مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوبر ڈرائیور کا کوئی پرستار نہیں ہوتا
کوئی شخص اس سے آٹوگراف نہیں لیتا
نہ اس کے ساتھ سیلفی بنواتا ہے
سب سواریاں پورا کرایہ دیتی ہیں
کچھ لوگ ٹپ بھی
لیکن کوئی اس کی ڈرائیونگ کی تعریف نہیں کرتا
کوئی رائیڈر اس بات کو نہیں سراہتا
کہ اس کی گاڑی صاف ستھری ہے
نہ اس بات کو
کہ وہ حد رفتار کا خیال رکھتا ہے
اور نہ اسے
کہ اس کو مختصر ترین راستہ معلوم ہے
لوگ موسم پر تبادلہ خیال کرلیتے ہیں
لیکن کوئی شخص اوبر ڈرائیور سے مشورہ نہیں کرتا
نہ اس کے مسائل جاننا چاہتا ہے
نہ کرئیر ایڈوائس مانگتا ہے
کیونکہ کوئی بھی شخص
حتیٰ کہ اوبر ڈرائیور خود بھی
اپنے بچوں کو اوبر ڈرائیور نہیں بنانا چاہتا
باخبر صحافی یا فکشن رائٹر کی طرح
اوبر ڈرائیور کے پاس
روزانہ بیس کہانیاں ہوتی ہیں
لیکن وہ ایک بھی قصہ نہیں لکھتا
سوشل میڈیا کے دور میں
کوئی اوبر ڈرائیور ٹوئیٹر اکاؤنٹ نہیں بناتا
نہ فیس بک پیج
یا یوٹیوب چینل
کیونکہ ٹوئیٹ کرنے
یا ویڈیو بنانے
یا کہانی لکھنے کے بجائے
اس قیمتی وقت میں
اوبر چلانے سے چار پیسے مل سکتے ہیں
جن سے مکان کا کرایہ
اور بجلی کا بل دیا جاسکتا ہے
یا آٹا خریدا جاسکتا ہے
یا وہ قرض واپس کیا جاسکتا ہے
جو پچھلے مہینے لیا تھا
یا اس سے پچھلے مہینے
کوئی اس بات پر داد نہیں دیتا
کہ اوبر ڈرائیور ہیڈلائٹس کو ہائی بیم پر نہیں رکھتا
یا درست وقت پر تیل تبدیل کرتا ہے
یا ٹائروں کو رگڑ رگڑ کے دھوتا ہے
اوبر ڈرائیور خوب جانتا ہے کہ
سوزوکی مہران
یا ٹویوٹا کرولا
یا ہونڈا سوک کا
ٹائر کیسے تبدیل کرنا ہے
لیکن وہ یہ نہیں جانتا
کہ زندگی کی گاڑی کا
رخ کیسے موڑتے ہیں
اس کی رفتار پر
قابو کیسے پاتے ہیں
اسے جھٹکے لگنے لگیں تو
ایندھن کہاں سے لیتے ہیں
اور اگر زندگی کی گاڑی کا
ٹائر پنکچر ہوجائے تو
اسے کیسے بدلتے ہیں
اے وی پڑھو
اشو لال: تل وطنیوں کا تخلیقی ضمیر||محمد الیاس کبیر
منٹو کے افسانے، ٹائپنگ اسپیڈ کا امریکہ میں ٹیسٹ ۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی
پسماندہ ملکوں کی ورکنگ کلاس ۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی