مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"میݙے مال دی پارت ہیوے”||محمد اعجاز الرحمٰن

آجکل اخبارات میں ان شہ خرچیوں کا خوب چرچا لگا ہوا ہے جسکا ثبوت راقم کے کچھ ذاتی جاننے والے سرکاری ملازم عجیب و غریب کہانیاں سنا کر دیتے ہیں

محمد اعجاز الرحمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

چولستان جیپ ریلی

"میݙے مال دی پارت ہیوے”

جیسے ہی چولستان میں جیپ ریلی شروع ہوتی ہے تو چولستان جانے کیلئے راستے میں پڑنے والوں چھوٹے موٹے شہروں، بس اسٹاپ اور روڈز کی تقدیریں وقتی طور پر ہی سہی بہرحال بدل ضرور جاتی ہیں
اگر آپ ان دنوں بہاولپور، چوک عباسیہ، احمد پور شرقیہ، ڈیرہ نوابصاحب یا چولستان بشمول ڈیراور تک سے وزٹ کریں تو آپ کو مہنگی ترین گاڑیاں، نئے نئے چہرے، امیرانہ روش، شاہانہ لائف سٹائل کی حقیقی جھلک اور کسی حد تک کالا دھن آپ کو نہ صرف منہ چڑاتا نظر آئیگا بلکہ عریاں ڈانس بھی کرتا نظر آئیگا اور یقیناً محنت میں عظمت والی ضرب المثل پر کچھ نہ کچھ شاکی ضرور ہونگے
بات یہاں تک نہیں رکتی جب آپ روہی میں رونق مطلب جنگل میں منگل کا سماں دیکھتے ہیں تو میرے جیسا کم علم و کم مطالعہ بندہ تو اس گستاخی پر بھی اتر آتا ہے کہ شاید روہی چولستان کی مظلومیت پر پچھلے کم وبیش چار عشروں سے یہاں کا شاعر اور قوم پرست جو چیخ و پکار کر رہا ہے وہ محض خام خیالی اور ہوائی باتیں ہیں مگر حقیقت کا کا تو پتہ تب چلتا ہے جب ریلی گزرنے کے بعد مقامی آبادی کو سمجھ نہیں آتی کہ”ویسٹیج” کا کیا کریں
پوری دنیا کا سوشل اصول ہے کہ جہاں سے کمایا جائے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ وہاں پر لگایا جائے مگر یہاں معاملہ اُلٹ ہے یہاں سے صرف کمایا جاتا ہے اور لگایا کہیں اور جاتا ہے کیونکہ غلاموں کے صرف وسائل پسندیدہ ہوتے ہیں باقی معاملات سے کیا غرض؟؟؟
ڈیراور، ڈیراور سے متعلقہ ایریاز اور ڈیراور جانیوالی اہم اور اکلوتی روڈ کی تنگی کی حالت یہ ہے کہ ریلی کے ایام میں اگر مقامی لوگوں میں کوئی ایمرجنسی کی حالت ہوجائے تو وہ کسی بھی صورت میں خطرے سے خالی نہیں ہوتے۔۔۔
تین چار دن یا کم و بیش ایک ہفتہ تک روہی چولستان کو اپنی ذہنی تفریح کیلئے استعمال کرنیوالی شخصیات میں کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے ایک آرڈر سے سالوں میں نہیں مہینوں میں اس یتیم دھرتی کی حالت زار بدل سکتی ہے مگر ان شخصیات کے ضمیر سوئے نہیں بلکل مرچکے ہیں اسلئے ارداس کاہے کی؟؟ پھر وہی بات کہ غلاموں کی کیا اوقات ہوتی ہے؟؟
ہم کسی بھی ترقی یا جدیدیت کے مخالف نہیں ہیں مگر اس ترقی کے سب سے پہلے مخالف ہم ہیں جس میں مقامیت کی ڈیموگرافی کو تبدیل کردیا جائے یا کرنیکی کوشش کی جائے؟؟
جیپ ریلی سے موصول ہونیوالے ریونیو کا ریکارڈ کیا ہے؟؟ آج تک جو رقم وصول ہوئی ہے کیا وہ چولستان میں بطور پراجیکٹ کھپائی گئی ہے؟؟ یا صرف یہ جیپ ریلی مقامی دھرتی زاد روہیلوں کے جانوروں کے کچلنے یا زخمی کرنیکے سوا کسی کام کی نہیں؟؟
کئی بار سننے میں آیا ہے کہ دوران ریلی اکثر جانور تیز رفتار گاڑیوں کی زد میں آکر ہلاک ہوجاتے ہیں مقامی لوگوں کے ذرائع آمدن تو بس یہی جانور ہیں مگر ان کی نہ تو کوئی سنتا ہے اور نہ کہیں یک کالمی کوئی خبر لگاتا ہے
دنیا میں کہیں بھی کوئی فیسٹول ہو تو یہ لوگوں کیلئے خوشی اور تفریح کا باعث ہوتا ہے مگر یہاں یہ بھی الٹ ہے جونہی ریلی کی تاریخ اناؤنس ہوتی ہے تو یہاں کی مقامی انتظامیہ کو لاہور اور اسلام آباد کے بڑے افسروں کی”خدمات” کا ٹاسک مل جاتا ہے یہ خرچ اخراجات لاکھوں میں تو ہوتے ہی ہیں اور بعض اوقات کروڑوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں
آجکل اخبارات میں ان شہ خرچیوں کا خوب چرچا لگا ہوا ہے جسکا ثبوت راقم کے کچھ ذاتی جاننے والے سرکاری ملازم عجیب و غریب کہانیاں سنا کر دیتے ہیں
ریلی میں محکمہ مال اور محکمہ پولیس کے مقامی چھوٹے بڑے آفیسران کیلئے ایسے ہوتا ہے جیسے میدان جنگ میں فوجی ڈیوٹی۔۔۔
ایک پٹواری نے ضلعی اور صوبائی لیول تک کے ریونیو آفیسران اور انکی فیملیز کی تمام تر ترجیحات کی پاسداری کرنا ہوتی ہے ایک وقت میں لاکھوں روپے ہر صورت خرچ کرنا ایک خوشامد دوسرا ڈر،مگر یہ خوشامد اور خرچہ سارا سال کام آتا ہے
چاہے آپ دس بار وزیراعظم صاحب کے سٹیزن پورٹل میں شکایت درج کروائیں آپ پٹواری تو کیا پٹواری صاحب کے منشی کا بھی کچھ نہیں اکھاڑ سکتے کیونکہ جنہوں نے پٹواری صاحب کے خلاف ایکشن لینا ہے وہ ایک ہفتہ اپنی” بیگمات” سمیت پٹواری صاحب کی مہنگی ترین دعوتیں کھا کر گئے ہوئے ہیں لہذا وقت ضائع نہ کریں۔۔۔
یہ صرف پٹواری صاحب کی بات نہیں تمام محکموں کی ہسٹری ہے
اس سیزن میں سب سے زیادہ پریشان مقامی کسان و زمیندار ہوتا ہے کیونکہ سب کی تان اسی غریب طبقے پر ٹوٹتی ہے
میں ذاتی طور پر ایسے زمینداروں یا کسانوں کو جانتا ہوں جو اس ریلی کے سیزن میں یا تو شہر چھوڑ جاتے ہیں یا پھر پٹواری، گرداور، تحصیلدار اور پولیس کی فرمائشیں پوری کرنے کیلئے کئی بڑے معاشی نقصان کرتے ہیں
کتنے دکھ اور حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی ریلی سے مقامی آبادی مطمئن نہیں اور نہ ہی کوئی ثمرات ان تک پہنچے ہیں
آپ میرے گھر میں مستقل تو روشنی نہ دیں لیکن چند منٹ کیلئے میرے صحن میں رنگین روشنیاں سجا کر چلے جائیں میرے کس کام کیں؟؟
بطور دھرتی زاد ہمارا مطالبہ ہے کہ جیپ ریلی سے موصول ہونیوالا ریونیو یہاں پر ہی لگایا جائے چولستان وادی ہاکڑہ کی ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے یہاں کے قلعہ جات کی مرمت اور بطور سیاحت کیلئے غیر ملکی سیاحوں کو مکمل چولستان میں سہولیات دی جائیں
چولستان میں موجود نوادرات و فوسل باقیات کی چھان بین کیلئے کیلئے ایک تحقیقاتی ادارہ قائم کیا جائے جو چولستان میں موجود تاریخی و قدیمی چیزوں کا نہ صرف تحفظ کرے بلکہ بذریعہ کاربن ٹیسٹ تاریخی نوادرات کی قدامت پر تفصیلی جانکاری دے
چولستان اور سرائیکی وسیب کو باقی ماندہ ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے خصوصی پیکجز دئیے جائیں
ڈیراور کو ضلع کا درجہ دیا جائے
چولستان کی زمینیں صرف مقامی چولستانیوں کو دی جائیں اور اب تک کی، کی جانیوالی ناجائز الاٹمنٹ کا وزیراعلیٰ صاحب ازخود نوٹس لیکر ایک کمیٹی بنائیں اور بتایا جائے کہ کتنے ہزار یا لاکھ ایکڑ رقبہ ناجائز الاٹ ہوچکا ہے اور اس ناجائز الاٹ منٹ کو فوری منسوخ کیا جائے
چولستان کے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کو خاطر خواہ مراعات بشمول وظائف دئیے جائیں

نہیں تو پھر ٹوبھا پھیسڑ کے بزرگ ݙاݙا بچو مہر کے وہ جملے آپ کو قبر تک سکون نہیں کرنے دینگے جب پچھلے سال ریلی شروع ہونے سے پہلے ریلی کی جگہ پر تحصیل و ضلعی آفیسران جائزہ لینے آئے تو وہ ایک ایک افسر کی منت کرکے کہ رہا تھا کہ
” میݙے مال دی پارت ہیوے”
"میݙے مال دی پارت ہیوے”

یہ بھی پڑھیئے:

%d bloggers like this: