حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیر راحموں پچھلی شب سے مُصر ہیں کہ ان سارے نومولود کامریڈوں، کمرشل لبڑلز اور عاشقانِ سول سپر میسی کے ساتھ سابق جہاد پروروں سے تعزیت کی جائے کہ ان کی دو خواہشیں پوری نہیں ہوئیں
اولاً یہ کہ پی ڈی ایم نے استعفے دینے کا اعلان نہیں کیا اور ثانیاً شاہد خاقان عباسی نے کان سے پکڑ کر پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم سے باہر نہیں پھینکا۔
ویسے آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ آصف علی زرداری کی جعلی اکاونٹس میں مستقل ضمانت اسی ’’اصول اور ڈیل‘‘ پر ہوئی ہے جس ’’اصول اور ڈیل‘‘ کے تحت میاں نوازشریف علاج کے لئے لندن تشریف لے گئے تھے
یہ ہمارے بستہ بردارانِ جاتی امرا بھی عجیب مخلوق ہیں پیپلزپارٹی سے نفرت ان کے خون میں شامل ہے۔
بھلے لوگو سیاسی جماعت ہے پیپلزپارٹی اس سے اختلاف کیجئے آپ کا حق ہے البتہ نفرتوں کا سودا فروخت کرنے کی خواہش ہے تو آپ بھی شیشے کے گھر میں بیٹھے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) مشرف دور میں جمہوری جدوجہد میں ناکام رہی بعدازاں کچھ لوگ کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ تشریف لے گئے اور کچھ زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹتے گھسیٹتے ہانپ گئے۔
پیپلزپارٹی کاالمیہ یہ ہے کہ اس کا میڈیا سیل ہمیشہ سے کمزور رہا۔
قسمت اس کی اتنی بری ہے اپنے دور اقتدار میں جن جماندروں تجزیہ نگاروں اور اہل صحافت پر مہربان بھی رہی وہ بعد کے ماہ و سال میں اس کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کیا گڑھی خدا بخش کے نمک میں جاتی امراء کے نمک جیسی تاثیر نہیں یاکوئی اور بات ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ نمک دونوں کاایک ہی تاثیر والا ہے بس صوبے کا فرق ہے۔
آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے صحافی مریدان کی اکثریت نون لیگ کی حامی ہے لیکن پیپلزپارٹی کے لئے ان کے پاس بغض و نفرت کے سوا کچھ نہیں۔
پرانے جہادیوں کی برفی کی حالت بہت خراب ہے۔ مٹھائی ہو کہ خورونوش کا دوسرا سامان، موسم کے مطابق نہ رکھا جائے تو خراب ہوجاتا ہے۔
خیر پچھلی شب سے کچھ جماندرو تجزیہ نگاروں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم نے ان کی خواہش بلکہ اس خواہش کے پیچھے موجود آقاوں کی دلجوئی کے لئے پی پی پی کو ’’ڈانگاں‘‘ مار کر کیوں نہیں نکالا پی ڈی ایم سے۔
کیا پوری کی پوری پی ڈی ایم نے زرداری کی لائن پکڑ کر ’’ڈیل‘‘ کرلی ہے؟
ایسا ہے تو پھر ہندوستانی فلم کا وہ مشہور ڈائیلاگ ’’اب تیرا کیا بنے گا کالیا؟‘‘
اسی لئے تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتا رہتا ہوں ہم اخبار نویسوں کو یہ حق تو ہے کہ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے پسند و ناپسند رکھیں لیکن اگر پسندوناپسند کی آڑ میں خاندانی، محکمہ جاتی اور دسترخوانی نفرتوں کا اظہار کریں گے تو اپنا مقام کھودیں گے۔
مثال کے طور پر مجھے اس امر کے اعتراف میں کوئی امر مانع نہیں کہ میں اے این پی اور پیپلزپارٹی سے محبت کرتا ہوں۔ دونوں جماعتوں پر تنقید کا حق بھی استعمال کرلیتا ہوں۔
نون لیگ اور جماعت اسلامی کا فکری طور پر ناقد ہوں لیکن یہ منافقت ہوگی کہ ان دونوں جماعتوں کی اچھی بات کی تحسین نہ کروں۔ نون لیگ اس وقت پنجاب کی سیاست میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ شناختی رکھتی ہے یہی درست ہے
لیکن ایک حقیقی سیاسی جماعت کی شناخت بنانے کے لئے اسے ابھی طویل اور پرعزم جدوجہد کرنی ہے۔
اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے ہی وہ اپنے ناقدین کے دل جیت سکتی ہے۔
افسوس کہ اتنی سی بات ہمارے بھاڑا گیروں کو سمجھ میں نہیں آتی اور پچھلے تین چار دنوں سے وہ پی ڈی ایم خصوصاً نون لیگ کو مشورے دے رہے تھے کہ پی پی پی کو پی ڈی ایم سے نکالیں ورنہ ہم یہ سمجھیں گے کہ اپوزیشن جعلی ہے۔
چلیں اب ہم کہیں کہ پی ڈی ایم والوں نے ان کا دانہ نہیں چگا شابش جلدی سے کہیں کہ پی ڈیایم جعلی اپوزیشن ہے۔
پی ڈی ایم نے جمعرات کو اپنے اجلاس میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینٹ کا متفقہ طور پر امیدوار نامزد کردیا یعنی پی ڈی ایم سینٹ الیکشن مل کر لڑرہی ہے۔
اس فیصلے کاایک پس منظر یہ ہے کہ پی پی پی کا دعویٰ ہے کہ عدم اعتماد کے لئے اس کے پاس ووٹ پورے ہیں بس پی ڈی ایم ساتھ دے۔
سید یوسف رضا گیلانی کا سینٹ الیکشن پیپلزپارٹی کے دعوے کی پرکھ ہے۔ مزید وضاحت سے اگر آپ معاملے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے ملتانی مخدوم شاہ محمود قریشی کی جمعرات کو قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر غور کرلیجئے۔
شاہ جی کا تڑپنا اور مچلنا دونوں بتاتے ہیں کہ ہونے کیا جارہا ہے۔
گیلانی کا سینیٹ الیکشن اتنی سادہ بات ہرگز نہیں شاہ محمود قریشی جانتے ہیں کہ کھیل کیا ہے اسی لئے تڑپ رہے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر گیلانی نہیں جیت پائے تو عدم اعتماد کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔
پھر وہی راستہ ہے جس کے لئے پی ڈی ایم اول روز سے کہہ رہی ہے لانگ مارچ اور دھرنا۔
لانگ مارچ کے لئے تو گزشتہ روز پی ڈی ایم نے 26مارچ کی تاریخ دے دی ہے اس تاریخ کی سب سے زیادہ ایک ڈنگر ڈاکٹر کو تکلیف ہے۔
اس تکلیف پر یہی عرض کیاجاسکتا ہے کہ غدار غدار کھیلنے سے اجتناب کیجئے دوسری طرف آنے والے دنوں میں کچھ مشیروں، وزیروں اور خود ڈاکٹر بارے کچھ ایسی معلومات میڈیا کو فراہم کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کے بعد غداری کاچورن فروخت کرنے والوں کو بھاگنے کاراستہ نہیں ملے گا۔
مکرر عرض ہے ہمارے جو کمرشل لبڑل دوست پیپلزپارٹی کے ’’جرائم‘‘ معاف کرنے پر تیار نہیں وہ کم از کم لوگوں کو یہ تو بتادیں کہ ایسا کون سا جرم کیا پی پی پی نے کہ ان کی نفرت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی۔
پاشا کی فراہم کردہ کہانیوں پر امریکی ایجنٹوں کو ویزے دینے کی کہانیوں کو ڈھولک کی تھاپ پر سنانے والوں نے پھر اپنے محبوب نوازشریف کے دور میں یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا؟
کڑوا سچ یہ ہے کہ ان کی تربیت ہی مالکوں سے وفاداری پر ہوئی ہے۔ پی پی پی میں سو خامیاں ہوں گی لیکن اس کے کارکنوں اور لیڈروں نے جتنی قربانیاں دی ہیں اس کی اور کوئی مثال ہے تو بتادیجئے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب اور بینظیر بھٹو کے قتل میں ریاست ملوث تھی اس کے باوجود پیپلزپارٹی نے نفرت کی سیاست نہیں کی اور اس وجہ سے نقصان کیا۔
رحم کیجئے! جماندرو تجزیہ نگاران و انجمن عاشقانِ جاتی امراء، اتحادوں کی سیاست میں تجاویز پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اتحاد فیصلہ کرتاہے کہ کیا کرنا ہے۔
ویسے اگر ہمارے ان دوستوں کو سیاست کی اتنی ہی شدھ بدھ ہے تو یہ سارے مل کر ایک سیاسی جماعت بنالیں دوچار دانے ہم بھی فراہم کردیں گے اور خود سیاست کریں گے تاکہ آٹے دال کا بھائو جان سکیں۔
کیا خیال ہے کیوں نہ ’’دفاع جمہوریت آبپارہ شریف‘‘ کے نام ایک سیاسی جماعت بناہی نہ لی جائے یہ روز روز کی کِل کِل بھی ختم ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر