دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ورچوئل سرمایہ کاری کانفرنس اور شیخ احسن رشید||سارہ شمشاد

جنوبی پنجاب پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کا ہاٹ کیک بنا ہوا ہے اور ہو بھی کیوں نہ کہ جب ہر روز اس خطے کی اہمیت اور افادیت پر مہر ثبت ہورہی ہے کہ اس خطے میں بڑا پوٹیشنل ہے
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملتان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، یو ایس ایڈ کے تعاون سے جنوبی پنجاب میں تجارتی و سماجی سرمایہ کاری کے مواقع اور چیلنجز کی نشاندہی کے لئے3روزہ جنوبی پنجاب ورچوئل سرمایہ کاری کانفرنس میں سرمایہ کاری بورڈ، ٹریڈ آفس ٹورازم انسٹی ٹیوٹ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یو ایس کونل جنرل کیتھرین لسٹوریگ نے کہا کہ پاکستان اور امریکی سرمایہ کاری سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ اس موقع پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان نے کہا کہ سیکرٹریٹ فعال اور بہاولپور میں انڈسٹریل سٹیٹ کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر امریکی قونصل جنرل، کوآرڈی نیٹر یو ایس ایڈ کنور بخاری اور صنعت کار خواجہ محمد انیس نے شیخ احسن رشید کو خراج تحسین پیش کیا۔ شیخ احسن رشید نے خطہ کی ضروریات کے لئے سولر بائیو گیس اور سیف انرجی کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب میں سرمایہ کاری کے لئے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ اپنے دستیاب ذرائع سے استفادہ یقینی بناناہوگا۔
ملتان میں 3روزہ ورچوئل سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد بلاشبہ شیخ احسن رشید کا ایک بڑا کارنامہ ہے کہ جس سے اس خطے میں سرمایہ کاری کی نئی جہتیں وار ہوں گی۔ جنوبی پنجاب پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کا ہاٹ کیک بنا ہوا ہے اور ہو بھی کیوں نہ کہ جب ہر روز اس خطے کی اہمیت اور افادیت پر مہر ثبت ہورہی ہے کہ اس خطے میں بڑا پوٹیشنل ہے، میں اس خطے کی نئی پہچان کا سہرا اپنے علاقے کے نامور سپوتوں شیخ احسن رشید، جلال الدین رومی اور دانش ور برادری کو دوں گی جو اپنے تئیں اس خطے کی اہمیت کو منوانے کی کوششوں میں جُتے ہوئے ہیں اور ارباب اختیار کو چیخ چیخ کر اس خطے پر نظرکرم کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ میرا وسیب پچھلے 70برس سے زائد سے اس بری طرح نظرانداز ہواہے کہ اب اس کے باسیوں کے غربت زدہ چہرے ہی ان کی پہچان بن گئے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے کرتا دھرتائوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اسی لئے تو اپنی مدد آپ کے تحت اس خطے کی خدمت کرنے والے قابل تحسین بیٹوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ اگر وہ کچھ کرنا چاہیں تو راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔درحقیقت یہ حکومتی بے حسی ہے کہ جس سے اپنی زمین سے کوٹ کوٹ کر وابستگی رکھنے والے بددل ہوجاتے ہیں۔ اگر یہی نوجوان اپر پنجاب میں ہوتے تو وہاں کی حکومت انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتی اور اپنے علاقے کی ترقی کے لئے وسائل کا بھرپور استعمال میں لاتی۔ کچھ ایسے ہی مسائل کی طرف شیخ احسن رشید نے یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ ریاستی پالیسیوں میں ابہام سے سرمایہ کاری تعطل کا شکار ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف وزیراعظم عمران خان Doing business at case کی بات کرتے ہیں مگر سرمایہ کاروںاور صنعت کاروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں اسی لئے تو معاملات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب جبکہ جنوبی پنجاب میں تجارتی سماجی سرمایہ کاری کے مواقع اور چیلنجز کی نشاندہی کی جارہی ہے تو خطے کی افسر شاہی کو حرکت میں آنا چاہیے مگر چونکہ بیوروکریسی کو اس قسم کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں اسی لئے تو انہوں نے اپنے کانوں میں سیسہ ڈال رکھا ہے، مجال ہے کہ کبھی ٹیکسٹائل، سیاحت، توانائی اور زراعت کی ترقی کے لئے آواز بلند کرنے کی کوشش گوارہ کی ہو۔ دراصل یہی وہ حق تلفی ہے جو میرے وسیب سے عرصہ دراز سے کی جارہی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی زراعت کا 70فیصد سے زائدمیرے وسیب سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہاں پر زراعت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تباہ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ آم جو ملتان کی پہچان ہیں، کے باغ شعوری طور پر ختم کرکے رہائشی سکیمیں متعارف کروائی جارہی ہیں، یہی نہیں ہماری کپاس جسے وائٹ گولڈ کی حیثیت حاصل ہے ، اس کی بربادی پر ایک علیحدہ سے نوحہ لکھا جاسکتا ہے۔ گندم، چاول، گنا جیسی منافع بخش فصلیں حکومتی نااہلی کے باعث زبوں حالی کا منظر پیش کررہی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ زرعی ملک میں زرعی اجناس بھی ایکسپورٹ کروائی جارہی ہیں جو ہمارے حکمرانوں کی اس خطے سے وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت 117 ادارے بند کرنے کی پلاننگ کررہی ہے جس سے 70ہزار افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے تو ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ اگر خود خزانہ خالی ہے کا رونا رونے کی حکمت عملی پر عمل پیراہے تو کم از کم اپنے ملک میں سرمایہ کاروں کے لئے آسانیاں پیدا کرے تاکہ روزگار کے مواقع میسر آسکیں وگرنہ خودکشیوں کی شرح میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان جو سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کے ہمیشہ سے ہی بہت بڑے داعی رہے ہیں ہم ان سطور کے ذریعے کئی مرتبہ ملتان کے ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی اثاثے سے بھرپور انداز میں فائدہ اٹھانے کی بات کرچکے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ نقارخانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے کے مصداق وہ اس اہم نکتے کی جانب توجہ دینے کو تیار ہی نہیں اور یہ تک سوچنے کی زحمت نہیں کررہے کہ درجن بھر سے زائد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی آئندہ الیکشن میں عوام کے دربار میں کس منہ سے جائیں گے۔ کہ جب عوام ان سے اس علاقے کے لئے کیا کِیا کا جائز سوال کریں گے۔وزیراعظم غالباً اس بات کو نظرانداز کررہے ہیں کہ عوام کو جو شعور انہوں نے دیا ہے اب انہیں کوئی گولی، ٹافی کے لارے دے کر مطمئن نہیں کیا جاسکے گا بلکہ ان کے شعور کو جلا بخش کر انہوں نے اپنے لئے شاید نہیں تو اپنے عوامی نمائندوں کے لئے ضرور مشکل پیدا کردی ہے کیونکہ جنوبی پنجاب صوبے کے 90روز کے اندر قیام کے وعدے سے جس طرح تحریک انصاف کی حکومت پیچھے ہٹی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہاں پر تعلیم، صحت، روزگار اور غربت کے خاتمے کےلئے ایک جامع روڈ میپ کی فراہمی کے ساتھ اس خطے کی تاریخی، جغرافیائی اہمیت کو تسلیم کروانے کی بات جس اعتماد کے ساتھ کی گئی تھی اب اس میں دراڑ پڑچکی ہے اس لئے حکومت پر لازم ہے کہ عوام کو طفل تسلیوں کی بجائے عملی اقدامات بارے سوچے۔ اس کے لئے بہتر ہوگا کہ وزیراعظم شیخ احسن رشید، جلال الدین رومی جیسے محب وطن اور اس خطے کے لئے کچھ کردکھانے کی لگن رکھنے والوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں اور اس کی سربراہی خود کریں اس کمیٹی سے علاقے کی ترقی اور خوشحالی بارے ماہانہ رپورٹ طلب کریں کیونکہ 3روزہ ورچوئل سرمایہ کاری کانفرنس میں جن اہم شعبوں زراعت، سیاحت، ٹیکسٹائل اور توانائی ترقی پر سرمایہ کاری پر اتفاق کیا گیا ہے اگر ان شعبوں بارے سنجیدگی سے سوچ لیا جائے تو خطے میں ایک انقلاب برپا ہوگا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت خواجہ محمد انیس، چودھری ذوالفقار، شیخ احسن رشید اور خواجہ جلال الدین رومی سے اس خطے کی ترقی بارے تجاویز طلب کریں اور ساتھ ہی ساتھ یہاں پر انٹرنیشنل کانفرنسز کے سلسلے کو بھی شیخ احسن رشید وقتاً فوقتاً یقینی بناتے رہیں تاکہ جس حد تک ہوسکے جنوبی پنجاب کی خدمت ممکن ہو اور دنیا پر اس کی قدرومنزلت عیاں ہو اگر ایسا ہوگیا تو یہ اس خطے پر ان کا احسانِ عظیم ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author