نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریچھ کتے کی لڑائی||جام ایم ڈی گانگا

ابھی ابھی تحصیل رحیم یار خان کے علاقے سردار گڑھ قادرو والی موری پر ریچھ کتے کے دنگل کی خانپور میڈیا ہاؤس پر ویڈیو دیکھی جس میں ایک بندھے ہوئے ریچھ پر دو کتے چھوڑے گئے ویڈیو مکمل دنگل کی نہیں صرف ایک راؤنڈ کی تھی جو مکمل آزادی سے بلا خوف تماشا جاری تھا

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی ابھی تحصیل رحیم یار خان کے علاقے سردار گڑھ قادرو والی موری پر ریچھ کتے کے دنگل کی خانپور میڈیا ہاؤس پر ویڈیو دیکھی جس میں ایک بندھے ہوئے ریچھ پر دو کتے چھوڑے گئے ویڈیو مکمل دنگل کی نہیں صرف ایک راؤنڈ کی تھی جو مکمل آزادی سے بلا خوف تماشا جاری تھا
بہت پہلے کی بات ہے جب یہ خونی کھیل عام تھا بڑے بڑے زمیندار یہ تماشا لگانا فخر سمجھتے بلکہ یہ علاقائی ثقافت کا حصہ بن چکا تھا اس کیلئے خصوصی نسل کے کتے پالے جاتے جن کی خدمت کیلئے علیحدہ سے ملازم رکھے جاتے یہ تماشا 1970 کی دھائی تک کھلے عام مکمل آزادی سے کرایا جاتا جس کیلئے خاص خاندانی فقیروں کے پاس اس لڑائی کیلئے تربیت یافتہ ریچھ اور زمینداروں کے پاس پالے ہوئے کتے ہوتے اس زمانے میں” بولی فقیر "کا ریچھ اور” خان کی جوڑی” بہت مشہور تھی
ایک گول میدان میں ایک بڑا سا مضبوط کلہ لگا کر لمبے موٹے رسے سے ریچھ کو باندھ دیا جاتا اور پھر اس پر کتوں کی جوڑی چھوڑ دی جاتی عموماً ایک راؤنڈ 5 منٹ تک جاری رہتا اس دوران یا تو جوڑی ریچھ کو زخمی کر کے گرا دیتی یا پھر ریچھ کتوں کو چیر پھاڑ کرحاوی ہو جاتا اگر مقابلہ برابر رہتا تو دونوں کو زخمی حالت میں چھڑا لیا جاتا کچھ دیر وقفے کے بعد دوسری تازہ دم جوڑی اسی زخمی ریچھ پر چھوڑی جاتی اور پھر چیخ وپکار شروع ہو جاتی جس میں سب سے بلند آواز جوڑی کے مالک اور تماشائیوں کی ہوتی جیسے جوڑی نہیں وہ خود لڑ رہے ہیں اس تماشے کو دیکھنے کیلئے سینکڑوں لوگ دائرے کے گرد کھڑے ہو جاتے کچھ ساتھ والے درختوں پر چڑھ جاتے بعض مقامات پر اس کے باقاعدہ کچی دیواروں کےاسٹیڈیم بھی بنائے ہوتے تھے اور ٹکٹ بھی
لڑائی میں جوڑی ریچھ کے ناک پر حملہ کرتی اور ” چک” مار کے پکڑ لیتی جسے "دون مدھ گس” کہا جاتا جبکہ ریچھ اپنے داؤ میں کتوں کی گردن یا نلی (ٹانگ) کو چبا ڈالتا جس پر جوڑی ہار مان کر رنگ سے بھاگ جاتی اور ریچھ رنگ میں فاتحانہ” کیٹ واک” کرتا اگر جوڑی جیتتی تو دون بدھ گھندی (ناک پکڑ لیتی) جس پر ریچھ اوندھے منہ گر کر کراہتا یہ اس کی شکست کا اعلان ہوتا اور جوڑی پر نوٹ نچھاور کیے جاتے بعض صورتوں میں باقاعدہ پگڑی پہنائی جاتی اور ڈھول پر جھمر ڈالی جاتی تب اس جوڑی کی قیمت اور خوراک میں بھی بہت اضافہ ہو جاتا
بڑے بڑے میلوں میں کئی کئی ریچھ اور جوڑیاں حصہ لیتے جسے ہزاروں لوگ دیکھتے مزے کی بات یہ کہ جب کھیل ختم ہوتا تو ریچھ والا منتظمین سے” کلے پٹائی ” کا معاوضہ لیتا جو ” کلے پٹاوی” کے نام سے اب تک محاورہ مشہور ہے
زمانہ جہالت کہیں یا ظالمانہ کھیل مگر یہ خونی کھیل بڑی شدومد سے کئی دہائیوں تک جاری رہا جس پر نہ ریچھ والوں کو کوئی عذر اعتراض تھا اور نہ جوڑی والوں کو. بلکہ یہ تماشا ریچھ والوں کی روزی روٹی کا سبب بھی تھا
پھر دور جدید آیا محکمہ انسدادِ بے رحمی حیوانات، وائلڈ لائف اور انسانی رحمدل تنظیمیں میدان میں آئیں اس ظالمانہ کھیل کے خلاف آوازیں بلند کیں مقامی پولیس ایکشن میں آئی عوامی شعور اُجاگر ہوا اور یہ خونی کھیل معدوم ہو گیا مگر دور دراز کے بیک ورڈ ایریاز میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا
اب سوشل میڈیا کا دور ہے ایسے ظالمانہ کھیل تماشے جیسے ریچھ کتے کی لڑائی، اونٹوں کی لڑائی دنگل، مرغوں کی لڑائی جن پر کروڑوں کا جوا بھی ہوتا ہے کرانا مشکل ہو چکا ہے پھر بھی مبینہ طور پر مقامی پولیس کی معاونت سے کہیں نی کہیں ہو ہی جاتے ہیں لیکن چھپ نہیں سکتے کسی نہ کسی کے کیمرے کی نگاہ میں آ کر ویڈیو وائرل ہو ہی جاتی ہے پھر پولیس کی دوڑیں لگ جاتی ہیں
ہم بحیثیت قوم بے حس ہو چکے ہیں رحم کے جذبے سے عاری ہو چکے ہیں یہ کس قدر ظلم ہے کہ ایک جانور کو کلے رسے سے باندھ کر اس پر خونخوار کتے چھوڑ کر اسکی چیخوں سے لطف اندوز ہوں ہم پتنگ بازی میں قاتل ڈور کو اور پتنگ بازی، فائرنگ کو تہذیب یافتہ سوسائٹی میں پوری طاقت رکھنے کے باوجود ختم نہیں کر سکے ابھی دوران تحریر خبر آئی ہے کہ دیال سنگھ کالج کے کیمسٹری کے لیکچرار کے گلے پر ڈور پھرنے سے شہادت ہو گئی ہے اسکا حساب کون دیگا
یہ ظلم کب تک جاری رہے گا یہ تو مہذب معاشرہ ہے اس کی مہذب قدریں کہاں کھو گئی ہیں کیا ہم اس پر آواز اٹھانے کے بھی روادار نہیں رہے آخر ہم کس سمت کو جا رہے ہی ہمارے جینے کیلئے کیا صرف سیاست کا میدان ہی رہ گیا ہے اس کے علاوہ زندگی کے تقاضے کچھ بھی نہیں اگر وقت ملے تو سوچئے گا ضرور!!
اپنا خیال رکھئیے گا آپکا،جام منیر اختر شاہین. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، ریچھ کتوں کی لڑائی پر میرے دوست میرے بھائی جام منیر اختر شاہین نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے. موضوع کے حوالے سے ماضی اور حال کا حال احوال کیا ہے. معاشرتی انسانی و حیوانی رویوں، معاشرے میں مروجہ جن خرابیوں، رویوں اور کرداروں کا ذکر کیا ہے یہ سارے حقائق ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں. ہماری نئی نسل کی اکثریت شاید اس سے زیادہ واقف نہیں. اس کی وجہ ماضی کے مقابلے اب کچھ انتظامی اور سماجی حالات مختلف ہو چکے ہیں.
جام منیر اختر شاہین کی تحریر اور لفظوں کی پرواز مجھے بہت اچھی لگی ہے اس لیے ساری کی ساری آپ کے ساتھ من و عن شیئر کر دی ہے. جو شخص حیوانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف اواز اٹھاتا اور لکھتا ہے مجھے کامل یقین کے کہ وہ اپنے ارد گرد اور وسیب میں عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بھی آج نہیں تو کل ضرور بولے گا.
ہن چپ دے جندرے کھولنے پمسن
حق سچ بولن آلے گولینے پمسن

اگر ہم بغور اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو ماضی سے لے کر اب تک ہمارے سرائیکی وسیب میں صرف ریچھ پر کتے چھوڑے جانے تک بات محدود نہیں. یہاں تو عوام پر جاگیرداروں اور تخت لاہور کی بیورو کریسی کی جانب سے عوام پر، نہتی عوام پر کئی نسلے اور کئی قسمیں، مرئی اور غیر مرئی کتے چھوڑنے کا رواج بھی خاصا پرانا اور مضبوط و طاقت ور ہے. سیاست دانوں کے عوام کے لیے پالے گئے کتے کب، کیسے اور کس طرح عوام پر چھوڑے جاتے ہیں.وہ کیا کیا کرتے ہیں.ان کے ظلم و ستم، مار دھاڑ، چھیر پھاڑ کے رنگوں اور ڈھنگوں کو جام منیر اختر شاہین سمیت سرائیکی وسیب کا ہر باشعور انسان جانتا اور سمجھتا ہے. ریچھ کتے کی لڑائی پر لکھنا بولنا تو بالکل آسان ہے لیکن سیاستدانوں کے جن کتوں کے بارے میں بات کی جا رہی ہے یقین کریں ان کے بارے میں لکھنا بولنا، آواز اٹھانا قانون تو نہیں لیکن رواجا بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے. اس جرم کی سزا سے بچانے کےے لیے نہ تو ملک کا آئین و قانون بروقت آپ کے تحفظ کے لیے آگے بڑھتا ہے اور نہ ہی قانون کے رکھوالوں کی آنکھیں کھلتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ یہ گروہ ہر قسم کی لاقانونیت ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے. یہ چوریاں، ڈکتیاں قبضے گیری، دادا گیری، ریاست کے اندر نجی ریاستوں کا قیام کیا ہے. کیسے چل رہا ہے کون چلا رہا ہے. اس کی پروٹیکشن کون کرتا ہے.اگر کوئی سرکاری آفیسر آئین و قانون کی بالادستی کی خاطر، قانون اور انصاف سب کے لیے کی سوچ کے تحت میرٹ پر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کا چند دنوں میں اسے چیلینج کرکے تبادلہ کروا دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں صرف وہ رہے گا جو ہمارا حکم مانے گا. اس اندھیر نگری کو کیا نام دیا جائے. اس کی فریاد کیسے اور کہاں کی جائے کہ شنوائی ہو سکے انصاف میسر آ جائے.یہ زیادتی وہ بھی سو فیصد جھوٹے اور جعل ساز لوگوں کی خاطر. جو دوسروں کی جائیداوں پر قبضے کرتے ہیں. جعلی کاغذات تیار کرکے یتیموں کی زمینیں ہڑپ کرتے ہیں. کیونکہ یہ ان کے خاص پالتو ہوتے ہیں. ریچھ کتوں کی لڑائی پر فورا حرکت میں آ جانے والی انتظامیہ نہ جانے ایسے جعل ساز فراڈئیے، قبضہ گیروں کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں.رحیم یار خان کےجس دیانتدار ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر جہانزیب لابر نے ایکشن لیا اس کے ساتھ کیا ہوا. کیا مرئی اور غیر ایجنیسوں اور حکمرانوں کو اس کا علم نہیں ہےایسے لگتا ہے کہ ضلع رحیم یار خان میں آئین و قانون کی بجائے وزراء بھائیوں کی بالادستی، حاکمیت اور راج ہے جس کے ریکارڈ میں جو چاہیں تبدیلی کروا دیں. جس پر چاہیں پرچہ درج کروا یا خارج کروا دیں. تھانے ڈی پی او آفس کی بجائے ان کے ڈیروں سے چلائے جاتے ہوں. ایسے ماحول میں تو پھر انصاف کا اللہ ہی حافظ ہے.جن مظلوموں کے ساتھ این جی اوز بھی نہ ہوں اور مقامی میڈیا بھی ان کی آواز بننے کے لیے تیار نہ ہو تو از خود نوٹس لینے والوں کی نظر ادھر کب اور کیسے پڑ سکتی ہے.تحصیل رحیم یار خان موضع محمد پور قریشیاں چک 76این پی حنا خورشید درانی فیملی کا ایک کیس اس حوالے سے ٹیسٹ کیس کے طور پر چیک کرکے تو دیکھیں. مقامی انتظامیہ ایجنسیاں، قبضہ گیروں سے سرکاری اور نجی جائیدایں واگزار کرانے کے دعوے دارحکمران، انصاف انصاف کا راگ الاپنے والے، ظلم و زیادتی، ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والی این جی اوز،حق دار اور مظلوم کا ساتھ دینے والے وہ صحافی اور صحافتی ادارے جو بڑے بڑے بڑے دعوی کرتے ہیں. لیکن ایک بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف خبر لگانے سے ڈرتے ہیں یا مصلحتا خاموشی اختیار کر لیتے ہیں. کیا یہ خاموشی ظلم اور ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں ہے. طاقت اور اقتدار کے نشئے میں بد مست لوگوں کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئیے کہ سدا اقتدار اللہ ہے. اللہ ہی سب سے بڑا ہے. اس کی لاٹھی بے آواز اور پکڑ شدید ہے. ایسے کئی پھنے خان زمین پر آئے اور گئے. طاقت ہو یا اقتدار یاد رکھیں یہ اللہ کی دین اور امانت ہے.اپنی دی ہوئی چیز واپس لینے کے لیے اس عظم ذات کو ہماری انتظامی، پولیس، فوج کسی کی بھی ضرورت ہے.
حکمرانو، نہتی عوام کو بھی مفت نہ سہی، سستا نہ سہی. انہیں کسی قیمت پر بر وقت انصاف تو دو.کیا صاحب اقتدار طبقے سے تعلق رکھنے والے گروہ کے ظلم کا شکار حنا خورشید درانی،اس کے بہن بھائیوں اور اس کی بیوہ ماں کو حصول انصاف کے لیے وزیر اعلی یا وزیر اعظم ہاوس، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ لگانا پڑے گا یا ان میں سے کسی جگہ انہیں خود سوزی کرنی پڑے گی?.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author