نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنتے چلے آ رہے کہ پاکستان نازک دور سے گذر رہا ہے مگر آج واقعی لگ رہا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گذر رہا ہے ، ملک کو اس نہج پر پہنچانے والی وہ مخصوص سوچ ہے جس کو جمہوریت پسند نہیں ہے ،اس مخصوص سوچ کے حامل عناصر نے ملک کو تجزیہ گاہ بنادیا ہے ۔ ہم مڑ کر ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو انتہائی بھیانک منظر نظر آتا ہے مگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کا مضبوط نظریہ آمروں اور ان کی باقیات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے ۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے جن لوگوں نے جمہوریت کی جدوجہد میں پسینہ بھی نہیں بھایا وہ ہمیں جمہوریت کا بھاشن دے رہے ہیں حالانکہ ہم نے جمہوریت کے رومانس میں بار بار آگ اور خون کے دریا عبور کیئے ہیں خار دار تاروں پر بھی چلے ہیں اور بارود سے سلگائے ہوئے انگاروں پر بھی مگر جمہوریت سے رومانس اور وفا کو ننید میں بھی نہیں بھولے ۔ ہمیں نہ کسی سزا کی پرواہ ہے نہ فتووں کی کیوں کہ تاریخ نے ہمیشہ ہمارے ساتھ انصاف کیا ہے اور عوام نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ ہمارا یہ ہی تو اعزاز ہے کہ ہم سیاست میں رہنمائی گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں ابدی آرام کرنے والوں کے فلسفے سے لیتے ہیں جہاں سے ہی جمہوریت کا سورج سرخی لیکر طلوع ہوتا ہے ۔
جمہوریت سے نفرت کرنے والوں کی سوچ تھی کہ بھٹو کا خاتمہ پیپلز پارٹی ختم ہو جائے گی، 4 اپریل 1979 کو پیپلز پارٹی کے بانی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ایک خیالی اور منگھڑت مقدمے میں پھانسی دیکر بندوقوں کے سائے میں گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں دفن کیا گیا ، شہید ذوالفقارعلی بھٹو کی اہلیہ مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو آخری دیدار سے محروم کیا گیا ، شہید بھٹو سے عشق کرنے والوں کے جسموں پر کوڑے برسائے گئے ، تختہ دار پر لے جایا گیا مگر پھانسی کے پھندے پر جھولنے والے والا جیئے بھٹو کا نعرہ نہیں بھولا اور اپنے جسم پر کوڑے کھانے والے کی زبان جیئے بھٹو کا نعرہ لگانے سے لڑکھڑائی ۔
سلام عقیدت ہے عظیم خاتون مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کو جس نے اپنا سارا گلشن جمہوریت پر قربان کر دیا مگر کبھی شکوہ تک نہیں کیا ۔ انسانی دل رکھنے والا ہر انسان اس وقت حیران ہوا جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو سبق سکھانے کی بجائے جہموریت بہترین انتقام ہے کی بات کرکے غمزدہ اور ہر چیز جلا کر راکھ کرنے والوں صبر کرنے کی تلقین کی ورنہ تین دن سے ہر سمت آگ کے شعلوں نے ریاست کو ملیا میٹ کردیا تھا ۔
مجھے نہیں معلوم صدر آصف علی زرداری علی زرداری نے اپنے جبر کرے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، مگر جب انہوں نے 1973 کے آئین کو بحال کیا ، صوبوں کو بااختیار بنایا ، پارلیمنٹ کو با اختیار بنایا تو معلوم ہوا کہ کہ 27 دسمبر 2007 کو عوام کے درمیان قتل ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے جناب آصف علی زرداری کے کندھوں پر کتنی بڑی ذمہ داری ڈال دی تھی۔ سوات سے دہشت گردوں کا صفایا اور وہاں دوبارہ قومی پرچم سربلند کرنے کا اعزاز بھی صدر آصف علی زرداری زرداری کو حاصل ہے اور تو اور دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے قائم کرنے بھی صدر آصف علی زرداری کا اہم کردار ہے ، یہ اعزاز بھی پیپلزپارٹی کے جیالوں کو حاصل ہے کہ انہوں نےدہشتگردوں سے برسر پیکار زخمی ہونے والے افواج پاکستان کے جوانوں کو اپنے خون کا عطیہ دیکر انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہے ۔
اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو سی پیک کا کارنامہ بھی صدر آصف علی زرداری کا ہی ہے صدر آصف علی زرداری نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی بنیاد بھی رکھی تھی جو پاکستان کے بہترین مفاد میں تھی در اصل صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کا مفاد سب سے ذیادہ عزیز تھا اس لیئے ان کی توجہہ پاکستان کے دوست بنانے پر رہی ۔
دنیا بھر کی سیاسی قیادت اسلیئے بھی صدر آصف علی زرداری پر اعتماد کر رہی تھی کیونکہ وہ عظیم سیاسی قائد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے سیاسی جانشین تھے۔
صدر آصف علی زرداری کی قائدانہ صلاحیت کا اس بات سے بھی اندازہ کیا جائے کہ2011 کے متوقع خطرناک سیلاب کے پیش نظر وزارت خوراک کو گندم ،چاول ، چینی دالوں ، آلو ،پیاز وغیرہ ،وغیرہ کا بڑا ذخیرہ اسٹاک کرنے کی سختی سے ہدایت کی یہی وجہہ تھی کہ تباہ کن سیلاب کے باوجود نہ انسانی خوراک کا فقدان ہوا نہ ہی قیمتوں میں ایک پیسے کا اضافہ ہوا ، سیاسی شعور رکھنے والےحلقوں کا ماننا ہے پیپلز پارٹی کے راستے سے اس وقت رکاوٹیں ہٹائی جاتی ہیں جب ملک کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ، یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے گزشتہ عشرے کے آخری دو سال نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ جنوبی ایشیا کی سیاسی سمت کا فیصلہ پاگلوں کے ہاتھ لگ گیا امریکہ میں ٹرمپ بھارت میں مودی اور پاکستان میں عمران نیازی اقتدار میں آئے ، امریکہ اور بھارت میں نسلی امتیاز پروان چڑھا جبکہ پاکستان میں تبدیلی کے نام پر قوم کو ظالم سونامی کے سپرد کیا گیا ، امریکہ تو نازک دور میں داخل ہونے سے بچ گیا مگر جنوبی ایشیا نازک دور سے ضرور دوچار ہوا ہے ، بھارت میں جنونی وزیراعظم ہیں جبکہ پاکستان کی باگ ڈور نالائق، نا اہل اور بزدل شخص کے ہاتھ میں ہے۔
5 فروری کو کوٹلی میں سلیکٹڈ وزیراعظم کے خطاب سے پاکستان کی وزارت خارجہ چکرا کر رہ گئی ہے مجھے نہیں معلوم کہ وزارت دفاع کی کیفیت کیا ہوگی ؟ چلتے چلتے سپریم کورٹ کے دو محترمہ جج صاحبان کے ریمارکس کا ذکر انتہائی ضروری ہے جسٹس جناب فائز عیسی نے میڈیا کی آزادی پر ریمارکس دیئے اور جناب جسٹس باقر نے اٹارنی جنرل کے بیانیہ کہ ملک حالت جنگ میں ہے پر فرمایہ جنگ ہے مگر عوام سے ، مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کے اصول پر ثابت قدم رہنے پر بار بار سزا وار ہوتی ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر