حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیرراحموں کہتے ہیں، یک رکنی براڈ شیٹ انکوائری کمیشن نے براڈ شیٹ، سرے محل، حدیبیہ پیپر سمیت20سالوں کے گھٹالوں کی تحقیقات تو کرنا ہی ہے، لگے ہاتھوں ان 60ارب روپے کے غیرملکی اثاثوں کی تحقیقات بھی کر لے جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ساڑھے تین کروڑ روپے جرمانے کے عوض ”حلال” قرار دے دئیے تھے۔
ویسے فقیر کے مجھ اکلوتے مرید کو یقین ہے کہ ایسا ہوگا نہیں کیوں؟۔ یہ آپ اور ہم دونوں اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ بھی کہ یک رکنی براڈ شیٹ انکوائری کمیشن جن صاحب (جسٹس (ر) عظمت سعید ) پر مشتمل ہے وہ اس وقت شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ہیں۔ ساعت بھر کیلئے رُکھیے، آپ کو ایک اور کہانی سناتا ہوں۔
براڈ شیٹ کمپنی کا بانی مالک جیری جیمز بنیادی طور پر مافیائی کردار تھا، بند گلی میں پھنسا تواس نے2010ء میں خودکشی کرلی، کمپنی کا حاضر مالک کا وے موسوی ایرانی بھگوڑا ہے، یہ اس وقت ایران سے عراق کے راستے بھاگ نکلا جب اس کیخلاف ایم آئی سکس (برطانوی خفیہ ایجنسی) کیلئے کام کرنے کی تحقیقات ہورہی تھی۔
یہ موصوف قبل ازیں بھی ایک فراڈ کیس میں جیل یاترا کر چکے ہیں۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس کیلئے لابنگ کرنے والے نیب کے اس وقت کے پراسیکیوٹر میجر (ر) فاروق آدم بغاوت کیس میں سزایافتہ تھے۔
فاروق آدم نے فرنٹ مین کے طور پر فواد ملک کی خدمات حاصل کیں، فواد ملک کو پاکستان ایئر فورس سے کورٹ آف انکوائری کے بعد مجرم قرار دیتے ہوئے پی اے ایف سے نکالا گیا، جس وقت فاروق آدم نیب کے پراسیکیوٹر جنرل تھے، جناب جسٹس(ر) عظمت سعید اس وقت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر اپنے باس کے معاون خصوصی تھے۔
آپ کہانی پڑھ چکے، نتیجہ خود اخذ کیجئے او رفیصلہ کر لیجئے کہ اس سے زیادہ کیا عرض کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم اور کابینہ نے گزشتہ روز اپوزیشن کے اعتراضات کو مسترد کر کے جسٹس (ر) عظمت سعید پر مشتمل ایک رکنی براڈ شیٹ انکوائری کمیشن قائم کر دیا۔
وزیراطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں، عظمت سعید بہترین آدمی ہیں۔ یقینا ہیں، اسی لئے توشوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ہیں۔
کیا ہم سادہ لفظوں میں ادب واحترام کیساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نون لیگ کو قیوم ملک کا طعنہ دینے والے اپنا قیوم ملک لے آئے۔
معاف کیجئے گا! یہ فقیرراحموں مجھے کہہ رہا ہے کہ20 سال کے گھٹالوں کی تحقیقات کیلئے کم از کم40سال تو کمیشن کو کام کرنا چاہئے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو۔
خیر چھوڑیئے! اس پر دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں۔ جس اصل سوال کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یو بی ایل لندن برانچ کے سفارتی اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی ہے، اس منتقلی کی منظوری وفاقی کابینہ نے دی (تفصیل پچھلے کالم میں عرض کر چکا) کابینہ کی کیا مجبوری تھی یا یہ کہ نیب کو کیا جلدی تھی رقم بھجوانے کی۔
ہمارا المیہ یہی ہے، ہم اصل سوالات سے بھاگتے ہیں اور بھاگتے ہوئے الزامات کے پتھر اُچھالتے سمجھ لیتے ہیں، سوال کرنے والا زخموں سے رسنے والا خون بند کرے گا تب تک ہم بہت دور نکل جائیں گے۔
چلیں آپ کو ایک اور کہانی سناتا ہوں، اکتوبر2011ء سے لے کر 2018ء میں اقتدار سنبھالنے تک پی ٹی آئی کے سربراہ اور ان کے ساتھی اُٹھتے بیٹھتے کہا کرتے تھے پاکستان کے 200 ارب ڈالرزسوئس بنکوں میں پڑے ہیں اور ملک میں روزانہ12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو اسد عمر وزیر خزانہ بنادیئے گئے، چند ماہ بعد انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ”200ارب ڈالر والی بات تو انتخابی سیاست کا حصہ تھی” اب بتائیں کوئی کچھ بولا؟۔
براڈ شیٹ سکینڈل انکوائری ہونی چاہئے، اس ملک کے اصل مالکان (عوام) کو پتہ چلنا چاہئے کہ فراڈاصل میں ہوا کیا اور کیا کس نے، کیوں نیب نے جیری جیمز جیسے جرائم پیشہ شخص سے سوچے سمجھے بغیر معاہدہ کیا۔ میجر (ر) فاروق آدم پراسیکیوٹر جنرل نیب کو کیا پڑی تھی کہ وہ ایک سکہ بند مجرم کی کمپنی کو ٹھیکہ دلوا رہے تھے۔
وہ چیئرمین نیب جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ تو دوپہر کا کھانہ ٹفن میں گھر سے لاتے ہیں اورسبزیاں شوق سے کھاتے ہیں، انہوں نے اپنے پراسیکیوٹر جنرل کے کہنے پر لندن کا دورہ تو کرلیا مگر یہ نہ کر سکے کہ تھوڑی سی عقل استعمال کر لیتے اور یکطرفہ معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے سوچ ہی لیتے کہ جب معاہدہ دو فریقوں کے درمیان ہے تو منسوخ کرنے کا اختیار صرف ایک فریق (براڈ شیٹ) کو کیوں؟
تحریر نویس الزام نہیں لگارہا، دستیاب معلومات کی بنیاد پر عرض کر رہا ہے کہ جناب فاروق آدم نے معاہدہ کروانے کا حق خدمت وصول کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ نیب سے رخصت ہوئے اور کسی تاخیر کے بغیر براڈ شیٹ کے مشیر بن گئے کیوں؟
آپ غور کرتے جائیے، جواب صرف یہ ہے کہ ”سب گول مال ہے”
حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے اپوزیشن اور آزاد خیال لوگوں کے تحفظات کو الزامات قرار دے کر مسترد کر دیا حالانکہ تین باتیں اہم تھیں،
اولاً یہ کہ عظمت سعید براڈ شیٹ معاہدہ کے وقت نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے، وہ اب شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ہیں اور اہم ترین بات جو سنگین الزام ہے وہ یہ کہ انہوں نے پانامہ جے آئی ٹی کی رپورٹ براڈشیٹ کو فراہم کی، جس کے بعد براڈ شیٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف فیملی کی قرار پائی جائیدادوں کو اپنی تحقیق کے طور پر پیش کیا اور معاہدہ کے مطابق نیب سے 20فیصد طلب کر لیا،
ان تین باتوں کی اہمیت ہے اور مسلمہ ہے۔
محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ اپوزیشن کے الزامات ہیں ہم نہیں مانتے۔ جس اہم بات کو حکومت نظرانداز کررہی ہے، وہ یہ ہے کہ جناب عظمت سعید اخلاقی ساکھ نہیں رکھتے، ان کی تحقیقات اور رپورٹ کی اخلاقی ساکھ کیا ہوگی؟
معاف کیجئے گا، یہ دو مرلہ زمین کا تنازعہ نہیں کہ ماموں کے ڈیرے پر چچا منصف بن جائے۔ حساس معاملہ ہے، حیرانی اس بات پر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے توپچی چاند ماری میں تو مصروف ہیں لیکن گلی محلوں میں اس حوالے سے ہوتے سوالات کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں حالانکہ اگر سوالات کا جواب نہ دیا گیا تو کمیشن کی رپورٹ پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر