عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی شاعری کے مستقبل کا انحصار شاعر کے تخلیقی صلاحیت، تصور زیست اور ایسے جذباتی ردعمل پر ہے کہ وہ ذہنی انتشار اور اقدار کے بحران میں کسی قسم کی مثبت اقدار تخلیق کرکے انسانی زندگی کو نئی معنویت عطا کرے۔
"نیا شعری افق” از انیس ناگی
جالب صاحب، پھٹتے ہوئے ارادوں کا رزق
بنجر وجود سے اٹھ گیا
اب یقیں، مصبیت
پاؤں نہیں دھلائے گی
اس کی شاعری کی کتاب کا عنوان اس کی اپنی نظم "زیست کے دائرے” سے لیا گیا ہے اور اس کی ایک لائن افتخار جالب "لسانی تشکیلات” کا اردو شاعری میں باوا” مخاطب ہوتا ہے تو مجھے افتخار جالب کی نظم "دھند” یاد آجاتی ہے:
آنکھیں یوں مرکوز ہوئی ہیں جیسے میں ہی میں ہوں اور نہیں ہے کوئی
سچی بات مگر ہے اتنی
میں مردار سمندر ہوں
احساس زیاں کا جھونکا ہے
آنکھیں بول نہیں سکتی ہیں
اور بدن بینائی سے محروم ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کتاب میں نے جب پڑھنے کی نیت سے اٹھائی تو مجھے انیس ناگی کے ساتھ ساتھ سلیم الرحمان یاد آئے اور منیر نیازی یاد آئے جن کو انیس ناگی نے نئی شاعری کی نمائندہ آوازوں ميں شامل کیا تھا اور میرا دل ایک خدشے سے دھڑک رہا تھا کہ کہیں میرا دوست اس صف (چاہے آخری ہی سہی) میں شامل ہونے کی کوشش دھڑام سے گر نہ پڑا ہو ۔ ویسے آجکل اس کی ایک ٹانگ پہ پلاسٹر چڑھا ہوا ہے اور وہ بستر پہ ہے۔ انیس ناگی نے اپنی کتاب ” نیا شعری افق” ميں آغاز میں ہی یہ لائینیں بطور مثال درج کی تھیں
میں اپنے سوالوں کی زنجیروں میں قید ہوں
اور انکار کے رات دن سے گزرتا ہوں
میرے لیے معجزے اور پرانی کتابوں میں لکھی ہوئی سچائیاں
مردہ نسلوں کی تاریک تختیوں پہ مٹتی ہوئی سچائی ہیں
مجھے اپنے اجداد کی ہڈیوں میں کبھی زندہ ہونے کی خواہش نہیں ہے
(سلیم الرحمان)
روز ازل سے وہ بھی مجھ تک آنے کی کوشش میں ہے
روز ازل سے میں بھی اس سے ملنے کی کوشش میں ہوں
لیکن میں اور وہ ——— ہم دونوں
اپنی مشکلوں جیسے گورکھ دھندے میں
چپ چاپ اور حیران کھڑے ہیں
کون ہے "میں”
اور کون ہے "تو”
بس اس درد میں کھڑے ہیں
(منیر نیازی)
جیسا کہ میں اپنی کسی اور تحریر میں بتا چکا ہوں کہ فروری اور مارچ کے مہینے میرے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے اور ان دو مہینوں میں بہانے تلاش کرتا ہوں”اسے” یاد کرنے اور "آنسو” بہانے کے ۔ فراق صاحب کی ایک غزل "اسے” بہت پسند تھی اور وہ اسے "پیلو” راگ میں کمپوز کرچکی تھی اور اکثر راتوں کو وہ پیلو راگ چھیڑا کرتی اور پھر فرق کی غزل سنایا کرتی تھی
اے فراق اکثر چھپ کر پہروں پہروں رؤ ہو
وہ بھی کوئی ہمیں جیسا ہے کیا اس میں تم دیکھو ہو
لیکن اس دوران ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جن پہ لکھنا پڑتا ہے۔ گزشتہ جمعہ مجھے نیو لائن پبلشر لاہور سے ایک پارسل موصول ہوا۔ پارسل کھولا تو اس میں سے ایک کتاب برآمد ہوئی جس کا ٹائٹل "زیست کے دائرے” تھا اور اس کا سر ورق پاکستان کے مشہور السٹریٹر ریاظ احمد نے بنایا تھا (اب ریاظ احمد السٹریٹر ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ناول نگار بن گئے ہیں ، ان کا ناول شجر حیات میں پڑھ چکا ہوں اور اس پہ ریویو لکھ لیا مگر نجانے کیوں اسے فی الحال آن لائن کیا نہیں ہے۔ ریاظ احمد کو اب میں اپنا دوست بھی کہہ سکتا ہوں اور مجھے ایک جید آرٹسٹ سے دوستی پہ فخر ہے)۔ شاعری کی یہ کتاب ہمارے ایک دیرینہ دوست اور کامریڈ کی نظموں کے مجموعے کی پہلی کتاب ہے اور انہوں نے مجھے بہت شوق اور اہتمام سے بھجوائی ہے۔ ایک ماہ پہلے انہوں نے مجھے وٹس ایپ پہ کال کی اور بتایا کہ ان کی شاعری کی پہلی کتاب جلد چھپ کر آجائے گی۔ وہ چاہتے تھے استاد الاساتذہ پروفیسر امین مغل صاحب کو آخری بار نظمیں دکھا لیں اور پھر اس کا فائنل ڈرافٹ نیو لائن پبلشر کو بھجوادیں ۔ یہ کورونا کی دوسری بڑی لہر کا زمانہ تھا اور برطانیہ میں سمارٹ لاک ڈاؤن عروج پہ تھا اور پروفیسر امین مغل کی طبعیت بھی ٹھیک نہ تھی تو انہوں نے خود کو گوشہ نشین کر رکھا تھا۔ ایسے میں رابطہ وٹس ایپ تھا جو اور مشکل تھا۔ لیکن ہمارے دوست یہ سب مشکلات پار کر گئے اور کتاب سامنے آگئی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ نواز شریف کی وزرات عظمی کا دوسرا دور چل رہا تھا اور ان دنوں میں نواز شریف کی آمریت کے خلاف نوجوانوں میں بیداری کی مہم چلانے کے لیے جہاں موقعہ جایا کرتا تھا اور اس کے لیے میں کسی بھی جمہوریت نواز مرکز سے ملنے والی دعوت کو نظر انداز نہیں کرتا تھا۔ ایسے میں مجھے مزدور کسان پارٹی – ایم کے پی پنجاب کے صدر کامریڈ سی ایم لطیف کا فون آیا۔ انھوں نے مجھے پیشکش کی کہ اگر میں ملاکنڈ ایجنسی میں ڈی ایس ایف کے نوجوانوں کے اسٹڈی سرکل لینے میں دلچسپی رکھتا ہوں تو لاہور پہنچ جآؤں جہاں سے اگلے روز ایک وفد ملاکنڈ ایجنسی کے لیے روانہ ہوگا۔ میں نے یہ دعوت فوری قبول کرلی اور میں لاہور سول اینڈ سیشن کورٹس کے بار روم میں صبح کے وقپ پہنچ گیا اور وہاں کامریڈ سی ایم لطیف سے ملا – ابھی ہمیں تھوڑی دیر وہاں بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ ایک درمیانے قد، سانولے رنگ کا نوجواں کالے رنگ کی پینٹ، سفید رنگ کی شرٹ ، کالے رنگ کا کوٹ پہنے اور دائیں طرف کو مانگ نکالے ہماری میز کی طرف بڑھا، سی ایم لطیف اسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے، میں بھی کھڑا ہوگیا، معانقے کے بعد کامریڈ لطیف نے اس نوجوان کا تعارف کرایا،”یہ کامریڈ مزمل مختار ہیں، پیر محل سے تعلق ہے لیکن اب لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں اور بیرسٹر انور کمال کے چیمبر میں ہوتے ہیں۔ ہماری پارٹی کی پنجاب کمیٹی کے رکن ہیں۔ باتوں باتوں میں کامریڈ لطیف نے بتایا کہ آج تو ہم نہیں جارہے کل دوپہر کے وقت چلیں گے اور تم اگر چاہو تو رات کو میرے ہاں غازی محلہ ٹھہر سکتے ہو، اتنے میں وہ نوجوان بول پڑا، کامریڈ میرے ہاں ٹھہریں گے اور اب یہ میرے ساتھ ہیں اگر ان کی کوئی اور مصروفیات نہیں ہیں۔ میں نے کہا کوئی مصروفیات نہیں ہیں۔ اس کے بعد وہ دونوں اپنے بعض موکلین کے کیس بھگتانے کورٹس چلے گئے اور مجھ سے کہا یا تو میں یہاں بیٹھوں یا گھوم پھر کر دو گھنٹے تک آجاؤں۔ میں نے زرا مٹر گشتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں محلہ سنت نگر سے نکلا اور اپنی مادر علمی جی سی(یو) لاہور کے سامنے سے ہوتا ہوا مال روڈ پہ آیا اور وہاں میں پہلے کلاسیک میں گھسا اور سامنے آغا صاحب براجمان تھے ان سے علیک سلیک کی اور پھر کتابوں کو دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔ ادھر سے میں فیروز سنز سے ہوتا ہوا چئیرنگ کراس سے شاہراہ فاطمہ جناح روڈ کی طرف مڑا اور وہاں سے پنجابی کتب کے ناشر و ادیب ثاقب صاحب کے دفتر پہنچ گیا اور وہاں سے نکلا تو نبست روڈ پر کسان ہال کے ساتھ پیپلز پبلشنگ ہآؤس چلا آیا اور وہاں سے پھر نگارشات، و تخلیقات اور فکشن ہاؤس اور یوں دو گھنٹے پورے کرکے واپس ڈسٹرکٹ بار روم پہنچ گیا، وہاں مزمل مختار موجود تھے۔ کامریڈ نے مجھے ساتھ لیا اور ہم وہاں سے پیدل چلتے ہوئے جین مندر تک آئے اور پھر وہیں سے آگے فٹن روڈ پہ ہولیے اور وہاں ہمدرد آڈیٹوریم کے ساتھ جانے والی گلی میں داخل ہوئے تو سامنے ایک بلند و بالا عمارت تھی یہ حدیبیہ ہاسٹل تھا اور کامریڈ مزمل نے مجھے بتایا کہ اس نے اس ہاسٹل کی آخری منزل پہ ایک کمرہ کرائے پہ لے رکھا تھا۔ وہاں ہم نے شام تک آرام کیا اور رات کو ہم پرانی انار کلی میں بوٹا ٹی اسٹال پر آگئے اور وہاں سید عظیم، شوکت چودھری، کامریڈ صادق جتوئی اور دیگر کئی جانے پہچانے لوگ تھے۔ اس کے بعد کامریڈ مزمل مختار سے میری ملاقاتیں جاری رہیں اور پھر کامریڈ مزمل مختار لاء کی مزید تعلیم حاصل کرنے برطانیہ چلے گئے اور ایک لمبے عرصے تک رابطہ منقطع ہوگیا۔ پھر اچانک حال ہی میں دوبارہ رابطہ بحال ہوا اور پتا چلا کہ مزمل مختار شاعر ہوگئے ہیں اور شاعری میں انہوں نے 60ء کی دہائی میں نئی شاعری اور جدید شاعری کے نام سے ابھرنے والے رجحان کے دیوقامت افتخار جالب جیسی راہ اختیار کرلی ہے۔ جب مجھے یہ اطلاع ملی اور ساتھ ہی مزمل نے یہ بتایا کہ وہ نئی شاعری کے عاشق اس وقت سے تھے جب وہ طالب علم تھے تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ کیونکہ میں مزمل کے کمرے میں بہت بار ٹھہرا اور ہر بار ہماری گفتگو سیاست کے گرد گھومتی رہی اور میں اس کے اندر ادب و شعر کے حوالے سے شغف کو دریافت نہ کرسکا۔ جن دنوں میں مزمل سے لاہور میں ملا کرتا تھا تو ان دنوں انیس ناگی صاحب کا ٹھکانہ پنجاب پبلک لائبریری ہوا کرتی تھی اور کتابوں کا ایسا عاشق میں نے بہت ہی کم دیکھے تھے اور میں جب لاہور جاتا تو انیس ناگی صاحب سے ضرور ملا کرتا تھا اور کبھی کبھی ان کے گھر بھی حاضری دے دیا کرتا تھا۔ اگر مزمل نئی شاعری کے ادبی رجحان بارے کہیں مجھ سے زکر کردیتا تو میں اسے لازمی انیس ناگی صاحب کے ہاں لیکر جاتا اور انیس ناگی بھی ایک نوجوان کا ایسا شغف دیکھ کر خوش ہوتے۔ نآگی صاحب کو 2010ء میں جب پنجاب پبلک لائبریری میں کتابوں کے مطالعے کے دوران دلکا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہوگیا تو یہ وہ دن تھا جب میں دوپہر کو پنجاب پبلک لائبریری کے مین دورازے سے چند قدم کے فاصلے پر تھا اور انھی سے ملنے جارہا تھا۔ میں انیس ناگی کی محبت میں سلیم الرحمان، زاہد ڈار، عباس اطہر، افتخار جالب اور دیگر نمائندہ شاعروں کو بہت شوق سے پڑھا تھا اور ان کی کتاب "نیا شعری افق”کے کئی پیراگراف میں نے رٹ رکھے تھے۔ ناگی صاحب "ترقی پسند” تحریک کو ہمیشہ "سابق ترقی پسند تحریک” لکھا اور بولا کرتے تھے اور یہ سن اور پڑھ کر میری ہنسی چھوٹ جاتی تھی(جیسے اب چھوٹ رہی ہے) ان کی تعلی سے بھی میں لطف اندوز ہوتا تھا جیسے انہوں نے فیض اور میرا جی کے ساتھ ساتھ صفدر میر کو بھی جدید شاعری کا معیار قرار دیا اور ان کا نام تاخیر سے آنے کو ان کے مجموعہ نظم "درد کے پھول” کی اشاعت کو قرار دیا تھا۔
خیر مزمل مختار کی شاعری کی کتاب میرے سامنے ہے اور جب میں نے اس کتاب کی پہلی نظم پڑھی تو میرے سامنے یہ سطریں آئیں
جہالت نے سینچی ، چہار سمت
خیال پرستانہ مابعدالطبعیات کی شہر پناہ
کون گرائے ، گرانا تو ہوگا
مبہم حقیقتیں ،چو گرد میں سرگرداں –آشکارتی ہیں
بقا اور تشہیر کے سب فلسفے غلط ، سب فصلیں گریں گی
تو میرے ذہن میں ناگی صاحب کے الفاظ گونجے "حساس کی سطحیں جب محاکات کےزریعے نظموں میں درآئیں تو نئی شاعری جنم لیتی ہے۔”
مارکس جی تمہاری جستجو
صدیوں اور نسلوں کا نادر اثاثہ
اور میرے ارادے۔۔۔۔ اسی کا آٹھواں جنم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانجھ تمناؤں کو عزائم کا حمل ٹھہرا
ان کی نظم وجود مقید آپ کو شاید اپنی حالت لگے
میرا وجود —– انتظار کے سرد قید خانے میں پڑا
برف ہوچکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی سماج کی صورت
کتاب زیست کا ایک اور باب آشکار ہوا
اور زیست کے سٹیج پر نیا ڈراما وارد ہوا
غاصبوں نے ماڈرن ازم کے نام پر
سیاست چمکائی
اور زندگی کے سارے رنگ
ستونوں کو پہنائے گئے
عمارتوں کو قرمزی قمقموں سے سجایا گیا
سحر انگیز تاج محل اور
بلند و بالا ایفل ٹاور
مگر انسانوں کی اکثریت
آج بھی خستہ و شکستہ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
عجب جمود ہے
کیسے انساں ہیں
شریک غم رہتے ہیں
سہتے ہیں
بدلتے نہیں
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
حالات کی دہلیز پہ مرجاتے ہیں
بدلتے نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کسے قاتل ٹھہراؤں
کہ یہاں پر
غربت و جہالت کے خاتمے کا
منشور لیکر آنے والا
ہر اک نیتا
ہر اک بڑا عہدے دار
اتنا ہی بڑا غدار ہے
اور یہاں پر
ہر شخص کی نس نس سے
استبداد نہاں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیس ناگی کہا کرتے تھے "نئی شاعری” ہئیت سازی کا دوسرا نام ہے مزمل مختار کی شاعری ہئیت سازی کا تجربہ ہے اور احساس کی سطحوں پہ محکات کی ایک اور مثال ان کی نظم "خوف کا ماخذ ریاست” ہے۔ جب سماج میں ابہام کی گرد اور آج کل اسے سموگ کہہ لیں چھائی ہو تو یہ دھند پہلے لفظوں کے گرد تن جاتی ہے اور پھر یہ لفظ ادراک کو مبہم کردیتے ہیں اور مببم ادراک بھٹکتے بھٹکتے "بائی پولر” ہوجاتا ہے۔”مبہم حروف، مبہم افکار،مبہم ادراک” ایسے ہی اور دوسرے عنوان نظموں کے ہمیں نظموں کے عنوانات کی ہئیت سازی کے نئے تجربات سے دوچار کرتے ہیں۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ہے "آشنائی کی غیر مختتم انگڑائی” اور اس میں وہ کہتے ہیں
مجبت،محبت نہیں
رسائی تو ہے۔۔۔۔۔۔آشنائی ایسی
مجرد رسائی،مبہم بہت مبہم
کم آشنائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر