دانیال حسین گھلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سوچئیے کہ ایک دشمن جو آپکے سامنے کھڑا ہے, ڈنکے کی چوٹ پر آپ پر سب و شتم کر رہا ہے, کُھل کر آپ پر حملے کر رہا ہے وہ زیادہ خطرناک ہے بہ نسبت ایک ایسے دشمن کے جو بظاہر آپکا دوست ہے, آپکی صفوں میں ہے.. اور آپکو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے..؟
ظاہر ہے سامنے نظر آنے والا دشمن کم موذی ہے کیوں کہ اُسکے حملوں کا تدارک آپ کر سکتے ہیں, اسکے برعکس دوسری قسم کے دشمن کے متعلق آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب اور کس وقت آپکی پیٹھ میں چھُرا گھونپ دے!
پیپلز پارٹی کی بدقسمتی رہی ہے کہہ اِسے دونوں قسم کے دشمنوں کا سامنا رہا ہے.. سامنے دِکھائی دینے والے دشمنوں سے تو پیپلز پارٹی بہرطور آگاہ رہی ہے اور ہمیشہ لڑتی آئی ہے مگر اپنی صفوں میں موجود دشمنوں کو نظرانداز کرتی آئی ہے. جس کا خمیازہ آج تک بُھگت رہی ہے. اب وقت آ گیا ہے کہ اِن اندر کی دشمنوں سے نپٹا جائے اور اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جائے.
ویسے تو یہ پوشیدہ دشمن کئی اقسام کے ہیں جیسے خادم رضوی والے, ضیاء الحق والے وغیرہ مگر اِن میں سب سے زیادہ خطرناک خود کو سوشلزم کے متوالے کہنے والے وہ افراد ہیں جن کے ہیرو دیگر جماعتوں سے ایمپورٹ شُدہ افراد ہیں. یہ وہ لوگ ہیں کہ جو بظاہر خود کو پیپلز پارٹی کا نظریاتی ورکر کہتے ہیں مگر اندر ہی اندر پیپلز پارٹی کو نظریاتی طور پر کمزور کرنے میں انکا بڑا کردار رہا ہے.
انکا طریقہِ واردات کیا ہے؟
اِن افراد کا پسندیدہ شکار نئے آنے والے, محدود مطالعہ کے حامل کم فہم اور بھولے بھالے نوجوان ہوتے ہیں. یہ لوگ اِن نوجوانوں کے آگے سوشلزم کے گیت گاتے ہیں.. اُنہیں اِس بات کا یقین دِلاتے ہیں کہ دُنیا کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف سوشلزم میں مضمر ہے. پھر اِن معصوموں کی پیٹھ تھپک کر اِنہیں باور کروایا جاتا ہے کہ بیٹا تُم عن اُسی پارٹی کا حصہ ہو کہ جسکی بُنیاد سوشلزم پر رکھی گئی ہے..آہستہ آہستہ پھر یہ لوگ اِن نوجوانوں کو خونی انقلاب کی اہمیت پر سیر حاصل لیکچر دیتے ہیں.. انکے دماغوں میں جان بوجھ کر یہ خلل پیدا کیا جاتا ہے یہ سیاسی لوگ جو سیاست کر رہے ہیں اِسکی کوئی حقیقت نہیں بلکہ اصل تبدیلی تو خونی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے.. اِس مقام تک آ کر لوہا مکمل طور پر گرم ہو چُکا ہوتا ہے.. نئے نئے انقلابی نوجوانوں میں خون کے بجائے انقلاب بہہ رہا ہوتا ہے اور سوشلزم اُمڈ اُمڈ کر باہر آ رہی ہوتی .. ایسے میں یہ افراد اپنے اصل مقصد کی جانب آتے ہیں. یہاں سے اِن نوجوانوں کے اذہان کو پیپلز پارٹی سے متعلق زہر آلود کرنے کی ابتداء کی جاتی ہے.
پہلے مرحلے میں نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ کیسے بُھٹو صاحب نے سوشلزم کو اوڑھنا بچھونا بنا کر پیپلز پارٹی کی بُنیاد رکھی.. یہاں یہ بُھٹو کے مذہبی ریفارمز کی تشریح کرنا ہرگز نہیں بھولتے, بلکہ کفِ افسوس ملتے ہوئے نوجوانوں کو بُھٹو کی اِس سنگین غلطی کے نتائج بتاتے ہیں. پھر بُھٹو کی سوشلزم سے غداری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کیسے بُھٹو نے اپنے سوشلسٹ یاروں سے غداری کی.. جس کا انجام بُھٹو کی پھانسی نِکلا.. یہاں پر اِن نوجوانوں کے ذہنوں میں پیپلز پارٹی اور بُھٹو سے متعلق اچھے خاصے شکوک و شبہات پیدا ہو چُکے ہوتے ہیں…
اگلے مرحلے میں بینظیر بُھٹو کے دورِ حکومت کو رگیدا جاتا ہے.. پہلے مرتضیٰ بُھٹو کو شہید بُھٹو کا حقیقی وارث اور سوشلزم کا اصل متوالہ کہہ کر بینظیر بُھٹو کی پیپلز پارٹی چلانے کی اہلیت پر ہی سوال اُٹھا دیا جاتا ہے.. نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ بینظیر بُھٹو کیسے اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کر کے برسرِ اقتدار آئی.. اور اقتدار میں آنے کے بعد اپنے شوہر آصف زرداری کے ساتھ مِل کر اِن بیچارے معصوم سوشلسٹوں پر کیسے کیسے مظالم ڈھاتی رہی.. بینظیر نے کیسے سوشلزم کے نظریے کو چھوڑ کر بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے گرد جمع کر لئے.. یہاں تک کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مِل کر اپنے بھائی تک کو قتل کروا ڈالا.. یہاں جب یہ بھولے بھالے نوجوان شہید بُھٹو اور بینظیر بُھٹو سے پوری طرح بد دل ہو جاتے ہیں اور کسی قابلِ اتباع شخصیت کے لئے دائیں بائیں دیکھ رہے ہوتے ہیں تو پھر انہیں اسٹبلشمنٹ کی نرسریوں میں پلے بڑھے کسی لال خان اور جبران ناصر قسم کے فینسی سوشلسٹ کے گیت گا گا کر سُنائے جاتے ہیں …
یہاں اگر کوئی تھوڑی بہت عقل و بصیرت رکھنے والا نوجوان اِنکے مقاصد کو بھانپ لے اور اِدھر اُدھر ہونے لگے تو پھر یہ ایک دم سے زرداری کو پکڑ لیتے ہیں. پھر ایک دم سے شہید بُھٹو اور بینظیر انکے لئے پاک و پاکیزہ ہو جاتے ہیں جبکہ زرداری تمام برائیوں کا منبع و مرکز قرار پاتا ہے.. یہاں یہ لوگ زرداری کی جانب سے کی گئی کرپشن کا رونا روتے نہیں تھکتے اور پیپلز پارٹی حکومت کو سندھ کی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں. اِنکے نزدیک زرداری نے پیپلز پارٹی تباہ کر دی ہے اور پیپلز پارٹی کے حقیقی منشور یعنی سوشلزم کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے.. یہ زرداری کو ننگی ننگی گالیاں دیتے ہیں اور رو رو کر نوجوانوں کو باور کرواتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے اصل نظریاتی خیر خواہ ہیں ہی یہی لوگ.. اور باقی سب جو زرداری کے حمایتی ہیں وہ ریاست کی جانب سے تنخواہ دار ہیں جو پیپلز پارٹی کو اُسکی اصل سے ہٹانے پر معمور ہیں.
بس اِن مختلف مراحل سے گزر کر سُرخا فیکٹری سے نکلا ہوا یہ تازہ تازہ انقلابی تیار ہو جاتا ہے. جن میں سے کچھ کی زندگی کا مقصد کسی کہیں کسی گُم نام دفتر کے اندھیرے کونے میں بیٹھ کر نشے میں دھت ہو کر خونی انقلاب کے خواب دیکھنا اور پیپلز پارٹی کے سُنہرے ماضی کو یاد کر کے آٹھ آٹھ آنسو رونا ہوتا ہے.. جبکہ دیگر پیپلز پارٹی چھوڑ جاتے کر کسی رکشہ پارٹی کا حصہ بن کر پیپلز پارٹی کے خلاف ہی نعرے لگاتے دِکھائی دیتے ہیں!
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی