احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک مارکیٹ کے چوک کا منظر ہے۔سیاہ شلوار قمیص میں ایک نوجوا ن سڑک پر خون میں لت پت پڑا ہے،اُس کا کوئی دوست ،عزیز یا واقف کار بازو کو پکڑکر ایک طرف گھسیٹنے کی کوشش کررہا ہے،ساتھ ہی ایک چھوٹی گاڑی کھڑی ہے ،جس کا پچھلا دروازہ کھلا ہوا ہے ،شاید وہ ،زخمی شخص کوگاڑی میں ڈال کرہسپتال لے جاناچاہتا ہے،
ساتھ ہی ایک پولیس والاموبائل پر کچھ دیکھ رہا ہے،علاوہ ازیں چند لوگ جنھوں نے شلوار قمیصیں،پہن رکھی ہیں ،سڑک پر پڑے زخمی شخص کی موجودگی سے بے نیاز چلتے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بازار ہے ،مگر بندپڑا ہے۔
اِکا دُکا گاڑیاں اِدھر اُدھر آتی جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔اسی اثناء میں آگے پیچھے چند موٹرسائیکلیں درمیانی رفتار کے ساتھ وہاں سے گزرتی چلی جاتی ہیں ،آگے والی موٹر سائیکل پر تین لوگ ہیں، درمیان میں بیٹھا ہوا شخص ہوائی فائرنگ کررہا ہے ،ایک شور سابلند ہورہا ہے ،تھوڑی دیر بعد وہاں سے ایک اور موٹر سائیکل گزرتی ہے ، درمیانی عمر کاشخص موٹرسائیکل چلا رہا ہے ،
سات آٹھ برس کا بچہ آگے بیٹھا ہے ،پیچھے خاتون نقاب اوڑھے بیٹھی ہے ،بند دُکانوں کے آگے پارٹی پرچموں کی بہتات ہے۔ یہ سرسوں کاکھیت ہے ۔تیس سے پینتیس لوگ موجود ہیں ،شور ہے ،چار پانچ لوگ باہم گتھم گتھا ہیں،جدھر کو لڑنے والے جاتے ہیں ،باقی ہجوم بھی اُدھر کو بڑھتا چلا جاتا ہے ،ایک شخص کو مکے اور تھپڑپڑرہے ہیں،مکے اور تھپڑ کھانے والے نے سر جھکایا ہواہے ،اُس کے ہاتھوں نے ایک دوسرے شخص کے گریبان کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے،سرسوں کے پھول پیروں تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔یہ سب لوگ اپنے لباس اور چہروں سے آسودہ حال دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ڈسکہ کے سرکاری ہسپتال کا منظر ہے،
ایمرجنسی کے فرش پر خون کے دھبے ہیں ،یہ دھبے درحقیقت جوتوں کے نشانات ہیں ،زخمیوں کو لانے والے جب اُجلے فرش پر پائوں رکھتے چلے گئے تو یہاں وہاں خون بکھرتا چلا گیا۔ایک نامعلوم شخص ویڈیو بنارہا ہے ،ساتھ ساتھ معلوما ت بھی فراہم کررہا ہے ،اُس کے نزدیک ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ڈسکہ کو میدانِ جنگ بنادیا ہے، فائرنگ سے کئی لوگ زخمی ہوچکے ہیں،اُس شخص کا سانس پھولا ہوا ہے ،
آخر میں اُس کی آواز رُندھ جاتی ہے اور وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ ہسپتال کا فرش خون سے بھرتا چلا جاتا ہے۔ یہ تنگ سا بازار ہے۔دونوں اطرف کی دُکانیں بند پڑی ہیں،لوگوں کی ایک بڑی تعداد بازار میں داخل ہو کر آگے سے آگے بڑھتی چلی جاری ہے۔وہ مخصوص سے نعرے لگارہے ہیں،سب لوگ غصے سے بھرے ہوئے ہیں ،آگے والے لوگ زیادہ غصہ میں ہیں۔ہجوم میں سے چند نوجوان اپنے اپنے موبائل سے ویڈیوبنارہے ہیں،
معلوم نہیں اس ہجوم نے کہا ں جا کر دَم لیا ہوگا۔ یہ بھی ایک تنگ سی گلی ہے ،گلی کے اختتام پر شاید سکول کا گیٹ ہے۔گلی لوگوں سے بھری ہوئی ہے،یہ ہجوم دوحصوں میں تقسیم ہے۔ہر دوگروہ ایک دوسرے کو گالیاں دے رہا ہے ،ایک دوسرے کی سیاسی جماعت کے خلاف نعرے لگا رہا ہے، لیڈروں کو برا بھلا کہہ رہا ہے،یہ بپھرے ہوئے لوگ کسی بھی وقت باہم دست وگریبان ہوسکتے ہیں۔پوری گلی میں ایک شخص بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا ،جو ہجوم کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے اور معاملات کودرست کرنے کی کوئی تدبیر کررہا ہو۔ یہ ایک بہت ہی دِل دہلادینے والا منظر ہے۔
دو زخمی شخص زمین پر پڑے ہیں ،ایک نیم بے ہوش ہے ،دونوں کی چھوٹی چھوٹی داڑھیاں ہیں،ایک نے چترالی ٹوپی پہن رکھی ہے اور گرم چادر اُوڑھ رکھی ہے ،یہ زخمی اپنے اوپر جھکے ہجوم کو بے بسی سے دیکھ رہا ہے۔اس کے سفید کپڑے سرخ پڑچکے ہیں۔اس کو گولیاں لگی ہیں ،معلوم نہیں کتنی،دوسرا زخمی جو بے ہوش پڑا ہے ،اُس کا خون زمین میں جذب ہورہا ہے۔ہجوم میں سے کسی کی آواز آتی ہے کہ کوئی ون فائیو کو فون کرے۔ یہ ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے چند مناظر ہیں۔یہ الیکشن متنازعہ ہو چکا ہے،
کئی سوالات اس پر اُٹھ چکے ہیں۔الیکشن کمیشن اور انتظامی اداروں کی نااہلی سامنے آچکی ہے،ان سے ایک حلقے کا الیکشن احسن طریقے سے نہ ہوسکا ۔لیکن ہمارے پیشِ نظر اس ضمنی الیکشن کے متنازعہ ٹھہرنے کا معاملہ نہیں،بلکہ اُوپر درج کیے گئے چند واقعات کی روشنی میں یہ جاننے کی مساعی ہے کہ ووٹرز کے اندر اتنا غصہ کیو ں بھرا ہواتھا ،کہ وہ ایک دوسرے کو مارنے پر تُل گئے۔یہ سب لوگ ایک دوسرے سے کس چیز کا بدلہ لیتے پائے گئے؟
حالانکہ اِن کی باہمی دُشمنیاں بھی شاید نہیں تھیں،نہ ہی کاروباری مفادات کا بہ ظاہر کوئی معاملہ تھا۔پھر ایسا کیوں ہوا؟سیاست کی وابستگی نے یہ سب کروایا؟یہ کیسی وابستگی ہے کہ جس نے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ڈالا۔اس قدر اندھی اور ظالم وابستگی کیونکر قائم ہوئی ،کس نے کروائی؟معاملہ بہت ہی صاف اور واضح ہے۔عام لوگ ،سیاست دانوں کی ’’پراکسی‘‘بن چکے ہیں۔
سیاسی رُتبے اور طاقت کا حصول اس قدر ضروری ٹھہر چکا ہے کہ ووٹرز کی زندگی اور اُس کی عزت بے معنی ٹھہرچکی ہے۔جس سیاسی جماعت کے ورکرز اور ووٹرز جس قدر جذباتی ہوں گے ،وہ سیاسی جماعت زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گی۔ ایک عام مزدور کو اپنے مسائل سے زیادہ سیاسی اشرافیہ کی کھوئی طاقت کو بحال کرنے کا غم ستاتا ہے ،وہ گرمیوں کی دوپہروں اور سردیوں کی دُھند زَدہ ٹھنڈی شاموں میں گھروں سے نکلتا ہے ،
گلا پھاڑ پھاڑ نعرے لگاتا ہے ،اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ گتھم گتھا ہوتا ہے، زخمی ہوتا ہے اور زخمی کرتا ہے ،پھر خون میں لت پٹ سڑک کے بیچوں بیچ پڑا ہوتا ہے ،اپنے جیسے لوگوں کا ہجوم اُوپر جھکا ہوتا ہے ،پھر ہجوم میں سے کوئی ایمبولینس منگوا کر ہسپتال لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ سیاسی ورکرجن کی خاطر یہ سب کچھ کررہا ہوتا ہے ،
وہ ٹی وی سکرینوں پر الیکشن کو دھاندلی زَدہ قرار دے کر اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔اپنے اقتدارکے نشے میں ڈوبے ہوئے کیا جانیں کہ گریبان کس کا پھٹا،دستارکس کی گری ،گولی کس نے چلائی ،سینہ کس کا چھلنی ہوا،ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پہ بے یارومددگار کون پڑا تھا؟
۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر