نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رواں ہفتے کے پہلے دن یعنی پیر کے روز چھپے کالم میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ آئین نامی کتاب میں جو بھی لکھا ہو عمران خان صاحب بضد ہیں کہ مارچ 2021 میں سینٹ کی خالی ہوئی 48 نشستوں پر انتخاب خفیہ رائے شماری کے بجائے کھلے بندوں ہوں۔ ہم سب کو واضح طور پر نظر آئے کہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے کون سے رکن نے کس امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالا تھا۔
عمران صاحب کی ضد کا ذکر کرتے ہوئے یہ اعتراف کرنے کو بھی مجبور ہوا تھا کہ ہمارے پڑھے لکھے شہری متوسط طبقے کی مؤثر اکثریت بھی مذکورہ طریقہ کار کی حامی ہے۔ 1990 کی دہائی سے ہمارے ’’ذہن ساز‘‘ صحافیوں اور صاف ستھری سیاست کے پرچارک اینکر خواتین و حضرات نے انہیں قائل کردیا ہے کہ سیاست دان بنیادی طورپر ’’بے ایمان‘‘ ہوتے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے منتخب ایوانوں میں آتے ہیں۔ ہمارے عوام محض ’’قیمے والے نان‘‘ کھانے کے بعد ان کی حمایت میں ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ ’’خریدے‘‘ ووٹوں سے منتخب ہوئے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو جب کسی فرد کو سینیٹ کے لئے منتخب کرنا ہوتا ہے تو وہ بھی اپنے ووٹ کی قیمت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ سینیٹ کا انتخاب نہیں ہوتا۔’’ووٹوں کی منڈی‘‘ لگتی ہے۔ عمران خان صاحب اس روایت کا خاتمہ کرنا چاہ رہے ہیں۔
یہ بات درست کہ ہمارے تحریری آئین کی شق نمبر 226 خفیہ رائے شماری پر اصرار کرتی ہے۔ آئین کے تقاضے مگر ہمارے جیسے ملک میں ’’مقدس‘‘ شمار ہونے کی گنجائش نہیں۔ ہمارے ’’ذہن سازوں‘‘ نے بحیثیت مجموعی طے کر دیا ہے کہ ہم ایک بدعنوان معاشرہ ہیں۔ اسے سیدھی راہ پر چلانے کے لئے آئین سے بالاتر اقدام لینا ضروری ہے۔ اسی باعث قیامِ پاکستان کے چند ہی سال بعد تحریک کے دوران برطانوی سرکار کی فدویانہ نوکری کرنے والے ملک غلام محمد نے گورنر جنرل کی حیثیت میں دستور ساز اسمبلی کو معطل کردیا تھا۔ غلام محمد کے مذکورہ فیصلے کو ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج ۔جسٹس منیر۔ نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت بجانب قرار دیا۔ ’’نظریہ ضرورت‘‘ بعدازاں جنرل ایوب، یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کو بھی تسلسل سے ’’انقلابی‘‘ اقدام اٹھانے کے جواز فراہم کرتا رہا۔ معاملہ افتخار چودھری تک پہنچا تو ’’بھرپور عوامی حمایت‘‘ کی بدولت اپنے منصب پر بحال ہوئے افتخار چودھری نے ازخود نوٹسوں کی بھرمار سے ہماری سیاست کو صاف ستھرا بنانا شروع کردیا۔ ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ نے عدالتی رہ نمائی کے اصول کو مزید جاندار بنا دیا۔ آج کا سپریم کورٹ بھی اگر آئین کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھلے بندوں انتخاب کی اجازت مرحمت فرمادے تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔
بنیادی حقائق پر توجہ دینے کی مگر ہمیں عادت نہیں۔ اپوزیشن جماعتیں دہائی مچا رہی ہیں کہ عمران حکومت کو کامل یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس کی جانب سے سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر کھلے انتخاب کے لئے پیش کردہ فریاد کو مان لے گی۔ اسی امید کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کر دیا گیا ہے جو ’’کھلے‘‘ انتخاب کی راہ بناتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ مجھ جیسے قلم گھسیٹ اگرچہ طے کرچکے ہیں کہ ’’وہ کیا لکھیں گے جواب میں‘‘۔
بہرحال منگل کے دن ہماری آزاد اور بے باک ٹی وی سکرینوں پر ایک وڈیو وائرل ہوگئی۔ اس میں خیبرپختونخواہ کے چند اراکین اسمبلی مارچ 2018ء میں ہوئے سینٹ انتخاب میں اپنے ووٹ کی نوٹوں کی موٹی موٹی کدیوں کی صورت قیمت وصول کرتے پائے گئے۔ عمران خان صاحب نے پُرجوش ٹویٹ لکھ کر مذکورہ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کا خیرمقدم کیا۔ عوام کو یاد دلایا کہ ویڈیو میں موجود شہادتیں ان کے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ سینٹ کے انتخاب کے دوران ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ روایت اب ختم ہونا چاہیے۔
ایسے تمام سیاست دانوں کو بلا استثناء ’’بکائو‘‘ ٹھہراتے ہوئے عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و مایوسی کی آگ کو مزید بھڑکاتے ’’ذہن ساز‘‘ اینکر خواتین وحضرات کی اکثریت یہ سوچنے کا تردد ہی نہیں کرے گی کہ ہمارے ہاں سینیٹ کا انتخاب قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ ان سب ایوانوں میں بیٹھے اراکین کی کل تعداد ایک ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ نوٹ گنتے کتنے اراکین کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ ان کی تعداد اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی تعداد کا کتنے فی صد ہے۔ غور کی زحمت کریں تو سوال اٹھانا یہ بھی لازمی ہے کہ نوٹ کی گدیاں کس مقام پر ’’ڈیلیور‘‘ ہوئیں۔ مبینہ طور پر اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرنے والے ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد نہایت دھڑلے سے کیمرے کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ’’سودا‘‘ 2018ء میں ان کے صوبے کی اسمبلی کے سپیکر -جناب اسد قیصر- کے سرکاری گھر میں ہوا تھا۔ موصوف کا اصرار ہے کہ ان دنوں کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کئی بار انہیں فون کرکے وہاں جانے کو مجبور کیا۔ ان کی جانب سے بتایا گیا کہ تحریک انصاف کو 2018ء کا عام انتخاب لڑنے کے لئے چندے کی بھاری بھرکم رقوم وصول ہوئی ہیں۔جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان رقوم کو صوبائی اسمبلیوں کے ان اراکین میں تقسیم کردیا جائے جن کے پاس ذاتی طور پر انتخابی مہم چلانے کیلئے وافر سرمایہ موجود نہیں۔
موصوف کی جانب سے ہوئے دعویٰ سے قبل مجھ جیسے سادہ لوح یہ طے کر بیٹھے تھے کہ ’’سب پہ بھاری‘‘ تصور ہوتے ہوئے آصف علی زرداری نے اپنے چند لوگوں کو خیبرپختونخواہ سے سینٹ بھیجنے کے لئے ’’اتوار بازار‘‘ لگایا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے اکثر یہ گلہ بھی دل میں رہا کہ موصوف میرے ساتھ ذاتی دوستی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ’’شاہ خرچی‘‘ کے خمار میں تاہم اس غریب کو یاد نہیں رکھتے جسے اس عمر میں بھی ہفتے کے پانچ دن صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنا ہوتا ہے۔ فقدانِ راحت نے جی بوکھلا دیا ہے۔ موصوف کو تاہم خبر تک نہ ہوئی۔
اپنا دُکھڑا بیان کرلینے کے بعد یاد دلانا چاہتا ہوں کہ رشوت خور کو بدنام کرنا ہی کافی نہیں۔ راشی کا مرتشی بھی ہوتا ہے اور دونوں ’’فی النار‘‘ یعنی جہنم کی آگ کے برابر حقدار شمار ہوتے ہیں۔ منگل کے روز جو ویڈیو وائرل ہوئی اس کی وجہ سے غضب ناک ہوکر سپریم کورٹ ’’کھلے‘‘ ووٹ کی حمایت کر بھی دے تب بھی ’’راشی‘‘ کا سراغ لگانا ضروری ہے۔ پانامہ کا ہنگامہ کھڑا ہوا تو ریاستی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک JIT بنی تھی۔ سپریم کورٹ کے روبرو ان دنوں خفیہ رائے شماری کی حمایت میں دلائل دینے والے فریقین کو ایسی ہی ایک اور JIT کا تقاضہ کرنا چاہیے۔ راشی اور مرتشی کا اس کی محنت سے بآسانی تعین ہوجائے گا۔ اس کے بعد آرٹیکل 62/63 کا اطلاق ایسے افراد کو ملکی سیاست میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نا اہل قرار دے سکتا ہے۔ ایسا مگر ہوگا نہیں۔ منگل کے دن ویڈیو کو وائرل کرنے والوں کی بنیادی خواہش محض ’’کھلے‘‘ ووٹ کو یقینی بنانا ہے۔ پراپیگنڈہ کے ہنر کو مہارت سے بروئے کار لاتے ہوئے عمران خان صاحب کی خواہش کو ہر صورت پورا کرنے کے راستے بنانا ہے۔
اس معاملہ پر تحقیق کا ڈول ڈالا گیا تو بالآخر پیغام یہ ہی جائے گا کہ مارچ 2018ء میں سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے ’’منڈی‘‘ شاید ایک ہی صوبائی اسمبلی میں لگی تھی۔ ان دنوں کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ممکنہ طور پر اس کا اہتمام کیا اور ’’ہٹی‘‘ صوبائی اسمبلی کے سپیکر کے گھر لگی۔ اسمِ گرامی ان کا اسد قیصر ہے۔ 2018ء کے عام انتخاب کے بعد وہ ربّ کے کرم اور عمران خان کے وسیلے سے قومی اسمبلی کے سپیکر ہوگئے۔ ان دنوں صاف ستھرے ’’نئے‘‘ پاکستان کے منتخب ایوان میں قانون سازی کے عمل کے نگہبان ہیں۔ دل دکھا دینے والا نتیجہ یہ بھی برآمد ہوسکتا ہے کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف کئی برسوں سے جدوجہد کرنے والی تحریک انصاف میں ’’راشی اور مرتشیوں‘‘ کی ایک کثیر تعداد بھی گھس آئی ہے۔ مارچ 2021 میں ہونے والے انتخاب کے دوران ان کے ’’ضمیر‘‘ کے تحفظ کے لئے ’’کھلا‘‘ ووٹ ہر صورت درکار ہے۔ وڈیو صرف ایک صوبائی اسمبلی کے چند اراکین کی بابت وائرل ہوئی ہے۔ ہمارے تمام منتخب اداروں میں بیٹھے افراد مگر اس کی وجہ سے ’’بکائو‘‘ شمار ہوتے ہیں۔ ان کی ’’ڈھیٹ ہڈی‘‘مگر اس پہلو کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گی۔ انہیں واقعتا ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی لاٹھی سے سیدھی راہ پر ڈالنا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر