نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزادی کی روبکار ابھی نہیں پہنچی||حیدر جاوید سید

لوگ اگر یہ پوچھتے ہیں کہ آٹا 75روپے کلو ہے اور میزائل تجربہ ہر دو ماہ بعد ہورہا ہے تو ہمیں بتایا جائے یہ اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے جنم شہر کے ملتان ٹی ہاوس اور اہل دانش کی تنظیم سخن ور فورم کے زیراہتمام ’’پولیٹیکل اکانومی کے ہماری سیاست اور معیشت پر کیا اثرات ہیں‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کے دوران دلچسپ باتیں ہوئیں۔ ایک مہمان مقرر کو گفتگو کے لئے بلانے سے قبل رضی الدین رضی نے جو کلمات ادا کئے ان پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
ان تالیوں نے یہ یقین دلایا کہ رعایا کے درمیان بستے عوام ہونے کا شعور رکھنے والے لوگ بھلے کم ہیں لیکن وہ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ اب تو اشاروں میں ہوئی بات بھی سمجھ لیتے ہیں۔
اچھا سمجھ لینا، پھر ہضم کرنا یا یوں کہہ لیجئے کہ اسے اپنے شعور کی ترجمانی سمجھنا یہ زیادہ اہم ہے۔ رضی الدین رضی نے ملتان کے ڈی ایچ اے میں منعقد ہونے والے بلوچستان عالمی سکواش ٹورنامنٹ کے حوالے سے زیرلب مسکراتے ہوئے کہا، ملتان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے لئے تفریح کا سامان (میچز) ملتان میں ہوتا ہے۔
یہ بات ہے ویسے رونے والی، ہم دنیا کو بتانا اور سمجھانا کیا چاہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیمینار میں شرکت سے قبل ٹی ہائوس میں سید ذوالقرنین گیلانی ایڈووکیٹ اور محمد شعیب کے ساتھ جمی محفل میں بھی بلوچ ایشو پر ہی بات ہوئی۔ میری رائے یہی تھی کہ قومی مزاحمت کے نام پر مزدوروں کا قتل عام درست نہیں اس سے ہمسایہ اقوام میں مثبت تاثر نہیں جاتا بلکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قومی حقوق کی سیاسی تحریک پر وہ عسکریت پسند قابض ہیں جو شرف انسانی سے متصادم اپنے عمل کو محرومیوں کے اظہار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
اس دوران نوجوانوں کے تندوتیز سوالات میں چھپی ناراضگی نے خوفزدہ بھی کیا۔
بظاہر دیکھا جائے تو اصل قصور ہمارے ان پالیسی سازوں کا ہے جو مساویانہ پالیسیوں کی بجائے حاکمت کے زعم کو پروان چڑھاتے ہیں جبکہ ہمیں اور پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ 22کروڑ عوام کا ملک ہے اس ملک کے اصل مالک عوام ہیں اور عوام کو رعایا سمجھنا ظلم ہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ وسائل کی عدم تقسیم اور مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کے حق ملکیت سے انکار ہے۔ اس انکار کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ستم یہ ہے کہ نتائج کا پس منظر سمجھنے کی بجائے ہم تاویلات گھڑتے ہیں اس سے مزید خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
نوجوان دوستوں کے تلخ و تند سوالات کے جواب میں عرض کیا،
مظلوم اقوام کو متحد ہوکر سیاسی و معاشی حقوق کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔
اشرافیہ کی نظام پر گرفت کو توڑنا آسان نہیں ہوگا ثانیاً یہ کہ سیاسی و معاشی اور شہری حقوق کی جدوجہد طبقاتی شعور پر منظم کرناہوگی 94یا 90فیصد طبقات کا حصہ بنے لوگوں کو 10فیصد کا طوق غلامی گلوں سے اتارنا ہوگا۔
یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دستیاب سیاسی جماعتوں پر دباو بڑھایا جائے کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اشرافیہ کی دلجوئی کی بجائے عام آدمی کے مفادات کے تحفظ کو اولیت دیں۔
یہ بھی عرض کیا جائے کہ مجھ ناچیز کی رائے میں
’’اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں آباد قوموں کے درمیان نیا عمرانی معاہدہ ہو‘‘۔
ذوالقرنین گیلانی کا سوال تھا کہ کیا ہم ایک نیا دستور بنانے کے ’’ماحول‘‘ میں ہیں؟
عرض کیا نئے دستور کی تشکیل میں بہت مشکلات ہوں گی اس سے بہتر اور مناسب یہ ہوگا کہ مساوی حقوق کا نیا عمرانی معاہدہ ہو اور اسے دستور کا بیانیہ قرار دیا جائے۔ عددی اکثریت پر دوسروں کے وسائل ہڑپ کرنے یا انہیں شودر سمجھنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔
ہمیں اکٹھا رہنا ہے تو ازسرنو معاملات طے کرنا ہوں گے۔ کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ 1973ء کا دستور مزید ایسی ترامیم کا متقاضی ہے جو عوام کو حق حاکمیت عطا کریں کوئی طبقہ یا ’’کوئی اور‘‘ خود کو مصلح اور حاکم نہ سمجھے بلکہ عوام کی رائے کا احترام کیا جائے۔
محفل میں انسانی تاریخ میں ہوئی انتقال آبادیوں اور ان کی وجوہات پر بات ہوئی۔ تفصیل کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں انہیں کسی اور کالم میں تحریر کروں گا۔
ملتان ٹی ہاوس کے کانفرنس ہال میں جب ہم پہنچے تو ماہر معاشیات علی سلمان گفتگو کررہے تھے ان کی باتوں اور دلائل ہر دو پر مجھ طالب علم کی رائے یہ ہے کہ وہ بات پولیٹیکل اکانومی کے تناظر میں کررہے تھے لیکن دلائل میں چھپی خواہشات ہمیں یہ سمجھارہی تھیں کہ اکانومی ہی اصل چیز ہے۔
جی بالکل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بنیادی طور پر زرعی معیشت والے ملک میں پولیٹیکل اکانومی استوار کن خطوط پر ہوگی؟
ہم تو تہتر برسوں سے اپنے اصل سے کٹے جی رہے ہیں تاریخ سمیت ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں مثلاً زرعی معیشت کو نظرانداز کرکے صنعتی معیشت کا جادو جگانے میں جو تماشے ہوئے ان کی وجہ سے تو گھر اور گھاٹ کا فرق ختم ہوگیا۔
اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ اصلاحات کے ایجنڈوں کے نام پر ملنے والی امدادوں یا زندہ رہنے کے لئے حاصل کئے جانے والے قرضوں ہر دو کے لئے جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ان میں عوام تو یکسر نظرانداز ہوجاتے ہیں مثال کے طور پر آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا قرضہ پروگرام مل جانے پر پچھلے چند دنوں سے مبارک و سلامت کا جو شور مچا ہوا ہے اس سے حقائق مسخ ہورہے ہیں۔
آئی ایم ایف نے6 روپے یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے کو کہا تھا 3روپے 90پیسے ہم بڑھاچکے 2روپے 10پیسے کا وعدہ ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں ہم نے 20ارب ڈالر کے قرضے واپس کئے۔ پچھلی حکومتوں نے بھی خود سے پچھلی حکومتوں کے قرضے واپس کئے۔
اصل سوال یہ ہے کہ 16دسمبر 1971ء کے بعد سے آج تک جتنے قرضے لئے گئے ان میں سے کتنے کس مد میں خرچ ہوئے؟
لوگ اگر یہ پوچھتے ہیں کہ آٹا 75روپے کلو ہے اور میزائل تجربہ ہر دو ماہ بعد ہورہا ہے تو ہمیں بتایا جائے یہ اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟
سچی بات یہ ہے کہ یہ فطری سوال ہے۔ ہم 15ویں نہیں 21ویں صدی میں رہ رہے ہیں یہ غلاموں یا مفتوحین کا نہیں آزاد لوگوں کا ملک ہے سوالات کا برا منانے کی ضرورت نہیں۔
محض یہ کہہ دینا سابق حکمرانوں نے قرضوں کا انبار لگادیا آدھی بات ہے۔ باقی کی بات یہ ہے کہ وہ قرضے کہاں اور کیسے خرچ ہوئے۔
ایک شہری کے طور پر یہ عرض کرنے کا حق ہے کہ حضور اسلحہ کی دوڑ اور تجربوں کے مقابلہ میں شرکت کرنے کی بجائے دستیاب وسائل حقیقی مدوں میں صرف کیجئے۔ زرعی معیشت کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہےاورویسے مجھے وجاہت مسعود کی اس بات نے اپیل کی کہ تہتر برس قبل ہماری آزادی کا حکم تو جاری ہوگیا لیکن ہماری روبکار ابھی نہیں پہنچی۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author