نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نظام برائے فروخت||ملک عاصم ڈوگر

سینیٹر کی خریدوفروخت کی یہ ویڈیو بھلے منظرعام پر آچکی ہے لیکن اس نظام میں کبھی یہ ثابت نہیں ہو سکے گا ۔ حد یہ ہے کہ اس ویڈیو میں صاف نظر آنے والے نوٹوں کو کتابیں کہہ رہے ہیں۔ کچھ نے صاف انکار کرد یا ہے کہ وہ اس میں موجود ہی نہیں۔

ملک عاصم ڈوگر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عام طورپرسینیٹ انتخابات میں عوام کی دلچسپی کم ہی ہوتی ہےلیکن سینیٹ انتخابات کےلئے ووٹوں کی خریدوفروخت کی ویڈیو نے عام لوگوں کی دلچسپی بڑھا دی ہے۔ جو کہانیاںصرف سنائی جاتی تھیں اب دیکھنے کوبھی مل رہی ہیں۔ کس طرح اورکب کب عوامی مینڈیٹ کی توہین کی جاتی رہی ہے۔

اس ایک جھلک نےاس سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سارا کچاچٹھا کھول کررکھ دیا۔ 73برسوں میں کرپشن،بےضمیری اورخودغرضی کی نہ ختم ہونےوالی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔عوام کوسنہرےخواب دکھا کرمختلف ناموں سے نظام چلانےوالی طاقتوں کاواحدمطمع نظرطاقت،سرمایہ اوراقتدارکاحصول رہاہے۔ خریدوفروخت کی پہلی سیڑھی پرمٹ سیاست کا آغاز تو پاکستان بنتے ہی ہوگیا تھا۔عوام کو جمہوریت اورآمریت کےکھیل میں الجھا کراصل نظام سےتوجہ ہٹا دی گئی۔پاکستانی قوم نظریا تی اعتبارسے چوں چوں کامربہ بن چکی ہے۔

یہاں آپ کو کئی طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ پاکستان بنانےوالی نسل کے چند افراد جوابھی بقید حیات ہیں یا ان کی قریب ترین نسل ابھی بھی انگریز کے گن گاتی نظر آتی ہے۔خاص طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انگریز کا دوربڑا ترقی یافتہ تھا۔ ریلوے اور نہری نظام کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ سماجی اور نظام کے شعور سےعاری یہ گفتگو ان عوامل پرغور نہیں کرتی کہ یہ چند ترقی کن اقدامات ہندوستان کی دولت کولوٹ کربرطانیہ منتقل کرنےکےکاذریعہ تھے۔ نہ یہ ذکرہوتاہے کہ انگریزجاتےجاتے اپنا استبدادی کالا قانون اورجمہوریت کے نام پر جاگیرداروں کے ہاتھوں گروی نظام اس خطے میں چھوڑ گیا۔

انھی جاگیرداروں کی ریشہ دوانیوں اور جمہوریت کی آڑ میں نومولود ریاست کے وسائل پر مزید قبضے کی خواہش نے آمریت کو جنم دیا تو ایک نسل اس کی بھی مداح ہو گئی۔ایوب خان کے دورمیں جزوی خوشحالی کے پس منظرمیں امریکہ اور یورپ کے نظاموں کی محتاج ریاست بننے اور روس کے خلاف لڑنے کے لئے آلہ کار بننے کا ذکرکم ہی ہوتا ہے۔ یوں اب ایک نسل آمریت کے حق میں دلائل دیتی نظر آتی ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی تھے جوروس کے کمیونسٹ انقلاب کےحامی تھے۔نظریاتی لیکن عملی طور پر پیدل۔زمینی حقائق سے نابلد یہ لوگ ملک میں ریاست سے مذہب کو نکال کرمادر پد آزاد نظام کے حامی ہیں۔ ان کو قابو میں لانے کے لئے ذوالفقاربھٹوایسے ذہین جاگیردارنے اسلامی سوشل ازم کا نعرہ لگا کر انھیں قائل کر لیا۔ نتیجہ پھر بھی صفر ، وہی پاور پالیٹکس کا غلبہ اور قبضہ۔

رہی سہی کسر ضیاء دورمیں پیدا ہونے والی پولیٹیکل کلاس نے پوری کردی۔ خالص سرمائے کے اشتراک سےوجود میں آنے والی اسمبلیاں بنائی گئیں۔جب بھی اسمبلیوں میں خریدوفروخت کی بات ہوتی ہے تو چھانگا مانگا اورمری کا ذکر بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ نواز شریف سےمقابلے کے لئے بے نظیر بھٹواوران کے شوہرآصف زردای کوبھی اسی راہ پر چلنا پڑا۔ اس خریدوفروخت کو باقاعدہ فن کی شکل دے دی گئی ہے ۔

بڑے جوڑ توڑ کرنے والے کو سب سے بڑا سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔عام عوام میں اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ زیرک چوہدری، مفاہمت زرداری، جوڑ توڑ شریف، ایماندار خان جیسی کہانیاں سنا کر عام لوگوں کومرعوب کرنے والے بھی اس برائے فروخت نظام کاحصہ ہیں۔ یہ کہانیاں سنانے والے دانشور، صحافی ، مولوی اور استاد بھی اس نظام کی خرابی کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ اس فرسودہ نظام کو چلانے والے۔

کھیت تو ہیں لیکن دہقان بھوکا ہے۔فیکٹریاں تو ہیں لیکن مزدور فاقہ کش ہے۔ علمی ادارے اور مدرسے تو ہیں لیکن شعور سےعاری۔ بازار تو ہیں لیکن ایمان سے خالی۔ پارلیمان تو ہے لیکن عوام کے درد سے محروم۔ پورا معاشرہ ہر دم کہیں نہ کہیں بکنے کو تیار۔ تو پھر ان بکاؤ نمائندوں کا کیا غم کرنا۔جو عوام کا مینڈیٹ بیچنے کو عارنہیں سمجھتے۔ ہرایک شخص کہیں نہ کہیں بک رہا ہے ۔

بالائی طبقات اپنی خواہشات کے ہاتھوں اورعوام اپنی مجبوریوں کے آگے۔ اصل جڑ یہ فرسودہ نظام ہے جو اس خریدوفروخت کے آگے بے بس ہے ۔ سینیٹر کی خریدوفروخت کی یہ ویڈیو بھلے منظرعام پر آچکی ہے لیکن اس نظام میں کبھی یہ ثابت نہیں ہو سکے گا ۔ حد یہ ہے کہ اس ویڈیو میں صاف نظر آنے والے نوٹوں کو کتابیں کہہ رہے ہیں۔ کچھ نے صاف انکار کرد یا ہے کہ وہ اس میں موجود ہی نہیں۔

اب کر لو جو کرنا ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ناکام ہو گئی۔ ان سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے ایسے اراکین کے خلاف کارروائی کریں گی جنہوں نے پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ دیالیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔اب بھی سینیٹرز کے لئے بولیاں لگ چکی ہیں۔50 سے 70 کروڑ فی سینیٹرکی آوازیں آرہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان شو آف ہینڈ کے ذریعے اس لوٹ سیل کو روکنا چاہتے ہیں۔ شفافیت سے زیادہ مقصد اپنے ایم پی ایز کو بکنے سے روکنا ہےلیکن نظام اس سارے عمل میں خاموش تماشائی ہے ۔ اس نظام کےپاس صرف برائےفروخت کی سہولت موجودہے۔

اگلامیدان پنجاب۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

’’بد زبانی‘‘ کا کلچر ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

بچوں کے وزیر اعظم ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

میڈیا اور وراثتی سیاست کا گلیمر۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

 

About The Author