حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی قومی تحریک میں سرگرم عمل قوم پرست جماعتوں کے قائدین اور دوسرے دوستوں سے ہمیشہ یہی عرض کرتا رہا ہوں کہ صوبے کے حصول اور دیگر مطالبات کے لئے مشترکہ جدوجہد کا راستہ اختیار کیجئے۔
غالباً 1990ء کی دہائی کا کوئی سال تھا جب ارشاد امین اور ہماری ریگل چوک میں واقع بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ سے لگ بھگ اڑھائی تین گھنٹے ملاقات رہی۔ ہم نے اس ملاقات میں بھی جناب لنگاہ کی توجہ قومی رہبری کمیٹی کی ضرورت کی طرف دلوائی اور عرض کیا مشترکہ جدوجہد کی اہمیت اور ضرورتوں پر غور کیجئے۔ لنگاہ صاحب نے اپنے دوستوں سے مشورے اور غور کا وعدہ کیا۔
گزشتہ روز شعراء اور اہل دانش کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں قومی رہبری کمیٹی کی تجویز اسی تناظر میں تھی۔
مرحوم حمید اصغر شاہین نے ابتدائی طور پر اس تجویز کو اپنی پارٹی ایس کیو ایم کے ملتان میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں عملی شکل دیتے ہوئے ایس کیو ایم کی سطح پر قومی رہبری کمیٹی قائم کی تھی مگر ہماری اجتماعی ضرورت اس امر کی متقاضی ہے کہ ایک ایسی قومی رہبری کمیٹی جس میں تمام قوم پرست سیاسی جماعتوں کے علاوہ دوسری فعال تنظیمیں بھی شامل ہوں اور یہ کمیٹی ایسی سپریم کونسل کا درجہ رکھتی ہوجس کی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں دستوری طور پر حمایت کریں اور تحریری تائید تاکہ سیاسی و سماجی حوالوں سے کمیٹی کے فیصلوں کی پابندی سب پر لازم ہو۔
دوسری جو بات عرض کی اس کی مکرر تفصیل کے ساتھ وضاحت کئے دیتا ہوں۔مشاعرے کے بائیکاٹ کی مہم کے دنوں سے سوشل میڈیا پر پگڑیاں اچھالنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تادم تحریر جاری ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ اس مہم میں شامل ہمارے بعض نوجوان عزیزوں کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے یہ عزیز یہ موقف رکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی سرائیکیوں کا آخری مورچہ ہے۔
اس موقف کے ساتھ غالباً ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ سرائیکی وسیب اپنی اجتماعی دانش کے ساتھ پیپلزپارٹی کے حضور سجدہ ریز ہوجائے۔
ایسا ہونا سیاسی روایات کے مطابق درست اور ممکن نہیں۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی سیاسی حقیقت ہے لیکن بہرحال وہ وفاقی سیاست کرتی ہے قوم پرست سیاست نہیں۔
پی پی پی کا سرائیکی قوم پرست یا یوں کہہ لیجئے سرائیکی صوبہ کے مطالبہ کی تائید اور اس حوالے سے عملی کام یقیناً قابل قدراور قابل ذکر ہے۔
سرائیکی قوم پرست اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس طور یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم پرستوں کے فہم کے قریب اگر کوئی جماعت ہوسکتی ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہے۔
پنجاب بیس سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں یا مالک اشرافیہ کی تحریک انصاف قوم پرستوں کی فطری حلیف نہیں بن سکتیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس پر دو آراء نہیں۔
یہی وہ نکات ہیں جو یہ عرض کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ پی پی پی کے حامیوں کی نئی نسل اورقوم پرستوں کے درمیان محاذ آرائی کا نقصان دونوں کو ہوگا اس لئے دونوں کو حوصلے اور تدبر کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کا راستہ اپنانا ہوگا۔ یہ تعاون مساوی حیثیت میں ہی ممکن ہے یہ نہیں کہ حاکم، محکوم والی صورتحال ہو۔
سرائیکی قومی تحریک آج جس موڑ پر ہے اس کے تقاضوں کو قوم پرست جماعتوں کوبھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ ان کی خدمات کے سب معترف ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بلاشرکت غیرے سیاسی عمل کی وارث نہیں ہیں انہیں (قوم پرست جماعتوں) نہ صرف اپنے رویوں اور دوسرے معاملات کے ساتھ اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ وسیع عوامی پذیرائی کی محرومی کی بنیادی وجہ کیا ہے
ثانیاً یہ کہ مشترکہ نکات پر تمام جماعتیں مل کر جدوجہد سے گریزاں کیوں ہیں؟
اسی طور یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا سرائیکی قوم پرست جماعتوں نے اپنے جماعتی ڈھانچوں میں سیاسی کارکنوں کی فکری و سیاسی تربیت کے لئے کوئی ادارے بنائے ہیں کہ نہیں؟
مزید وضاحت کے ساتھ عرض کردوں کے قوم پرست سیاست کا اب تک کا المیہ یہ ہے کہ متبادل قیادت اور تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کی ضرورت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
سرائیکی تحریک کا اصل حسن یہ ہے کہ یہ وسیب سے محبت اور وسیب کے حقوق کےلئے ہے کسی سے نفرت و بغض پر قائم نہیں
یہی وجہ ہے کہ تحریر نویس کی ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ وسیب میں آباد تمام طبقات کے لوگ وسیب زادے ہیں وسیب کے حقوق، شناخت اور صوبہ کے قیام کے لئے اجتماعی جدوجہد میں تمام طبقات کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
یہ بھی کہ سرائیکی قومی تحریک بنیادی طور پر وسیب کے حقوق اور لاہور کی بالادستی سے آزادی کی تحریک ہے طبقاتی تحریک ہرگز نہیں اس لئے وسیب کے تمام طبقات کو اس میں شرکت کی دعوت دی جانی چاہیے۔
کسی شخص سے اس کے طبقے کی بنیاد پر نفرت غیرسیاسی رویہ ہوگا کیونکہ قومی تحریک میں ہر خاص و عام شامل ہوتاہے۔
آپ پشتونوں، بلوچوں اور سندھیوں کی قومی تحریکوں کو دیکھ لیئجے، خان، وڈیرے اور سردار تک اپنی قومی تحریکوں میں شامل ہیں۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ سرائیکی قومی تحریک بہت سارے نشیب و فراز سے گزر کر یہاں تک آن پہنچی ہے منزل ابھی دور ہے، صوبہ کوئی بھی پلیٹ میں سجاکر نہیں دے گا۔ پرعزم اور طویل جدوجہد سے ہی صوبہ کا حصول ممکن ہے۔
سو اس مرحلہ پر باہمی اختلافات یا ذاتی پسندوناپسند کی بجائے سماجی و سیاسی وحدت کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ برداشت، محبت اور ا حترام کو پروان چڑھانے کی بھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر