچ چھ ایکڑ کا فاصلہ رہ گیا ہے. دریائی کٹاؤ جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے.ایسے لگتا ہے کہ منچن بند تک پہنچنا اس کے لیے زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے. کیا عوامی نمائندگان، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ اریگیشن اس انتظار میں ہیں کہ دریائی کٹاؤ منچن بند کے مزید قریب تر آجائے تو پھر ہنگامی فنڈز، ہنگامی کام اور ہنگامی گھپلے کیے جا سکیں. یہ بات پہلے ہی ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ دریائی بندوں کی تعمیر و مرمت کے کاموں پر کروڑوں روپے کی کرپشن اور خرد برد ہو چکی ہے.
انٹی کرپشن میں بھی کیسز چلتے رہے ہیں. پھر ہمیشہ کی طرح کچھ چمک اور کچھ دھمک کے ذریعے مالی کرپشن کے معاملات کو اس وجہ سے دبا دیا جاتا ہے کہ آگے حمام میں بہت سارے شرفاء ٹخلیاں کرتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں.وطن عزیز میں اس قسم کی شعلہ نما بات جب ایسے نام نہاد شرفاء کی پگڑیوں اور گریبانوں کے قریب بڑھنے لگتی ہے تو پھر کئی ہیوی قسم کے فائر بریگیڈز انہیں بچانے کے لیے میدان میں آ جاتے ہیں.وطن عزیز میں کرپشن کے پھلنے پھولنے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے. 2010ءکے سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اندرون اور بیرون ممالک سے آنے والی امدادی اشیاء اور رقومات کے ساتھ جس جس نے جو جو کرپشن تماشے کیے وہ سب وقت کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آ چکے ہیں. یہاں کس کس خنزیر سوچ کے حامل لوگوں اور ان کے کرتوتوں کا ذکر کیا جائے.بہرحال وہ سب کچھ ہماری تاریخ کا تاریک حصہ ہے.
آج تو میں ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندگان سے اتنا کہوں کہ خدارا دریا برد ہوتے غریب لوگوں کے گھروں کو جہاں تک بچا سکتے ہو بچانے کوشش تو کرو. اب تو دریاؤں کا رخ موڑنے اور ان کی اس قسم کی وحشتوں کو روکنے والے پیر فرید بھی نہیں رہے.کیا کہیں چھپ کے بیٹھ گئے ہیں یا وہ موجودہ دور کی حقیقت اور عوامی رویوں میں آنے والی تبدیلی کے پشں نظر تبدیلی میں ہی بہتری محسوس کر رہے ہیں.اچھا قارئین کرام سب کا اللہ نگہبان
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر