کہتے ہیں کہ سرائیکیوں کا اجرک سے کیا تعلق، یہ تو سندھ کی تہزیب اور روایت ہے۔۔
یہ تو چار پانچ سال پہلے اپنائی گئی ہے۔۔
تو میرے ان دانشوروں اور تاریخ دانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ رواجوں کا پڑ جانا اچھا ہوتا ہے۔۔
جب تہذیبیں آپس میں ملتی ہیں تو نئی نئی چیزوں کا جنم ہوتا ہے، وہ اچھی بھی ہو سکتی ہیں اور بری بھی۔۔
اچھی چیزوں کو اپنا لینے کو تہذیبوں کی ترقی کہتے ہیں۔۔ انہی اچھی چیزوں میں سے ایک سرائیکی اجرک ہے
جو چلی تو سندھ سے ہے مگر یہاں سرائیکی رنگ میں رنگ کر اپنا ایک الگ مقام اور پہچان پا چکی ہے۔۔
اور الگ معنوں میں وسیب اور سرائیکی خطے سے جڑ گئی ہے۔۔ اس کا رنگ اپنا ہے اور اس میں موجود بیل بوٹے اپنی ہی ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔۔
ڈیزائن صوفیاء کرام کی خانقاہوں سے لیا گیا ہے اور بیل بوٹے ہمارے بزرگوں کے درباروں کی طرح ہی روحانی ہیں۔۔
سرائیکی زباں ذائقے میں میٹھی اور تاثیر میں ٹھندی ہے اور یہ دونوں چیزیں سرائیکی اجرک میں بھی نمایاں ہیں۔
رنگ نیلا ملتان کا رنگ ہے اور طبعیت پر اسکا اثر ٹھنڈا ہے۔۔ اس اعتبار سے سرائیکی اجرک قدیم ہے
اور اسکا نیلا رنگ نیل کی فصل سے لیا گیا ہے جو کہ قدیم ملتان یا یوں کہیے کہ قدیم صوبہ ملتان میں کاشت ہوتا تھا۔
شگفتہ اور معتدل ہونے کی وجہ سے یہ رنگ صوفیاء کے مزارات کہ زینت بنا۔۔
سرائیکی اجرک بھلے ہی قدیمی نہ ہو
مگر اس سے جڑے استعارے صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔۔ اور اب یہ خطے کی اور خطے میں رہنے والے لوگوں کی پہچان بن چکی ہے۔۔
اور پہچان بھی اچھی۔۔ اور بھلی۔۔ اور اسی سلسلے میں 6 مارچ کو ہم سرائیکی اجرک ڈے مناتے ہیں
اور مختلف تہذیبوں کو اپنے کلچر اور رواجوں کی طرف دعوت دیتے ہیں۔۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون