عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم کا اجلاس – نتیجہ جمہوری قوتیں اور مضبوط – اتفاق رائے سے فیصلے-
پی ڈی ایم نے کمرشل لبرل مافیا کی صحافت کے نام پہ زرد صحافت مسترد کردی –
24 مارچ کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان
سینٹ الیکشن مشترکہ طور پہ لڑنے کا فیصلہ
عدم اعتماد اور استعفوں بارے معاملات اگلے اجلاس تک موخر
پی ڈی ایم کے فورم پہ فیصلے ہوں گے ناکہ صحافیوں کے فورم پہ فیصلہ ہوگا
ہمیں پتا ہے کب استعفا آپشن استعمال کرنا ہے……
………
اس تفصیل سے اندازہ لگالیں جو تجزیہ نگار، اینکر پرسن، صحافی، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پی ڈی ایم کے درمیان پھوٹ، تقسیم، باہمی جھگڑے اور خاص طور پہ مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کے درمیان لڑائی کے جھوٹے دعوے کررہے تھے اُن کا تجزیہ کس قدر جھوٹ کا پراپیگنڈا تھا……..
نیادور ٹی وی کا ویب پروگرام خبر سے آگے میں رضا رومی اور اُن کے شریک مبصرین بشمول مرتضیٰ سولنگی، جیو نیوز کا سلیم صافی، پھر اپنے یوٹیوب چینل پر "صرف سچ” کی رونمائی کا دعوے دار مطیع اللہ جان، کمرشل لبرل مافیا کی امی جان نجم سیٹھی …… اس کے علاوہ روز اخبارات کے صفحہ اول پہ سنسی پھیلانے والی ٹیبل نیوز اسٹوریز کے خالق رپورٹرز پی ڈی ایم کے چار فروری کے اجلاس بارے اہنے تیئں اپنے سامع و قاری کو جو "اخبار” مہیا کررہے تھے وہ سب کی سب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئیں –
وہ سب صحافی جو پی ڈی ایم سے پی پی پی کو نکالے جانے کا مطالبہ کررہے تھے اُن سب کے منہ پر پی ڈی ایم نے زناٹے دار تھپڑ کی مثل سینٹ کا الیکشن مشترکہ طور پر لڑنے کا اعلان دے کر مارا ( نواز لیگ اور مولانا تو سینٹ سے استعفا دینا چاہتے تھے اُن کو اس انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھا تو کس نے؟ پی پی پی نے تو یہ دانشمندانہ سیاسی قدم اٹھانے پہ پی پی پی کو گالیاں دی جائیں؟)
مولانا فضل الرحمان سے وہاں پریس کانفرنس میں موجود کچھ صحافی نما رپورٹروں نے سوال شکل میں یہ کہا کہنے کی کوشش کی کہ استعفے کیوں نہیں دیے؟ پی پی پی کی عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز پہ اُن کے خلاف نوٹس کیوں نہ لیا تو جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا،
"تقریر مت کریں سوال کریں، تقریر کرنا ہم. سیاست دانوں کا کام ہے(اس دوران مریم نواز سمیت دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے قہقہے سنائی دیے) – استعفے کب دینے ہیں، عدم اعتماد کب لانی ہے یہ سارے فیصلے سیاست دانوں نے کرنے ہیں اور اس کا فورم پی ڈی ایم ہے نہ کہ صحافیوں کا فورم….”
کیا عجیب اتفاق ہے نام نہاد لبرل جمہوریت پسند، اینٹی اسٹبلشمنٹ صحافتی سیکشن اور نام نہاد محب وطن، اینٹی کرپشن باجوہ و عمران نواز سیکشن میں کہ دونوں کو ایک طرف تو پی ڈی ایم کا مستقبل تاریک نظر اتا ہے اور دونوں اطراف میں شامل طبلچی کبھی کہتے ہیں پی ڈی ایم کا سیاسی مستقبل تاریک کرنے کی ذمہ دار پی پی پی اور اُس کی قیادت ہے……. کبھی کہتے ہیں کہ بس اب نواز لیگ اور پی پی پی کا ساتھ چلنا محال ہوگیا ہے…… اور حکومتی کیمپ کو لگتا ہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کا سیاسی مستقبل "دو نابالغ، ناتجربہ کار” سیاسی قائدین نے تاریک کردیا ہے-
دیکھا جائے تو یہ دونوں کیمپ ایک یا دوسرے طریقے سے پی ڈی ایم کا خاتمہ چاہتے ہیں –
کمرشل لبرل مافیا پی ڈی ایم کو پہلے قدم پہ انتہائی مرحلے والی لائن اور موقف اختیار نہ کرنے پہ انتہائی بپھرے ہوئے ہیں تو حکومتی لاڈلے پی ڈی ایم کو قائم دائم دیکھ کر جل رہے ہیں اور دونوں کی سب سے بڑی خواہش پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان کھلی محاذ آرائی دیکھنے کی ہے –
رضا رومی کا پروگرام "خبر سے آگے” جو نیا دور ویب ٹی وی پہ چلا جس کا عنوان تھا کہ "کیا پی پی پی کو پی ڈی ایم سے نکال دیا جائے گا؟”، یہ عنوان ہی کم از کم ایسا عنوان ہے جو پاکستان میں جمہوریت پسند قوتوں کے اتحاد کا حامی تو کبھی اختیار نہیں کرے گا-
رضا رومی صاحب نے اپنے پروگرام کے آغاز سے لیکر آخر تک پاکسان پیپلز پارٹی کو مصالحت پسند، موقعہ پرست، اور جمہوری تحریک کے ایداف پورے نہ ہونے کا زمہ دار ٹھہرایا-
اُن کے ساتھ شریک ایک اور مبصر کا تجزیہ یہ تھا کہ حزب اختلاف کی سیاست کو تباہ ہونے سے اگر کسی شخص نے بچایا ہے تو وہ ذات مولانا فضل الرحمان کی ہے اور پھر پی پی پی کو مصلحت اور موقعہ پرستی کا طعنہ دیا…..
جبکہ ضیغم صاحب برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ کے نتیجے میں نواز شریف ملک سے باہر گئے-
رضا رومی سمیت اُن کے قبیل کے جتنے لوگ ہیں وہ پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی پہ پہلے دن سے پوری طاقت سے وار پہ وار کررہے ہیں اور یہ وار وہ اس لیے کررہے ہیں کہ پی پی پی اپنی سیاسی حکمت عملی پاکستان کے کمرشل لبرل مافیا کے زریعے سے دی جانے والی نواز شریف لائن کی روشنی میں کیوں نہیں بنارہی؟
اس پروگرام میں رضا رومی اور کسی مبصر نے یہ سوال قائم نہیں کیا کہ "مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز یہ کہا کہ اُن کی لرائی” اسٹبلشمنٹ سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت سے ہے” تو کیا یہ یو ٹرن نہیں؟ مولانا فضل الرحمان جب یہ کہتے پائے گئے تھے کہ وہ اسلام آباد سے ایسے ہی واپس نہیں ہوئے اور آج جب مسلم لیگ قائدِاعظم کے بارے میں یہ کہا کہ وہ عدم اعتماد میں ساتھ دینے کا وعدے سے مکر گئی ہے تو کیا مولانا فضل الرحمان اور اسٹیبلشمنٹ اور ق لیگ سے اِن ہاؤس تبدیلی کی یقین دہانی لیکر آئے تھے؟ تو اب اگر پی پی پی "عدم اعتماد” کی تحریک پیش کرنے کی تجویز دی تو اس میں کون سی مصلحت پسندی ہوگئی؟ جو بات فضل الرحمان اور زبیر ترجمان سابق وزیراعظم نواز شریف کریں بلکہ وہ استبلشمنٹ اور ق لیگ سے یقین دہانی لیں تعاون کی تب بھی وہ قائد انقلاب رہیں اور پی پی پی بنا اسٹیبلشمنٹ سے یقین دہانی لینے کی بات کہے بغیر کرے تو وہ جمہوری تحریک میں "روکاوٹ” ٹھہرے……
پی ڈی ایم بارے بات کرتے ہوئے کمرشل لبرل مافیا ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے پی پی پی کی بجائے پی ڈی ایم کسی اور جماعت کی تجویز پہ بنا اور پی پی پی اس کا حصہ زبردستی حصہ ہے-
پاکستانی کمرشل لبرل مافیا آج سے پہلے پی پی پی کے پی ڈی ایم چھوڑ جانے کی افواہیں پھیلا رہا تھا اور اب اس کے نکال دیے جانے کی افواہ پھیلا رہا ہے – کیوں؟ کیا اسے کسی نے پی ڈی ایم کو توڑنے کے لیے ٹاسک دیا ہے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر