نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان امن، امکانات، خدشات اور تجاویز ||حیدر جاوید سید

پاکستان جو پہلے بھی افغان خانہ جنگیوں کے اثرات سے متاثر ہوا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ میری دانست میں تو روس، چین، ایران اور پاکستان متحد ہوکر امریکہ کے مقابلہ میں افغان امن کے لئے زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوبائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دوحہ معاہدہ پر نظرثانی کے اعلان کے بعد یکم مئی کو افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی مشکوک ہوگئی ہے۔ امریکیوں کا موقف ہے کہ طالبان نے وعدے پورے نہیں کئے۔ سرکاری اور پبلک مقامات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
طالبان کہتے ہیں معاہدہ امریکہ کے ساتھ تھا افغان حکومت کے ساتھ نہیں۔
دوسری طرف امریکہ طالبان معاہدہ کو لاحق خطرات کے پیش نظر روس بھی ایک بار پھر افغانستان میں قیام امن کے لئے متحرک ہوگیا ہے۔
گزشتہ دنوں روسی نمائندے کا دورے اسلام آباد اسی سلسلے میں تھا۔ افغان امور کے تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ ’’روس چاہتا ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد طالبان، موجودہ افغان حکومت اور دوسرے گروپوں پر مشتمل عبوری حکومت قائم ہو تاکہ افغان عوام کسی نئی خانہ جنگی کا ایندھن نہ بننے پائیں‘‘۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ روسی نمائندے نے حالیہ دورہ اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو روسی صدر کا خصوصی پیغام پہنچایا۔ روس ماسکو میں ماضی کی طرح ایک بار پھر ایسی کانفرنس کی میزبانی کے لئے تیاریاں کررہا ہے جس میں افغانستان کے تینوں پڑوسی ممالک، پاکستان، چین اور ایران کے علاوہ بین الافغان مذاکرات کے عمل میں شریک افغان گروپ شرکت کریں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے بھی بالآخر یہ فیصلہ کرلیاہے کہ افغان امن کے مقامی افغان فریقوں کے ساتھ مساویانہ تعلقات کار قائم کئے جائیں تاکہ غیرپشتون افغان گروپس کا یہ شکوہ دور ہو کہ پاکستان صرف افغان پشتون دھڑوں کا ہمنوا ہے۔
اصولی طور پر یہ ایک مثبت سوچ ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں افغانستان کے صوفی سنیوں کے بعد شیعہ دھڑے کے نمائندے نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور حال ہی میں مرحوم افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کے چھوٹے بھائی احمد ولی مسعود پاکستان کے دورہ پر آئے۔ یہ پیشرفت نہ صرف مثبت ہے بلکہ اس سے ماضی میں پیدا ہونے والی دوریاں بھی ختم ہوں گی۔
ہم ایک طویل عرصہ سے پاکستانی پالیسی سازوں کی خدمت میں یہ عرض کرتے چلے آرہے ہیں کہ افغان پالیسی پر نظرثانی کیجئے یکطرفہ افغان پالیسی کا خمیازہ پاکستانی عوام نے بھگتا اور بری طرح بھگتا۔ افغانستان کی سیاست میں موثر حیثیت رکھنے والے غیرپشتون دھڑوں میں پاکستان کے حوالے سے پائی جانے والی بداعتمادی نے ان دھڑوں کو چین، روس اور ایران کےقریب کیا۔
گو یہ بداعتمادی افغان جہاد کے آغاز سے پیدا ہوگئی تھی لیکن کمانڈر احمد شاہ مسعود کے قتل نے اسے بڑھاوا دیا۔ ایک وقت تھا گلبدین حکمت یار ہمارے پالیسی سازوں کی آنکھوں کا تارا تھے تب ہماری افغان پالیسی کا حال یہ تھا کہ
"ایک افغان رہنما غلام رسول سیاف کو عبدالرب رسول سیاف کا اسم مبارک اپنی شناخت بنانا پڑا”۔
تاجک، ازبک اور ہزارہ افغان دھڑے اپنی عددی تعداد کے حساب سے ایک موثر حیثیت کے حامل ہیں مگر ہم نے امریکہ اور سعودی عرب کی خوشنودی کے لئے انہیں نظرانداز کیا بہرطور ماضی اور تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے دیگر افغان دھڑوں کو اعتماد میں لینے کی حالیہ پالیسی خوش آئند ہے۔
احمد شاہ مسعود کے بھائی کا دورہ پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے ہمیں اس کے لئے روس اور ایران کی کوششوں کی تحسین کرنی چاہیے جنہوں نے غیرپشتون دھڑوں اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کو ختم کرنے کیلئے کردار ادا کیا۔
یہ بھی عرض کردوں کہ پاکستان کو اس مرحلہ پر نئی امریکی انتظامیہ سے بھی بات کرنی چاہیے انہیں بتانا ہوگا کہ دوحہ معاہدہ پر نظرثانی یا یکطرفہ خاتمہ ایک اور خانہ جنگی کا دروازہ کھولنے کا سبب بنے گا۔
پاکستان جو پہلے بھی افغان خانہ جنگیوں کے اثرات سے متاثر ہوا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ میری دانست میں تو روس، چین، ایران اور پاکستان متحد ہوکر امریکہ کے مقابلہ میں افغان امن کے لئے زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طالبان کو دوحہ معاہدہ پر نظرثانی کا عندیہ دینے والا امریکہ داعش کو عراق اور شام سے محفوظ طور پر افغانستان منتقل کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی داعش کے لئے راستہ ہموار کررہے ہیں۔
اس مرحلہ پر افغانستان کے پڑوسی ممالک کا کردار مزید اہم ہوجاتا ہے یہ پڑوسی اگر اپنے اپنے مفادات کو دیکھنے کی بجائے خطے کے اجتماعی مفادات کو سامنے رکھیں تو بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں خصوصاً اس وجہ سے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں مجددی، شیعہ ہزارہ اور اب احمد ولی مسعود پاکستان آئے، دوریاں کم ہوئیں، اعتماد سازی کی کوششیں دوستوں کے تعاون سے مثبت نتائج دے رہی ہیں۔
ان حالات میں اگر روس میں افغان امن کانفرنس کامیاب ہوتی ہے تو امریکہ اور اس کے لے پالک بھارت کا افغانستان میں کردار کم ہوجائے گا۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو اس مرحلہ پر وسیع اور طویل المدتی مفادات پیش نظر رکھنا ہوں گے۔
افغان امن ہمارے لئے ہی نہیں خطے کے لئے بھی اہم ہے اس امن سے وسط ایشیائی ریاستوں تک محفوظ تجارتی راستوں کا معاملہ حل ہوجائے گا اور افغانستان میں بھی تعمیروترقی کے نئے دور کا آغاز۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان کی قیادت کو بھی سمجھایا جائے کہ وہ بھی کلی اقتدار کے حصول کی ضد ترک کرکے سب کو ساتھ لے کر چلے۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author