عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ مزدوروں کے لئے موت کا کنواں بن چکا ہے۔ جہاں ہیلتھ وسیفٹی اور لیبر قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ لیبر قوانین کے عدم اطلاق اور ہیلتھ وسیفٹی کے تسلیم شدہ اصولوں اور معیارات سے مالکان کی مسلسل روگردانی اور حکومت ومتعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت ،لاپروائی اور سرپرستی کی روش نے ہزاروں مزدوروں کو موت کے منہ میں دھکیل رکھا ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ آئے روز محنت کشوں کی کام کی جگہوں پر دورانِ کار شہادتیں ہوتی ہیں یاوہ زخمی ہو کر اپاہج بن جاتے ہیں۔
شپ بریکنگ یارڈ پر کام کرنے والے محنت کشوں کے مطابق آئے روز آگ لگنے کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔ جو کسی بھی وقت ماضی کی طرح ایک اور سانحہ کو جنم دینے کے امکان رکھتا ہے۔ لیکن اس صورتحال کے تدارک کے لیے اقدامات کرنا کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
ٹریڈ یونین کے رہنماؤں نے یارڈ میں سیفٹی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یارڈ مزدوروں کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہیں ،ان کی زندگیوں اور صحت سے مسلسل کھلواڑ جاری ہے۔ جس کے لیے بروقت اقدامات بالخصوص ہیلتھ وسیفٹی کے معیارات اور لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ لیکن نہ ہی ماضی میں پیش آنے والے سانحات سے کسی نے کوئی سبق حاصل کیا ہے۔ اور نہ ہی کوئی اس مزدور کش اورانسان کش صورتحال کے سدِباب کے لیے سنجیدہ نظر آتاہے
ایک سروے کے دوران یہ دیکھاگیا کہ مزدور مسلسل کام کی جگہوں پر موت کے منہ میں جا رہے ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی صحت وسلامتی کے لیے کسی قسم کے اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے۔ ا س ساری صورتحال کی براہِ راست ذمہ داری مالکان، حکومت اور متعلقہ اداروں کے راشی افسران پر عائد ہوتی ہے۔جو اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیےمزدوروں کے قتل کے لائسنس جاری کرتے ہیں اور ان سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔
ماضی میں سانحات رونما ہوئے ہیں۔جن میں سب سے بڑا سانحہ یکم نومبر 2016 کو پیش آیا۔جس میں 29محنت کشوں جھلس کر جان بحق اور 54 زخمی ہوگئے۔ یہ سانحہ اس کی بدترین مثال ہے۔ جن پر مالکان سے لے کر حکمرانوں اور لیبر سے متعلقہ اداروں کی مجرمانہ بے حسی ان کے ظلم کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اس سانحہ کے لواحقین کے لئے بلوچستان حکومت نے فی کس دس دس لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ ورکرز ویلفیئر بورڈ بلوچستان نے پانچ پانچ لاکھ روپے فی کس معاوضہ دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاحال لواحقین معاوضہ کے منتظر ہیں۔کہا یہ جارہا ہے کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ بلوچستان کے معاوضہ کے رقوم بینک میں ٹرانسفر ہوچکی ہیں۔تاہم لواحقین میں معاوضہ تقسیم نہیں کیاگیا۔ اس کی وجہ کیا ہے اب تک کسی کو نہیں بتائی گئی۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان معاوضہ کی رقوم کو ہڑپ کرلیا جائیگا۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ ایشیا کا دوسرا بڑا شپ بریکنگ یارڈ ہے۔ جہاں ایک سال میں سو سے زائد بحری جہاز توڑے (ڈسمینٹل) کیے جاسکتے ہیں۔ یہ یارڈ تقریباً سولہ کلومیٹر کی ساحلی پٹی پر پھیلا ہوا ہے جو مختلف سائز کے 134 پلاٹس میں تقسیم ہے۔ جن میں آدھے پلاٹس فنکشنل ہیں۔چالیس کے قریب شپ بریکرز ہیں۔ یعنی بحری جہازوں کو توڑنے والی نجی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔
بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس 34 پلاٹس کی اونرشپ ہے۔ جو نجی کمپنیوں کو کرائے پردیےگئے ہیں۔ جبکہ 100 پلاٹس کی اونر شپ مقامی افراد کی ہیں۔ مقامی افراد میں محمودانی ساجدیوں سرفہرست ہیں۔ ان کے پاس 80 فیصد اونر شپ ہیں۔ جنہیں اس وقت کے جام آف ریاست لسبیلہ نے خون بہا کے عوض میں یہ اراضی دی تھیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق جام ابراہیم گنگو کی سربراہی میں برفت اور گنگو قبائل نے جاموٹ قبیلہ کے خلاف بغاوت کی۔ بغاوت کے نتیجے میں برفت اور گنگو قبائل نے ملکر ریاست لسبیلہ کے تخت بیلہ پر قبضہ کرلیا۔ اور جام ابراہیم گنگو کو ریاست لسبیلہ کا سربراہ بنادیاگیا۔ اس جنگ میں جاموٹ قبیلے کو بری طرح شکست ہوئی۔ اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ جام علی خان نے دوبارہ ریاست لسبیلہ قبضہ کرنے کے لئے خان آف قلات اور نواب آف مکران سے مدد مانگی۔ موجودہ ضلع آواران اور ضلع خضدار سے محمودانی ساجدی جبکہ قلات کے علاقے گدر سے تعلق رکھنے والے گدور اور کیچ سے تعلق رکھنے والے سنگھور قبیلے کے لوگوں پر مشتمل کا لشکر تیار کیا گیا۔
اس جنگ میں گنگو اور برفتوں کو شکست ہوئی اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس وقت کے جام آف لسبیلہ نے خون بہا کےعوض محمودانی ساجدی، گدور اور سنگھور قبائل کے لوگوں کو لسبیلہ کے مختلف علاقوں میں اراضی دی تھیں۔
گنگو اور برفت قبائل کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ساجدی، گدور اور سنگھور قبائل کا استعمال کیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو گنگو اور برفت قبائل کی ریاست لسبیلہ میں تاریخی اور آئینی حصہ داری تھی جنہیں بزور طاقت سے اقتدار سے ہٹاکر ریاست لسبیلہ کی حاکمیت جاموٹ قبیلہ کے حوالے کیا گیا۔ ایک منصوبے کے تحت ساجدی، گدور اور سنگھور قبائل کو لسبیلہ کے مختلف علاقوں میں بسایا گیا۔ انہیں ساحلی پٹی کی مہنگی سے مہنگی اراضی دی گئیں۔ تاکہ ان قبائل کی موجودگی میں برفت اور گنگو قبائل دوبارہ بغاوت کے لئے سر نہ اٹھا سکیں۔
محمودانی ساجدیوں کو موجودہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے لیکر گڈانی شہر تک کی ساحلی پٹی دی گئی۔ جب سے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کی محمودانی ساجدی قبیلے کی ملکیت ہے۔تاریخ میں ساجدی قبیلہ قومی مزاحمت میں ایک مضبوط مقام رکھتا ہے. وقت کے ساتھ ساتھ ساجدیوں نے اپنا قبیلہ تبدیل کردیا اور وہ بزنجو بن گئے۔ جنہیں مقامی زبان میں چائنیز بزنجو بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مکران کے بعض دیگر قبیلے کے لوگوں نے بھی اپنا قبیلہ تبدیل کرکے بزنجو بن گئے۔ جس کی مثال یہ ہےکہ تربت کے علاقے چاہ سر میں بھی چائنیز بزنجو کی بڑی تعداد آباد ہے۔ جو مکران کے طاقتور ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
شپ بریکنگ ورکرز یونین گڈانی کے صدر بشیر احمد محمودانی کے مطابق شِپ بریکنگ یارڈ کے بارہ ہزار ملازمین سالانہ تقریباً بارہ بلین روپے ملکی خزانے میں اضافہ کررہے ہیں مگر اس کے باوجود ان ملازمین کی حالت انتہائی قابلِ رحم ہے۔ جہاز میں کام کے دوران کیمیکلز کی موجودگی کی وجہ سے اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے۔
مزدور رہنماؤں نے بتایا کہ ان بحری جہازوں کے پاکستان کی سمندری حدود میں آنے سے قبل چیکنگ اور کلیئرنس کا طریقہ کار واضح ہونا چاہیے تاکہ کسی خطرناک مواد کی آمد کو روکا جا سکے۔
چیکنگ اور کلیئرنس دینے والے مختلف ادارے ہیں۔ جن میں کسٹم، لیبر ڈیپارٹمنٹ، ضلعی انتظامیہ، بلوچستان ڈویولپمنٹ اتھارٹی، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی سمیت دیگر ادارے شامل ہیں۔ ہر ادارے کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔تاہم وہ اپنے ذاتی مفادات کوترجیح دے رہے ہیں۔ وہ صنعت کی بہتری اور مزدوروں کی سیفٹی سمیت آلودگی کو کنٹرول کرنے کے بچائے اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔
شِپ بریکنگ یارڈ اپنے قیام سے آج تک مقامی افراد کے لئے سود مند منصوبہ ثابت نہیں ہوسکا۔ نہ مقامی افراد کے لئے روزگار کے مواقع موجود ہیں۔ اور نہ ہی علاقے میں فلاح و بہبود کی فراہمی جیسے منصوبے پر عملدرآمد کیا گیا۔ مقامی افراد کے مطابق شِپ بریکنگ کی سخت اور خطرناک کام کے لیے کمپنیاں ازخود لوگوں کو ملازمت کے لیے نہیں رکھتیں۔بلکہ ٹھیکیداروں سے رابطہ کرکے علاقے سے باہر مزدوروں لایا جاتا ہے۔.
شِپ بریکنگ یارڈ کی موجودگی کی وجہ سے اردگرد کے تمام رہائشی علاقے کی فضاء انتہائی آلودگی کے لپیٹ میں آگئی ہے۔ جن میں گڈانی، وڈیرہ خدابخش گوٹھ، جورک گوٹھ ، وڈیرہ ولی محمد بزنجو گوٹھ، مزار موٹک گوٹھ، وڈیرہ رحیم خان بزنجو گوٹھ، قادرو بجارانی گوٹھ، احمد گوٹھ، آدم گوٹھ، واشو گوٹھ، علی باران گوٹھ، جمن گوٹھ، عثمان گوٹھ، حسن دوستوں گوٹھ، سائیں حاجی ابراہم گوٹھ، حسین شیخ گوٹھ، پشو خان سنگھور گوٹھ، میر شکر خان سنگھور گوٹھ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ آلودگی کی وجہ سے چھوٹے بچّے دمے کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ مقامی افراد نے شکوہ کیا کہ آبی جہازوں کے توڑ پھوڑ کے دوران یہ کیمیکلز کو الگ کرکے ایک ویران جگہ پر ضائع کرنے کے بجائے سمندر میں ہی چھوڑدیتے ہیں جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ آبی آلودگی بھی جنم لیتی ہے جس سے سمندری حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ماضی میں ایسے بھی بحری جہاز لائے گئے جو دوسری جنگ عظیم میں ان جہازوں میں جوہری مواد کا استعمال کیاگیا تھا۔ ان جہازوں کو یہاں لاکر توڑا گیا۔ جس سے علاقے میں ایٹمی تابکاری پھیلنے کے خطرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔ اور نہ ہی اس حوالے سے متعلقہ اداروں نے کام کیا۔
ٹرید یونین رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ یارڈ میں کام کی جگہوں پر صحت وسلامتی کے اقدامات اورلیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اور لیبر انسپیکشن کو مؤثر بنایا جائے ۔۔
یہ بھی پڑھیے:
ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر