اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کارِ سرکار (6) ۔۔۔ احمد علی کورار

وہ اردو ادب کے کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کو بھی پڑھتا رہتا عالمی ادب میں اس نے روس کے عظیم ناول نگار ایون ترگنیف کے ناولز کا سلسلہ شروع کیا ہے

فرض منصبی کے بعد حسن علی اپنی سرکاری رہائش گاہ پہنچا کالونی گنج آباد میں واقع بوسیدہ عمارت اور آس پاس کی تمام افسروں کی قیام گاہوں سے امتیازی عمارت.

طعامِ ظہر وہ آفس میں کر چکا تھا معمول کے مطابق اس نے تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ کیا.

آنکھ کھلتے ہی پھر اس بستے پہ نظر پڑی جس میں وہ مطالعے کی غرض سے کچھ کتا بیں لایا تھا اسے نو عمری سے مطالعے سے شغف تھا اور رفتہ رفتہ ادب سے اشتیاق بڑھتا گیا وہ اردو ادب میں انتظار حسین قرۃ العین حیدر مستنصر حسین تارڑ مشتاق احمد یوسفی علی اکبر ناطق شمس الرحمن فاروقی کی تصانیف کا بڑا دلدہ ہے

وہ اردو ادب کے کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کو بھی پڑھتا رہتا عالمی ادب میں اس نے روس کے عظیم ناول نگار ایون ترگنیف کے ناولز کا سلسلہ شروع کیا ہے

اب اسی ناول نگار کا ناول”فادر اینڈ سنز” تمام ہونے کو ہے۔ ناول میں نئے روس کے ابتدائی خدوخال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

ایک مرتے ہوئے دور کا کرب اور نئے طلوع ہوتے ہوئے دورکا اٖضطراب نمایاں ہے۔

اس کے علاوہ پائیلو کوئیلھو خالد حسینی کافکا دستوئیفسکی گابریئل گارشیا مارکیز کے ناولز بھی پڑھ رکھے ہیں.

اس نے ایون ترگنیف کا ناول ابھی پڑھنا شروع کیا تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی.

دروازہ کھولا تو خاوند بخش کھڑا تھا خاوند بخش نے اندر آنے کی اجازت چاہی حسن علی نے مسکراتے ہوئے کہا خاوند بخش بلا جھجھک آئیں

صاحب! میں اس لیے آیا کہ سوچا شاید! صاحب کو کسی چیز کی ضرورت پڑ جائے اور یہاں آنا میرا فرض بھی تو ہے خاوند بخش نے کہا.

دودھ کچن میں ہے زبردست چائے بنا کر لائیں حسن علی گویا ہوئے.

خاوند بخش چائے بنا نے لگا حسن علی پھر سے ایون ترگنیف کا ناول فادر اینڈ سننز پڑھنے لگا.

چائے کے بعد حسن علی خاوند بخش کے ساتھ محو گفتگو ہوا اور اس سے دریافت کرنے لگا کہ کارِ سرکار میں آپ نے جو اتنا عرصہ گزارا ہے کن حالات سے گزرنا پڑے

کیسے تجربات سے شناسائی ہوئی.

خاوند بخش نے اپنی کتھا اے ٹو زی سنائی.سرد آہ بھری اس تمام احوال میں جو بات سب سے زیادہ حیران و پریشان کن تھی جس نے حسن علی کو بھی محو حیرت کر دیا وہ یہ تھی کہ صاحب لوگوں کا رویہ بیشتر اوقات نازیبا ہوتا تھا وہ ہمیں خسیسہ سمجھتے تھے

شاذ ہی کوئی افسر ہوتا جو ہمیں مان دیتا خاوند بخش یہ تمام باتیں سنا کر ایک دم گم سم ہو گیا.

اگلی صبح حسن علی معمول کے مطابق اٹھا ناشتہ کیا اور آفس جانے کی تیاری کرنے لگا.آج اسے رکشا پکڑنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خاوند بخش گاڑی کو کسی اچھے میکنک سے ٹھیک کروا چکا تھا.

حسن علی جب تیار ہو چکا . اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور آفس کی راہ لی.کافی عرصہ بعد کوئی ڈی ای او سرکاری گاڑی میں سوار آفس پہنچا اس سے پہلے ڈی ای اوز تو اپنی شاہانہ گاڑیوں میں آتے تھے اس گاڑی کو چلانا تو ہتک آمیز سمجھتے تھے.

آج حسن علی کا آفس میں دوسرا دن تھا وہ اس سے بے خبر تھا کل کی نسبت آج کا دن کتنا مصروف گزرے گا.وہ گاڑی سے اترا .

خاوند بخش سکندر گلاب یہ سب اس آفس میں درجہ چہارم کے ملازم تھے جو اپنے اپنے کام میں مگن تھے گاڑی کو دیکھتے ہی اپنے کام کی رفتار بڑھا لی.

لیکن خاوند بخش دروازے پر الرٹ کھڑا رہا.حسن علی اس بار کہیں ادھر ادھر دیکھے بغیر سپاٹ آفس کی جانب چلا آفس کے ساتھ کھڑے خاوند بخش کو دھیمی آوز میں سلام کیا اور آفس میں داخل ہو گیا.

ادھر جمعہ خان سر پہ زرد رنگ کی ٹوپی موٹے شیشوں والی عینک لگائے فائلوں کو جانچ رہا تھا اس نے سب سے پہلے اس فا ئل کو نکالا جس میں اس آفس میں کام کرنے والے ملازم کا ڈیٹا تھا کل وہ صاحب کے فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اپ ڈیٹ بھی کر چکا تھا لیکن جو خلا باقی تھا وہ وسان دلبر اور سمندر کا تھا جو ہمیشہ کی طرح آج بھی موجود نہ تھے.

جمعہ خان اس کے متعلق چوہدری پیرل کو مطلع کر چکا تھا اب جمعہ خان نے اپنے حواس کو دو طرفہ کر لیا تھا اس نے نظر مین گیٹ پہ جب کہ کان آفس بیل کی طرف لگا رکھے تھے.

ایک گھنٹہ گزر چکا اچانک بیل بجتی ہے اور سامنے سے ایک جیپ بھی نمودار ہوتی ہے جیپ چوہدری پیرل کی تھی جو نئے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سے ملاقات کے سلسلے میں آئے تھے.

جمعہ خان نے فائل تھمایا اور دفتر داخل ہوا سلام کیا اور فائل سامنے رکھ کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا.

حسن علی جیسے ہی فائل کو دیکھنے لگا اچانک کڑک دار آواز میں کسی نے اسلام وعلیکم کہا جمعہ خان نے دیکھا کہ وہ چوہدری پیرل تھے جو بے دھڑک آفس چلے آئے تھے چوہدری پیرل نے بوسکی جوڑا اور کھسے پہنے ہوئے تھے اس نے اپنی مو نچھوں کو بھی تاؤ دیا ہوا تھا دو اور آدمی بھی اس کے ہمراہ تھے. حسن علی نے ان کے سلام کا جواب دیا اور ان سے ہاتھ ملا کر انھیں بیٹھنے کو کہا.

جمعہ خان جو کھڑا ہوا تھا اسے بھی ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا.چوہدری پیرل کی آمد یقیناً کارِ سرکار میں خلل تو ثابت ہوئی…

رسمی علیک سلیک کے بعد چوہدری پیرل نے رعب داب دکھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور ہاتھ کے اشارے سے کہا جمعہ خان تو ہمیں بہتر جانتے ہیں.آپ کی آمد کا ہمیں دو دن قبل معلوم ہوا تھا آج سوچا کہ صاحب سے ملاقات ہو جائے پھر مسکراتے ہوئے چوہدری پیرل نے جمعہ خان کی طرف دیکھا کہ ہم پرکھوں سے آفسروں کے خدمت گزار رہے ہیں.حسن علی خاموشی سے ان کی تمام باتیں سنتا رہا.جب چوہدری پیرل کی باتیں تمام ہوئیں تو حسن علی گویا ہوئے کہ آپ کی تشریف آوری کا شکریہ

پھر چوہدری پیرل نے کہا کہ ہمارے لیے کوئی کارِ خدمت ہو تو ہم حاضر ہیں. چوہدری پیرل کو خلاف توقع جواب سننا پڑا پیرل صاحب آپ اپنے علاقے کی تعلیمی صورت سے ہمیں اگر آگاہ کریں اور اس میں تعاون کریں تو آپ کی بڑی نوازش…

چوہدری کو حسن علی کی یہ بات تو ایک نہ بھائی پھر بھی ہونٹوں پہ پھیکی مسکراہٹ لاتے ہو ئے کہا جی ضرور..چوہدری پیرل حسن علی کے تیور دیکھ کر اپنی بات کو گوش گزار نہ کر سکا.

چوہدری پیرل تھوڑی دیر کے بعد اٹھا صاحب میں اب چلتا ہوں ملاقاتیں ہوتی رہیں گی اور جمعہ خان کی طرف دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے بات سمجھا دی…جمعہ خان چوہدری پیرل کی بات تو سمجھ گیا تھا لیکن وہ حسن صاحب کو اتنی آسانی سے قائل نہیں کر سکتا تھا جمعہ خان تو اضطرابی کیفیت میں پڑ گیا تھا چوہدری پیرل کے جانے کے بعد حسن علی فائل کو دیکھنے لگا درج تمام ناموں پہ نظر ڈالی اور جمعہ خان سے گویا ہوئے کہ یہ تمام کا تمام اسٹاف موجود ہے اس میں تین لوگ وسان اسٹنٹ سمندر جو نیئر کلرک اور سمندر کمپیوٹر آپریٹر نہیں آتے جمعہ خان نے لڑ کھڑاتی ہوئی آواز میں کہا.

کیا وجہ ہے؟ یہ نہیں آتے حسن علی نے دریافت کیا. سر پہ رکھی زرد ٹوپی کو ٹھیک کرتے ہوئے جمعہ خان نے کہا سر یہ چوہدری پیرل کے آدمی ہیں.

.جمعہ خان کا یہ جملہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف تھا.

(جاری)

یہ بھی پڑھیے:

کار سرکار(1) ۔۔۔ احمد علی کورار

کار سرکار(2) ۔۔۔ احمد علی کورار

گریڈز کی تعلیم ۔۔۔ احمد علی کورار

ماہ ِ اکتوبر اور آبِ گم ۔۔۔ احمد علی کورار

”سب رنگ کا دور واپس لوٹ آیا ہے“۔۔۔احمد علی کورار

مارٹن لوتھر کا ادھورا خواب اور آج کی تاریخ۔۔۔احمد علی کورار

%d bloggers like this: