عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ مارچ دو ہزار چودہ کو لیاری جھٹ پٹ مارکیٹ میں پیش آنے والے واقعہ نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا۔لیاری کے عوام اس سانحہ کو ایک بھیانک دن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔دراصل یہ واقعہ حکومتی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ سانحہ جھٹ پٹ میں بیس سے زائد خواتین اور بچے شہید ہوئے۔جبکہ پچاس کے قریب افراد زخمی ہو گئے تھے۔ لاشیں اٹھانے کے لئے ریسکیو کی ٹیمیں اپنی جگہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی کئی گھنٹے گزرنے کے بعدجائے وقوع پر پہنچے۔ یہ وہ دور تھاجب لیاری کے محنت کش عوام گینگ وار کے رحم کرم پر زندگی بسر کررہے تھے۔ حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مافیازنے سر اٹھانا شروع کردیا تھا۔اس زمانے میں حکومت کمزور تھی ۔جس کی وجہ سے ادارے فعال اور سرگرم نہیں تھے۔ جس سے لیاری میں سماجی برائیوں نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔ ہر طرف بے روزگاری اور بدحالی تھی۔ مافیازنے معاشرتی بے چینی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لیاری کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ قانون نافذ کرنے ادارے کے افسران مافیاز کاگٹھ جوڑ تھا۔ راشی افسران بھتہ خوری میں ملوث تھے۔
جھٹ پٹ مارکیٹ میں دن کی روشنی میں گینگ وارکے دو گروپوں میں تصادم ہوا۔ جوایک دوسرے کو نیچادکھانے کے لئے راکٹ لانچرکا استعمال کررہے تھے۔ بم پھینکے جارہے تھے۔ ان کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے معصوم لوگ زد میں آگئے ۔ جن میں اکثریت کا تعلق خواتین اور بچوں کا تھا۔ جو جھٹ پٹ مارکیٹ میں خریداری کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ ایک جھٹکے میں بیس سے زائد خواتین اور بچے شہید ہوگئے۔ جبکہ پچاس سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کی اصل وجہ پولیس اور دیگر قانون فافذکرنے والے اداروں کابروقت نہ پہنچناتھا۔جس سے ان کی جنگ طویل ہوگئی۔ راکٹ لانچروں اور بموں کا آزادانہ استعمال ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھاکہ دو ملکوں کے سرحد پر دوبدو جنگ ہورہی ہوں۔ بروقت ایمبولینسز بھی نہیں پہنچ سکی تھیں۔ اگر ریسکیو ٹیموں بروقت پہنچتی تو ان ہلاکتوں میں کمی آسکتی تھی،انہیں بروقت طبی امداد مل سکتی تھی۔ ظاہر ہے دونوں وجوہات کاتعلق حکومت کی ناکام رٹ سے تھا۔ جہاں حکومتی رٹ ختم ہوتی ہے۔ وہاں غیر ریاستی فورسز پیدا ہوتی ہیں۔
سانحہ جھٹ پٹ میں شہید ہونے والے افراد کی یاد میں ہرسال لیاری عوامی محاذ، بلوچ متحدہ محاذ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کی اصل وجہ عوام کو سیاسی و سماجی طورپر منظم کرنا ہے۔ انہیں سیاسی طور پر باشعور کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ آئندہ ایسے ناخوشگوار رونما نہ ہوسکیں۔ اور ساتھ ساتھ حکومتی ادارے کو بھی تنبیہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں صحیح سمت میں سرانجام دیں۔
لیاری کے سیاسی حلقے اس سانحہ کو سندھ حکومت کی ناکامی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سانحہ جھٹ پٹ حکومت کی نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ لیاری کو اکیسویں صدی کے پہلے ہی عشرے میں ظلم و ناانصافی کے دلدل میں دھکیل دیاگیا اور عوام کی زندگی اجیرن بنادی گئی۔ لیکن اس دور کے حکومت نے عوام کو تحفظ دینے کے بجائے گینگسٹرز کو مکمل تعاون فراہم کیا اور عوام کے قتل عام کی مکمل چھوٹ دی۔
لیاری کی ماضی کو یاد کرتے ہوئے سماجی حلقوں کا کہنا ہےکہ لیاری سمیت کراچی کے مختلف علاقوں میں گینگ وار اور منشیات کو عام کردیاگیا اور عوام کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو ماندکردیاگیا۔سانحہ جھٹ پٹ اسی ظلم و جبر کا تسلسل ہے جو ایک منصوبے کے تحت لیاری میں پھیلایاگیا۔
سانحہ جھٹ پٹ مارکیٹ سے قبل بھی عوامی اجتماع کو ایک سازش کے تحت نشانہ بنایاگیا۔ سات اگست 2013 کو لیاری میں بزنجو چوک کے قریب فٹبال گراؤنڈ میں میچ کے دوران بم دھماکہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں پندرہ سے زائد بچے جاں بحق ہوگئے جبکہ 27 زخمی ہوگئے۔ جس سے علاقے میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔ دھماکے کے بعد ہر طرف افراتقری پھیل گئی اور لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈکے مطابق دھماکے کے لئے 5 کلوگرام ریموٹ کنٹرول بم استعمال کیا گیا جو موٹر سائیکل میں نصب تھا۔پولیس کے مطابق موٹرسائیکل چوری کی تھی۔
لیاری کے سیاسی جماعتوں نے بزنجو چوک دھماکے مذمت کرتے ہوئے اسے شہر کا امن تباہ کرنے کی سازش قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے سامنے جھک گئی تھی۔ مٹھی بھر دہشت گرد خوف پھیلانا چاہتے تھے۔
ماضی کی غلطیوں سے حکومتی اداروں نے کچھ نہیں سیکھا ہے اور نہ ہی وہ سیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک بار پھر لیاری میں مسلح افراد کاگشت جاری ہے۔ حال ہی میں لیاری گینگ وار سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو اسلحے سے لیس لیاری کے مختلف علاقوں میں دیکھاگیا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیاری ایک مرتبہ پھر گینگسٹرز کے رحم و کرم پر ہوگا۔
ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومت کی طرح ایک ناکام حکومت ہے۔ جس کی وجہ سے بالخصوص کراچی میں بلوچ علاقے خصوصاً لیاری ایک بار پھر جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا جارہا ہے۔ علاقے میں سیاسی اور سماجی کلچر کو بندوق اور منشیات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیاری، پراناگولیمار، جہانگیر روڈ، ملیر، گڈاپ، مواچھ، ماری پور سمیت ہاکس بے کے قدیم گوٹھوں میں جرائم پیشہ افراد منشیات فروشی کررہے ہیں۔ ہرمحلہ اور گلی میں منشیات فروشی کی جاری ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آنکھیں بندکررکھی ہیں۔
لیاری کی سیاسی معاشرے کو غیر سیاسی بنانے کے لئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ایک بار پھر نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب کی جگہ اسحلہ تھمایا جارہا ہے۔ عوام کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے۔ ایک سازش کے تحت لیاری کے محنت کش عوام کو یرغمال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ علاقے میں منشیات فروشی کوفروغ دیا جارہا ہے۔ منشیات فروشوں کو منظم کیا جارہا ہے۔ جرائم کو ایک نیٹ ورک کی شکل دی جارہی ہے۔ تاکہ ایک پرامن کو معاشرے کو کریمنالائزڈ کیا جاسکے۔ ایک غیر سیاسی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دراصل جب معاشرہ غیرسیاسی ہوجاتا ہے تو حکومتی اداروں کو سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ ان کے لیے اپنی حکمرانی کو مزید طول دیناآسان ہوجاتاہے
یہ بھی پڑھیے:
ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر