اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیپلز پارٹی اور لال خان||دانیال حسین گھلو

مُسلمانوں کی فرقوں میں اصل فساد کی جڑ گوروں کا دیا یہی کسی کی دل آزاری نہ کرنے والا نظریہ ہے. اِس نظریے نے مکالمے کی روایت کا قتلِ عام کیا ہے

دانیال حسین گھلو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھیں جی ہمارا اختلاف لال خان کی برسی منائے جانے سے نہیں ہے, ہمارے لئے ضرور منائیے, شوق سے منائیے.. گرج برس کے منائیے.. کسی بھی دوسرے نامور آدمی کی طرح موصوف بھی یہ حق محفوظ رکھتے ہیں.. بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ہم بھی آپکے ساتھ شریک ہوویں گے اور مرحوم کو آپکے ساتھ مِل کر یاد کریں گے.. مگر اگر یہ برسی کسی ایسی جگہ پر منائی جائے گی کہ جہاں پیپلز پارٹی کا ترنگا ہو گا, ایسی جگہ جو پیپلز پارٹی کے نام سے منسوب ہو گی اور پھر پروگرام کی تشہیر بھی جیالے اِس تاثر کے ساتھ کریں گے کہ جیسے موصوف پیپلز پارٹی کے جیالے ہوں.. تو ایسے میں پھر ہمیں تکلیف ضرور ہو گی.. ہم یہ باور کروا دیں کہ ہم جیالے معاف ضرور کر سکتے ہیں مگر کچھ بھی بھول نہیں سکتے.. اور یقین جانئیے ہم کچھ بھی نہیں بھولے!
ہمارا پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ جب لال خان صاحب نے خود اپنے آپ کو کبھی پیپلز پارٹی سے نتھی نہیں کیا تو آج اُنکے دُنیا سے چلے جانے کے بعد کسی کو بھلا کیا حق حاصل ہے کہ وہ موصوف کو پیپلز پارٹی سے مربوط کرے ؟ لال خان کے جتنے بھی آرٹیکلز میری نظر سے گزرے ہیں سب ہی میں موصوف پیپلز پارٹی کے بدترین مخالف اور شدید ترین ناقد رہے ہیں.. موصوف اُن افراد میں سے تھے کہ جن کے نزدیک بُھٹو شہید کے بعد بینظیر شہید کے زیرِ قیادت پیپلز پارٹی اپنے تمام تر بُنیادی اصولوں سے منحرف ہو چُکی تھی اِس لئے اُن کی حمایت کی مستحق نہیں رہی.. اِس بابت اپنے ایک انگریزی آرٹیکل میں موصوف لکھتے ہیں:
"1986 میں بینظیر بُھٹو اِس ڈیل کے نتیجے میں اقتدار میں آئیں کہ وہ جنرل ضیاء کی جانب سے تشکیل دئیے گئے سامراجی نظام اور "اسٹیٹس کو” کو بحال رکھیں گی”
مزید لکھتے ہیں:
"بینظیر کے آنے سے پاکستان پیپلز پارٹی کا سامراج دُشمن نظریہ/رویہ بلکل ہی اُلٹ ہو گیا”
یعنی موصوف اِس بات پر کامل ایمان رکھتے تھے کہ بینظیر کے آنے کے بعد پیپلز پارٹی ختم ہو گئی تھی اور اِس نئے نظام یعنی بینظیر کے حکومت کے لانے میں رزاق جھرنا اور دیگر تاریک راہوں میں مارے جانے والے ہزاروں کارکنان کی جدوجہد دراصل ایک سامراج دوست حکومت کو لانے کے لئے تھی.
اِسکے علاوہ موصوف اسٹبلشمنٹ کی جانب سے میر مرتضیٰ بُھٹو اور بی بی شہید کے مابین تنازعے سے متعلق ریاستی بیانیے کے بھی دل و جان سے قائل تھے اور میر مرتضیٰ بُھٹو کو شہید بُھٹو کا حقیقی اور نظریاتی وارث گردانتے تھے جبکہ اِسکے برعکس بی بی شہید موصوف کے نزدیک برائیوں کا منبع تھیں. صرف اِسی پر اکتفاء نہیں ہے بلکہ جناب کے بیشمار آرٹیکلز میں بی بی شہید کا اپنے سگے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا مبہم اور سرسری ذکر بھی جا بہ جا مِلتا ہے.
کل ہم نے جب اِس ضمن میں کچھ باتیں تحریر کیں تو کچھ نادان دوست لٹھ لے کر چڑھ دوڑے. اُنکے بقول ہمیں پیپلز پارٹی تو قبول ہے مگر جن نظریات کے تحت پارٹی وجود میں آئی وہ قابلِ قبول نہیں ہیں. تو اُن نادان دوستوں کو پہلے تو پیپلز پارٹی کا بُنیادی نظریہ سمجھنے کی ضرورت ہے. پاکستان پیپلز پارٹی اپنے جنم سے لے کر آج تک کبھی بھی مار دو کاٹ دو کے نظریے کی قائل نہیں رہی. پیپلز پارٹی اِس بات کو بخوبی سمجھتی ہے کہ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے, اِس نیو لبرل دور میں انارکسٹ بننا ممکن نہیں ہے.. یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مفاہمت کی راہ اختیار کرتے ہوِئے جمہوری راستہ چُنا ہے. پیپلز پارٹی کا نظریہ کوئی خونی انقلاب نہیں ہے کہ جس کے لال خان اور اُن جیسے دوسرے رفقاء دلدادہ ہیں بلکہ پیپلز پارٹی جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے. یہی وجہ ہے کہ بُھٹو صاحب نے ایوب آمریت کے خلاف بندوق اُٹھانے کے بجائے سیاسی پارٹی بنائی اور جمہوری عمل میں شریک ہو کر اُسے شکستِ فاش دی. بُھٹو صاحب کے بعد بی بی شہید نے بھی اُنکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یہی جمہوری اور بہترین نظریہ و راستہ چُنا… اور یہی نظریہ ہی پیپلز پارٹی کی اساس ہے.. جس سے الحمداللہ پیپلز پارٹی کبھی منحرف نہیں ہوئی.. تو لال خان اور دیگر کے اِس متعلق تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں..
میں سمجھتا ہوں کہ میرے نادان دوست جو لال خان کی برسی اپنے سیکٹریٹ میں منانے کے لئے آپے سے باہر ہوئے جاتے ہیں اگر برسی پر "لال خان ہمارا ہے” کے نعرے لگانے سے قبل ایک مرتبہ لال خان سے پوچھ لیں کہ حضرت آپ تمام عمر کہاں کھڑے تھے ؟ تو لال خان یقیناً اپنے مضمون کے درجِ ذیل اقتباس پڑھ کر سُنا دیں گے
"1980 سے آج تک پاکستان پیپلز پارٹی کے ہر آنے والی حکومت پہلے سے زیادہ رجعت پسندانہ دائیں بازو کے نظریات کی حامل ہوتی رہی ہے. پیپلز پارٹی لیڈران کی یہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ‘اسٹیٹس کو’ کو برقرار رکھتے ہوئے ریاست اور سامراج کی خوشنودی حاصل کریں”
آخر میں میری اُن دوستوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ حضور برسی ضرور منائیے مگر یہ جان کر منائیے کہ سوشلزم کے نام پر بظاہر سامراج کے خلاف کام کرنے والے اِن ریاستی مزدوروں نے اپنے کھوکھلے نعروں سے سب سے زیادہ زِک آپکی اپنی پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی پہنچایا ہے.
(مضمون میں لکھی گئیں تمام تر باتیں لال خان کے آرٹیکلز سے ماخوذ ہیں جن کے لنک دئیے جا سکتے ہیں)
یہ بھی پڑھیئے:

%d bloggers like this: