نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شکایت بنتی نہیں!||رسول بخش رئیس

اب تک شخصیت پر جو اثرات کھیل کود، تعلیم اور کرکٹ گرائونڈ سے لیکر عوامی سیاست تک مرتب ہو چکے ہیں، ان کو نئے‘ کورے سفید کاغذ میں تبدیل کرنا ناممکن ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان بیان داغتے وقت کچھ سوچ بچار کر لیں، تو ہر روز پیدا ہونے والے کچھ تنازعات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ ایک تو ان کا فی البدیہہ فنِ تقریر ہے کہ بغیر تیاری، بغیر کچھ لکھے، جو دل میں بات ہے، منہ پر لے آتے ہیں۔ یہ معلمین اور مدرس تو کر سکتے ہیں، مگر سیاستدان، جبکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہوں، ایسا کریں، تو کہیں جذبات، کہیں حالات کا جبر ذہن پر حملہ آور ہو کر، بات کو کڑوا کر دیتا اور ادھورے سچ کا رنگ چڑھا دیتا ہے۔
اکثر ممالک میں دستور یہ ہے کہ صدر ہو یا وزیراعظم، تحریر سامنے رکھ کر عوام میں بات کرتے ہیں۔ ان کے پاس تقریر لکھنے کیلئے کئی معاونین ہوتے ہیں۔ وہ لکھی گئی تقریر کئی بار پڑھتے ہیں۔ ہر لفظ اور ہر فقرے کی پیغاماتی اہمیت اور سیاسی عواقب کا خیال رکھا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے عالمی رہنمائوں میں سے سابق امریکی صدر بارک اوباما، تقریر اور فصاحت میں کمال درجہ مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ تیاری اور توجہ کی مرکوزیت ہے۔ وہ لفظوں کا انتخاب موقع محل کے مطابق اور زیر بحث امور کے حوالے سے کرتے ہیں۔ تقاریر لکھوانے کی سہولت ہمارے رہنمائوں کے پاس بھی ہے۔
ان لوگوں کا انتخاب وہ خود کرتے ہیں، اور ہدایات بھی خود دیتے ہیں، مگر جو محنت اور توجہ درکار ہے، وہ مفقود ہیں۔ حکومتی کارندے ہوں یااپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے منہ زور مرد و خواتین، زیادہ تر سطحی‘ غیر معیاری اور بعض اوقات تہذیب کے دائروں کو پھلانگتی گفتگو کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے منصب کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ وہ بات کرتے وقت عامیانہ سطحوں سے اوپر رہیں۔ ان کو دشتِ سیاست میں پڑائو ڈالے ربع صدی ہونے کو ہے۔
اب تک شخصیت پر جو اثرات کھیل کود، تعلیم اور کرکٹ گرائونڈ سے لیکر عوامی سیاست تک مرتب ہو چکے ہیں، ان کو نئے‘ کورے سفید کاغذ میں تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ بات لکھ کر، اور گہری فکر کے بعد کریں تولہجے میں تلخی‘ اور بے بنیاد شکایات کے اعادے سے بچا جا سکتا ہے‘ مگر یہ بھی ہے کہ ہم کون ہیں، کسی کو نصیحت کرنے
والے۔
ہم واعظ تو کبھی نہیں رہے، نہ ہم گنہگار خود کو اس کے اہل خیال کرتے ہیں، مگر قلمکاری کے باوصف ذمہ داری ہے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ لکھیں اور بولیں۔ حالیہ دنوں میں کپتان کی دو باتوں نے بہت سے لوگوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ میں بھی جزبز ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
چین کی ترقی کی مثال بالکل دی جا سکتی ہے کہ دنیا مانتی ہے‘ صدیوں کا سفر چینی قیادت اور عوام نے دہائیوں میں کر ڈالا۔ خواب خرگوش میں سوئی، سامراجیت کی ماری اور جاپان کی جنگ سے زخم خوردہ قوم جاگ اٹھی۔ ایک راستے کا انتخاب کیا، اس پر چلی، لیکن سفر رک گیا، جمود کا شکار ہوئی؛ اگرچہ قیادت مائوزے تنگ کے ہاتھوں میں تھی۔ ان کے بعد راستہ پھر بدلا، نئے وژن میں نئی روح پھونکی گئی اور رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ جاپان کی معیشت، بلکہ تمام یورپی ممالک سمیت سب پیچھے رہ گئے۔ یہی رفتار رہی تو امریکی معیشت سے بھی آگے نکلنے کی گنجائش موجود ہے۔
اسی لیے تو نئی سرد جنگ اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی نہ صرف باتیں ہو رہی ہیں، بلکہ چہار ملکی اتحاد قائم ہو چکا اور تزویراتی معاہدے بھی طے پا چکے ہیں۔ یہاں تک تو بات درست ہے، مگر یہ کہنا کہ ہم چین کی تقلید کریں، یا ہم ایسا کر سکتے ہیں، مڈل سکول کے تقریری مقابلوں کا موضوع تو بن سکتا ہے، مگر پاکستان میں کوئی سنجیدہ دانشور یا سیاستدان بات کرے، تو عجیب محسوس ہوگا۔ ہر ملک کی تاریخ، اداروں کی ساخت، سماج کا نظام اور حکمران طبقات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہم جو بھی ہیں، اپنی تہذیب، تاریخ کے حوالوں کو نہ بھول سکتے ہیں، نہ ان سے روگردانی ممکن ہے۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ کپتان کا مقصد سب کچھ دفن کرکے چین کی آمریت کا راستہ اختیار کرنا تھا، مگر تاثر یہی ابھرتا ہے۔ ہم جمہوری ملک ہیں، اور ہمیں اس کمزور، لولی لنگڑی جمہوریت کو خود احتسابی کے ذریعے اور اداروں کو فعال کرکے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ جمہوریت بنیادی طور پر کئی کمزوریوں کا شکار ہے۔ اچھے رہنمائوں اور سیاستدانوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کیسے اسے عوامی مفاد اور ملک و ملت کی ترقی کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ خان صاحب خود بھی تو اسی جمہوریت کے فیض سے وزیراعظم پاکستان بنے ہیں۔ اگر صرف آمریت ہی ترقی کی ضمانت ہوتی، تو مشرق وسطیٰ میں شام اور مصر کی حالت یہ نہ ہوتی جو آج سامنے ہے۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ہے، وہاں منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے علاوہ احتساب کا کڑا عمل ہے جس کی بدولت آج چین عالمی طاقت ہے۔ ہم چین کی منصوبہ بندی، ریاستی صلاحیتوں میں اضافے اور پالیسیوں میں مثبت تبدیلی کے تجربے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ایسا
 کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ مغرب ہو یا مشرق، تجربات سے سبق حاصل کرنا دانشمندی  ہے۔
کپتان نے پانچ سالہ حکومتی دورانیے کو ترقی اور تبدیلی کے لیے ناکافی کہہ کر مخالفوں کے حملوں کیلئے ایک نیا محاذ قائم کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ یہ بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ بالکل درست ہے کہ جمہوری سیاست پر مغربی دنیا بھی انتخابی مصلحتوں کا شکار ہے۔ امریکی جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی اور اس کی روح مسلسل انتخابات کا عمل ہے۔ امریکی صدر چار سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، اور ریاستوں کے گورنر بھی‘ مگر ایوان نمائندگان ہر دو سال بعد اور سینیٹ کے ایک تہائی ارکان بھی ہر دو سال بعد؛ اگرچہ ان کا دورانیہ انفرادی طور پر چھ سال ہے۔
اسی طرح ریاستوں کی اسمبلیوں سے لے کر مقامی حکومتوں تک انتخابات وقفے وقفے سے ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو پانچ سال بعد صوبائی اور مرکزی حکومتیں بنانے کیلئے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات یہاں سیاسی مفاد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ حزب اختلاف میں ہوں تو خان صاحب سمیت سب کچھ اور باتیں کرتے ہیں،اقتدار میں ہوں تو مختلف دلائل۔ کون کہتا ہے کہ پانچ سال کے اندر کوئی ملک تبدیل ہو سکتا ہے۔ کہیں بھی ایسا نہ کبھی ہوا، اور نہ ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور خصوصاً خان صاحب پر تنقید عوام میں تبدیلی کے فلسفے اور عمل کو صحیح معنوں میں پیش نہ کرنے پر بنتی ہے۔
یہ تاریخی عمل ہے، کوئی واقعہ نہیں، اور اس کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ باتیں جو تحریک آج کر رہی ہے‘ بہت پہلے کرنے کی ضرورت تھی۔ انتخابات کی تیاری ہر جماعت اور قومی سیاسی افق پر ابھرنے والا ہر سیاستدان کرتا ہے‘ لیکن میں اس کو جمہوریت کے خلاف شکایت نہیں مانتا۔ نہ ہی یہ قابل جواز ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکے کہ ہمارے پاس فقط پانچ سال تھے۔
ہماری جمہوریت کی جو بھی پہچان اور تعریف آپ کے ذہن میں ہو، اس میں نئی قیادت، نئی سیاسی جماعتیں اور نئی تحریکیں اور توانائیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ سب سے بڑی توانائی تو خود تحریک انصاف اور خان صاحب کا ابھرنا ہے، کہ لوگوں نے ووٹ کے ذریعے موروثیوں کا خاتمہ پہلے خیبرپختونخوا میں کیا، اور پھر کراچی اور پنجاب کے عوام کو جگایا۔ اگلے انتخابات میں پہلے سے کہیں زیادہ عوام کارکردگی کو پرکھیں گے۔
طویل المیعاد منصوبہ بندی، جس کا ذکر خان صاحب نے کیا، ابھی تک کیوں وسعت اختیار نہیں کر سکی؟ میرے خیال میں ماحولیات اور احساس پروگرام کا سہرا تو تحریک کے سر ہے ہی، مگر معیشت کو دستاویزی شکل دینا، نوکر شاہی میں اصلاحات، عدل و انصاف کے نظام کی بے پناہ خرابیوں کی درستی ناگزیر ہے جبکہ ریاستی ملکیت میں چلتے اداروں کے کھربوں کے خسارے کے بارے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ کرپشن اور احتساب تو پھر نعرے ہی رہ جائیں گے۔ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے، کچھ کر کے ہی جائیے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author