دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سینیٹ کی دیگ اور جنوب کا حصہ۔۔۔ رؤف کلاسرا

اتنی لمبی رام لیلا سنانے کا مطلب یہ تھا کہ پھر مجھے ملتان‘ ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے علاقوں سے دوستوں اور چاہنے والوں کے پیغامات نے حیران کر دیا ہے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ نہ پہلی دفعہ ہے نہ آخری دفعہ کہ جنوب کے باسیوں کی قسمت اسلام آباد اور لاہور میں لکھی جائے گی۔ جہاں دیگر لوگ جنوب کی قسمت کا فیصلہ لکھتے ہیں وہیں وہ ان فیصلوں پر مہر سائوتھ کے اپنے ہی اہم لوگوں سے لگواتے ہیں ‘ یوں اگر کوئی میرے جیسا آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو یہی طعنہ دیا جاتا ہے کہ جناب آپ کے اپنے لوگ ہی فیصلہ کرنے میں شامل تھے۔ سب فنڈ لاہور میں خرچ کرنے کے بعد بھی یہ کہا جاتا تھا کہ آپ کے ایم این اے یا ایم پی اے یا وزیر کیوں اپنے حصے کیلئے لڑائی نہیں لڑتے‘اپنے ہاں سڑکیں کیوں نہیں بنواتے؟ ان کی بات میں وزن مجھے اس وقت محسوس ہوا جب میانوالی مظفرگڑھ روڈ جسے ایم ایم روڈ کہا جاتا ہے‘ کی حالتِ زار پر میں نے رولا ڈالنا شروع کیا تو سرائیکی علاقوں سے آنے والے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو خدا نے جرأت نہ دی کہ وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا‘ اور کچھ نہیں تو کچھ سنگت ہی دیتا اور قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں رولا ڈالتا کہ خدا کا خوف کریں سرائیکی علاقوں سے ایک ہی طویل سڑک گزرتی ہے جو کراچی ‘ ملتان سے ہوتی ہوئی لیہ‘ بھکر‘ میانوالی‘ سے ایک طرف ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور سے کابل تک ٹریفک کا بوجھ سنبھالتی ہے تو دوسری طرف یہ میانوالی اور تلہ گنگ سے ہوتی ہوئی ان پس ماندہ علاقوں کو اسلام آباد سے جوڑتی ہے۔ برسوں گزر گئے لیکن سڑک نہ بنی۔
دو برس پہلے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے وزیراعظم ہاؤس میں اچانک ہونے والی ملاقات میں مجھے بازو سے پکڑ کر کہا تھا کہ مبارک ہو رئوف صاحب مٹھائی تیار رکھیں ایم ایم روڈ بن رہی ہے۔ صحافی دوست ساتھ کھڑے تھے انہوں نے مجھے مبارک باد دی کیونکہ یہ وہی دوست تھے جنہوں نے اُس دن میرا مذاق اُڑایا تھا جب وزیراعظم عمران خان کے حلف کے بعد صحافیوں سے ہونے والی ملاقات میں میں نے ایم ایم روڈ کی بدحالی اور اس پر روزانہ مظلوم خاندانوں کی تباہی کا نوحہ پڑھنے کی کوشش کی تھی تو وزیراعظم سمیت میرے ان صحافی دوستوں نے مذاق اڑایا تھا۔ مجھے اس دن احساس ہوا کہ جس تن لاگے سو تن جانے۔ جو بے چارے مسافر اس ایم ایم روڈ پر برسوں سے پیاروں کے لاشے اٹھاتے آئے ہیں ان کی سوچ اور ہمارے یہاں اس کمرے میں موجود ایلیٹ کے دکھوں اور ترجیحات میں کتنا بڑا فرق ہے۔
خیر جب میں نے زیادہ لکھا تو پچھلے سال وفاقی وزیر مراد سعید کا میسج آیا کہ وہ میرے شور شرابے سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور ایم ایم روڈ اب پنجاب سے ان کی وفاقی وزرات نے لے لی ہے اور اسکی فزیبلٹی سٹڈی ہورہی ہے۔ چھ ماہ گزرے۔ میں نے پھر رولا ڈالا تو مراد سعید کا پھر میسج آیا کہ امسال اپریل میں اس سڑک پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت گرائونڈ بریکنگ ہوگی۔اس دوران کسی نے ان علاقوں سے آنے والے ایم این ایز کو اسمبلیوں میں بولتے نہ سنا ہوگا۔ مراد سعید کی مہربانی کہ انہیں احساس ہوا کہ وفاقی سطح سے کچھ کرتے ہیں۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات نہ ہوئی کہ انہیں وہ مٹھائی کا ڈبہ پیش کرتا جس کی انہوں نے مجھ سے فرمائش کی تھی۔
اتنی لمبی رام لیلا سنانے کا مطلب یہ تھا کہ پھر مجھے ملتان‘ ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے علاقوں سے دوستوں اور چاہنے والوں کے پیغامات نے حیران کر دیا ہے۔ عامر متین مجھ سے پہلے ہی کچھ ان علاقوں سے آنے والوں کی خدمت مدارت اور میزبانی پر کبھی چڑتے ہیں تو کبھی ہنستے ہیں کیونکہ انہوں نے وہ سب کچھ قریب سے دیکھا ہے جو میرے اپنے ہی میرے ساتھ کرتے ہیں۔ کبھی وہ خود کو دکھی محسوس کرتے ہیں کہ جب انہوں نے سرائیکی چینل لانچ کرنے کیلئے سرائیکی لڑکے ‘ لڑکیاں مشکل سے ان کے ماں باپ کو راضی کر کے اسلام آباد بلائے تو ان میں سے کچھ بعد میں ملتان بیٹھ کر ان کے خلاف ہی سازشیں کرتے رہے کہ ایک سرائیکی چینل کو ایک لاہور کا پنجابی کیسے چلا رہا ہے۔ جو اِن سب کو پس ماندہ سرائیکی علاقوں سے اٹھا کر اوپر لایا تھا‘ جس نے سکھایا‘ نوکریاں دیں‘ شناخت دی ‘اسی کے خلاف سازشیں شروع کر دی گئیں۔ عامر متین نے خود ہی چینل چھوڑ دیا اور کچھ عرصہ بعد چینل بند ہوگیا۔ اس لیے جب وہ اب بھی مجھے ان کاموں میں مصروف اور اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں سوشل میڈیا پر درگت بنتی دیکھتے ہیں تو انجوائے کرتے ہیں جیسے کہہ رہے ہو ں:لگے رہو منا بھائی ہم تو بازآئے تمہارے سرائیکیوں کی محبت سے ۔حالانکہ میرا خیال تھا سرائیکیوں کو کسی اور کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا یا نہیں لیکن عامر متین کا ضرور ہونا چاہئے تھا جس نے سرائیکیوں کی نئی نسل کو پسماندہ علاقوں سے اٹھایا اور قومی سطح پر ہیرو بنایا۔ ان کی زبان‘ کلچر‘ ثقافت‘ شاعری‘ میوزک اور اداکاروں کو نئی راہ دکھائی۔ آج تک کسی سے میں نے نہ سنا کہ عامر متین کا ان کیلئے کیا رول تھا۔ کیسے اس نے اس موجودہ تحریک میں اہم کردار ادا کیا جو اَب ایک توانا آواز بن چکی ہے کہ جنوب کو الگ صوبہ بنائو۔ جنوب کے دکھوں کا مداوا کرنے کی باتیں پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن اس سرائیکی چینل نے اس پورے پراسیس کو تیز کیا اور نئی نسل اس مطالبے سے جڑتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب کا صوبہ‘ جسے سرائیکی لوگ سرائیکی صوبہ کہلوانے پر بضد ہیں تو ہمارے پنجابی بھائیوں کو جنوبی پنجاب کہلوانا پسند ہے‘ اب تمام سیاسی جماعتوں کے منشور اور نعروں میں شامل ہے۔
اب جنوب کیلئے ایک نیا ایشو سامنے آرہا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن ہونے والے ہیں اور اب تک جو نام سامنے آئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی‘ جس نے جنوب سے الیکشن جیتا ہے وہ سینیٹ کی سیٹیں 2018 ء کے الیکشن کی طرح بانٹنا چاہتی ہے۔ 2018 ء کے الیکشن میں یہی ہاتھ جنوب کے ساتھ ہوا تھا جب پی ٹی آئی نے سرائیکی علاقوں سے ووٹ لے کر حکومت تو بنا لی لیکن خواتین کی تمام مخصوص سیٹیں لاہور میں بانٹ دیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس وقت لاہور شہر سے پچاس سے زیادہ خواتین مختلف سیاسی پارٹیوں سے ایم پی اے اور ایم ایم این کے کوٹے سے منتخب کردہ ہیں۔ سب پارٹیوں نے دو تین کو چھوڑ کر سب خواتین لاہور کے پوش ایریاز سے منتخب کر لیں۔ پی ٹی آئی نے تو ریکارڈ قائم کیا جب اس نے لاہور کے اس حلقے میں‘ جہاں سے عمران خان نے الیکشن جیتا تھا وہاں پندرہ خواتین کو مخصوص سیٹوں پر منتخب کر لیا۔ بلکہ چند خواتین تو ایسی بھی تھیں جنہوں نے حلف نامے جمع کرائے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے ان کے بزرگ سرائیکی علاقوں میں رہتے تھے‘ آج اگر وہ لاہور یا اسلام آباد میں رہتے ہیں تو کیا ہوا۔ بہاولپور سے ایک لڑکی مشعل حسن کا نام لسٹ میں تھا‘ مگر سب بیگمات ایم این ایز بن گئیں‘ وہ منہ دیکھتی رہ گئی۔
اب وہی کچھ سینیٹ الیکشن میں ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ دنیا بھر سے سب ڈونرز‘ ارب پتی اور مال پانی کھلانے والے اکٹھے ہوچکے ہیں کہ جن کی جیبوں میں پیسہ ہے انہیں ہر صورت سینیٹ میں لانا ہے تاکہ آنے والے برسوں میں وہ ہمارے اخراجات پورے کرتے رہیں۔ اس دفعہ بھی سرائیکیوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو 2018 ء میں جنوب سے اکیلی لڑکی مشعل حسن کے ساتھ ہوا تھا۔ اب کی دفعہ بھی آپ کو ملتان‘ بہاولپور یا ڈیرہ غازی سے کوئی نہیں ملے گا۔ سب لاہور‘ لندن اور امریکہ کے دوست اکاموڈیٹ ہوں گے جیسے پہلے ہوا تھا ہے۔میرے بہاولپور‘ ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے بے چین دوست ذرا اپنے برق رفتار گھوڑے چھائوں پر باندھیں کہ انہیں سینیٹ کی تین سیٹیں ملنی چاہئیں۔ آپ لوگوں کو ان تین سالوں میں ایک ایم ایم روڈ نہیں مل سکی جس پر دن رات لوگ مرتے ہیں اور چل پڑے ہیں سینیٹ میں تین سیٹیں لینے۔ بندہ کوئی چیز مانگنے سے پہلے آئینہ ہی دیکھ لیتا ہے

یہ بھی پڑھیے:

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

About The Author