رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی حالات‘ سیاست بازوں کے کلام و زبان‘ ان کے لب و لہجے اور اندازِ سیاست کے بارے میں سوچ کر غور و فکر کرنے والے عوام و خواص پریشان نظر آتے ہیں۔ ایک بہت بڑی‘ طاقت ور‘ ایٹمی صلاحیت کی حامل اور جغرافیائی لحاظ سے بے حد اہم ریاست پر غلبہ جن محترم ہستیوں‘ خاندانوں اور ان کے کارندوں کا گزشتہ نصف صدی سے رہا ہے‘ ان سے خوف آتا ہے۔ طاقت ور ریاست تو کہہ بیٹھا ہوں‘ مگر کلی طور پر جائزہ لیں تو ریاست کمزور ہے‘ اگر طاقت ور ہے تو صرف عسکری لحاظ سے۔ حکومتی کاروبار چلانے‘ اداروں کی استعداد‘ کارکردگی اور انصاف کی فراہمی میں اب وہ اہلیت اور اعتماد نہیں‘ جو کسی زمانے میں مملکتِ پاکستان پر ہمارا ہوا کرتا تھا۔ جمہوریت نے ایسے ایسے انتقام لیے ہیں کہ بس خدا کی پناہ۔ جمہوریت پر میرا یقین پختہ اور غیر متزلزل ہے کہ راستہ اور منزل جواب دہ حکمرانی کے لیے صرف یہی ہے۔ باقی نظام سب دنیا اور ہم نے آزما کے دیکھ لیے ہیں۔ ہمارا مسئلہ جمہوریت کو لوٹ کھسوٹ کرنے اور منظم طور پر ملک کو لوٹنے والوں کے ہاتھوں سے آزاد کرانا ہے۔ سب کمزور اور لولے لنگڑے جمہوری نظاموں کا افریقہ‘ ایشیا‘ لاطینی امریکہ اور ہمارے سمیت چیلنج یہ ہے کہ عوام کے نام پر نمائندگی کرنے والے دھوکے باز نہ ہوں۔ ان کا کردار صاف ہو۔ وہ امانت دار اور دیانت دار ہوں‘ سیاست عوام کی خدمت کے جذبے سے کرتے ہوں۔
ہر کمزور ریاست میں جمہوری سیڑھی پر چڑھ کر مسندِ اقتدار پر وہ براجمان ہوئے ہیں‘ جن کے سرمائے‘ کاروبار اور دھن دولت کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ چند خاندانوں اور افراد نے ہر ہمارے جیسے ملک میں منظم گروہ بنا رکھے ہیں۔ سب کو آزادی ہے کہ مال بنائو۔ یہاں سیاست خطیر سرمائے کے بغیر اب نا ممکن ہے؛ اگرچہ پہلے ہی سے سیاست میں دولت مند‘ امیر اور صاحبِ ثروت لوگ ہی قدم رکھ سکتے تھے‘ غریب آدمی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ لیکن اب یہ مسابقت مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ بات تو ایک معاشرتی حقیقت ہے کہ عام آدمی سیاست کے میدان میں محض تماشائی ہے‘ کھلاڑی کسی اور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری جمہوریت نے جو کھلاڑی ستر کی دہائی سے آج تک پیدا کیے ہیں‘ وہ وہی ہیں جن کو آپ پریس کانفرنسوں‘ عوامی جلسوں‘ ٹی وی پروگراموں اور پارلیمان کے اندر اور باہر تقاریر کرتے اور بڑی فنکاری سے اپنے اعمال و افکار پہ جمہوریت کا پکا رنگ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ نسل در نسل وہی لوگ ہیں۔ کہیں تیسری نسل‘ کہیں دوسری نسل اور کہیں چوتھی نسل سیاسی گدی سنبھال رہی ہے۔ اس بارے میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں‘ آپ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں‘ سب کچھ آپ کو مزید روشن نظر آنے لگے گا۔
آپ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ ستر کی دہائی سے پہلے کے پاکستان کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ ایوب خان کا دس سالہ دورِ حکومت جمہوری تو نہیں تھا‘ مگر اس دور میں ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالا گیا۔ تب پاکستان اکثر ترقی پذیر ممالک کی صف میں چند قدم آگے اور قابلِ مثال تھا۔ اس سے آپ یہ نتیجہ نہ نکالیں کہ ترقی کا کرشمہ اس نوعیت کی حکومت کا تھا۔ اگر ہم نے اپنی تاریخ یا دوسرے ملکوں کے تجربے سے کچھ سیکھنا ہے تو کئی باتیں اس دور کی ذہن میں رکھنا ضروری ہیں۔ ایوب خان نے سیاسی گھرانوں کا اتحاد ریاست کی سر پرستی میں بنایا۔ اسے ہم سیاست کی زبان میں حکمرانوں کے درمیان عمرانی معاہدہ کہہ سکتے ہیں۔ ایک نظام پر اتفاق رہا۔ سیاست کے امریکی جامعات کے بڑے بڑے استادوں نے ترقی پذیر ممالک کے لئے سیاسی استحکام‘ ریاست سازی‘ سماجی امن اور اقتدار کی مرکزیت پر زور دیا تھا۔ کچھ سبق تو ایوب خان سیکھ چکے تھے‘ اور کچھ مغربی ماہرین نے سکھائے۔ خیر ہمارے سفر کی رفتار ٹوٹ گئی‘ اور حکمرانوں کا عمرانی معاہدہ نئی جمہوری تحریک کی نذر ہو گیا‘ مگر جو ممالک بڑے سیاسی استادوں کی ہدایت کی روشنی میں آگے بڑھتے رہے‘ ان میں جنوبی کوریا‘ تائیوان اور ملائیشیا شامل ہیں۔ ہم نے کیا کیا حماقتیں نہ کیں؟ کیسے کیسے بحرانوں کو جنم نہ دیا؟ اور پھر اس ملک کی تقدیر کن رہنمائوں کے ہاتھ میں آئی۔ دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہماری پہلی پاکستانی نسل آدھا پاکستان گنوا بیٹھی کہ شعلہ بیانوں کے سحر میں عام آدمی آ چکا تھا۔ بحرانوں میں دیکھا کہ لوگ افسانوی کرداروں کے گرویدہ ہو جاتے ہیں کہ شاید نجات کا کوئی راستہ نکل آئے۔ راستہ کہاں نکلنا تھا‘ تاریک گھاٹیوں کی اتھاہ گہرائیوں سے باہر نکلنے کی جدوجہد میں دہائیاں برباد کر بیٹھے۔
اب بھی سوچیں‘ ہماری تقدیر کن ہاتھوں میں رہی‘ اور کون اور کیسے ہیں‘ وہ آج کے بڑے جمہوری رہبر‘ ان کے سپوت اور زہر اگلتی ان کی نئی نسل کے مرد و خواتین؟ اب بھی وہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہی کرتے ہیں‘ اور اگر ہمارے شعور کی وہی سطح رہی‘ جو اس وقت ہے تو اگلی نسل کا مقدر ہماری تقدیروں سے مختلف نہ ہو گا۔ مشرف کی مصنوعی جمہوریت نے جمہوری تسلسل کو توڑ ڈالا۔ میرا پختہ خیال ہے کہ سفر جاری رہتا تو آج ہمارے شعور کی بالیدگی مختلف ہوتی۔ تسلسل کے نتیجے میں سیاسی استحکام پیدا ہوتا اور سیاست میں فطری توازن ابھر پاتا۔ ان کے بعد ‘جمہوریت انتقام پر اتر آئی‘ تو ملک کی وہ صورت حال بنا ڈالی کہ آگے چلنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ یہ کوئی افسانوی بات تو نہیں کہ ٹیکس کا نظام ناقص‘ بجلی سودوں اور معاہدوں میں گھپلوں کی وجہ سے مہنگی‘ اور ملکی بجٹ کا آدھا قرضوں کی ادائیگی کے لیے وقف۔ معیشت کو تباہ کرنے کے پیچھے دو مقاصد تھے۔ ایک‘ قارون کے خزانوں سے بھی بڑے خزانے بنانا‘ جن کی کوئی تہہ ہی نہ ہو۔ یہ لوٹی ہوئی دولت کہیں سنبھال کر رکھنے کی بھی قیمت ہمارے حکمران بھاری چکاتے رہے ہیں۔ یہ قیمت ان کے ہمارے ملک کے بارے میں تزویراتی عزائم ہیں۔ ہم آج اندر سے اتنے منقسم ہو چکے ہیں کہ کھل کر لکھیں تو فتوے صادر ہونا شروع ہو جائیں گے‘ اور آپ بھی مجھے نظریہ سازش کا حامی تصور کرنے لگیں گے۔ مجھے اس کا خوف نہیں‘ مگر ہم اجتماعی شعور سے عاری ہیں تو کچھ بھی ہم کہیں یا لکھیں‘ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
سالِ رواں کا مارچ کا مہینہ بھی یاد رکھا جائے گا۔ سینیٹ کے انتخابات میں اکثریت کیسے اقلیت میں تبدیل ہوئی‘ اور پھر چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے حکومتی امیدوار کس شان و شوکت سے کامیاب ٹھہرے۔ اس عاجز نے بہت لکھا اور بارہا بولا کہ کھلی رائے دہی سے ہی شفاف انتخابات ممکن بنائے جا سکتے ہیں۔ خفیہ رائے دہی کرانے کا مقصد محترم یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا رکن منتخب کرانا تھا۔ اچھے زمانوں میں تو امیدوار اور ان کے حامی اپنے حق میں دوسروں کو ووٹ ڈالنے کے لئے قائل کرتے تھے۔ اس دفعہ دیکھا کہ ووٹ کیسے مسترد کرنے کے حربے سکھائے اور پڑھائے جا رہے تھے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کے حریفوں نے بھی وہی دائو پیچ آزمائے۔ ایوان بالا کے لیے منڈی لگے‘ تو کیا وقار رہے گا۔ عدالتیں کسی کے خلاف فیصلہ دیں تو عدالتوں پر حملے‘ ریاستی ادارے مسلسل شر انگیز بیانیوں کی زد میں ہیں‘ انتخاب جیت جائیں تو شفاف‘ ہار جائیں تو دھاندلی کا شور۔ حزبِ اختلاف حکومت کے جائز ہونے کو تسلیم نہیں کرتی‘ احتساب کے اداروں پر ملزموں کی طرف سے حملے۔ اندیشے بڑھ رہے ہیں کہ کہیں ہمارا سیاسی نظام مفلوج تو نہیں ہو گیا؟ اس نظام پر قابض صورتیں دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر