گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عرصہ ہوا نواب شاہ کے قریب مورو گاٶں میں کچھ ڈاکووں نے جو بندوقوں سے مسلح تھے ایک بس کو روکا اور مسافروں کا تمام اسباب اور نقدی لوٹ لی۔اس کے بعد انہوں نے مسافروں میں سے ایک سفید ریش بزرگ سے کہا کہ وہ ان کے حق میں دعا مانگے اور سب آمین کہیں ۔۔
چنانچہ بزرگ نے بندوق کی نوک پر بڑے خشوع وخزوع کے ساتھ ڈاکوٶں کے حق اور شاید مزید کامیابیوں کی دعا مانگی اور لٹنے والے مسافروں نے بڑے زور سے آمین کہی اس طرح ڈاکوٶں نے بس کو جانے کی اجازت دے دی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ڈاکو۔چور ۔یا غلط کام کرنے والے لوگ دعاٶں پر اتنا یقین کیوں رکھتے ہیں؟
پرانی بات ہے کسی غیر ملک میں ایک مسجد کے سامنے کسی غیر مسلم نے شراب خانہ کُھول دیا۔ چنانچہ مسلمانوں کو بڑی پریشانی ہوئی۔اب کوئی کاروائی بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ مسجد میں نمازی ہر نماز کے بعد اس کاروبار کی ناکامی کے دُعائیں مانگتے کیونکہ یہ غلط کام تھا۔ کچھ دن بعد شراب خانے میں شارٹٍ سرکٹ ھونے کی وجہ سے سب کچھ جل کر خاکستر ھوگیا۔
چونکہ شراب خانے کے مالک کو اس بات کا پتہ تھا کہ مسلمان میرے کاروبار کے خلاف ہیں اور دعائیں بھی مانگتے ہیں کہ کاروبار کامیاب نہ ہو تو اس نے امام مسجد اور نمازیوں کے خلاف کیس درج کروا دیا۔اس نے موقف اختیار کیا کہ میری دوکان جلنے کی وجہ وہ دُعائیں تھی جو ہر روز مسجد میں کی جاتی تھیں۔
اس طرح میرا کاروبار تباہ ہوگیا۔ مسجد کے نمازیوں اور امام مسجد کو جب عدالت بلایا گیا تو سب نے اس بات سے انکار کر دیا کہ آگ ان کی دُعاؤں کی وجہ سے لگی ہے۔ جج نے اپنا فیصلہ سُناتے ھوئے کہا کہ "اس مقدمے کا فیصلہ کرنا بہت مُشکل ہے کیونکہ شراب خانے کے مالک کو دُعاؤں کی طاقت پر یقین ہے، جبکہ نمازی اس پر یقین نہیں رکھتے۔
یار جج کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ سب لوگ اقرار کر لیتے تو جج ان کو مجرم بنا کر جرمانہ ٹھوک دیتا تو بے چارے کیا کہتے۔اب جدید دنیا میں لوٹنے کے جدید طریقے آ گیے ہیں۔خاص کر موبائل کے ذریعے لوگوں کو کروڑوں کی لاٹری کا لالچ دے کر یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا لالچ دے کر معلومات حاصل کرتے ہیں اور آپ کے اکاونٹ سے پیسے نکال لیتے ہیں۔
جب موبائل سروس شروع ہوئی تو ایک ۔۔صبا ۔۔ نامی لڑکی بہت مشھور تھی۔وہ ہر بندے کو میسیج کرتی کہ میرا نام صبا ہے میں ہسپتال میں ہوں میرے فون کا بیلنس ختم ہو گیا ہے آپ پچاس روپے کا اس کے نمبر پر بیلنس ڈلوا دیں وہ جلد آپ کو لوٹا دیں گی۔بہت سے لڑکے اس پر رحم کھا کر پچاس کا بیلنس بھجوا دیتے شاید اس طرح اس کی دہاڑی بن جاتی ہوگی مگر اسی قسم کا میسیج کسی اللہ ڈتہ کی طرف سے موصول ہوتا تو کسی لڑکے کو کبھی ترس آیا نہ رحم الٹا گالی دے کے میسیج ڈیلیٹ کر دیتے۔
پتہ نہیں وہ صبا بے چاری کس حال میں ہوگی یا اس کا موبائل گم ہو گیا یا شادی ہو گئی کافی عرصے سے اس کا میسیج نہیں دیکھا یہ بھی پتہ نہیں کہ کوئی مولا بخش صبا کے نام سے میسیج کرتا تھا کیونکہ آجکل بھی فیس بک پر بہت سے لڑکوں نے ایکٹرسوں کی طرح خوبصورت تصویریں لگا کر لڑکیوں کے نام سے اکاونٹ بنا رکھے ہیں اس طرح ان پر فرینڈز ریکوسٹ کی یلغار ہو جاتی ہے اور پھر وہ کسی موٹی آسامی کو بلیک میل کرتے ہیں۔ہمارے ایک جاننے والے سائیکل کے پنکچر لگانے کا کام کرتے تھے۔وہ بھی دکان کھولتے تو سرائیکی میں یوں دعا مانگتے۔۔۔یا اللہ خیر۔۔پَھٹن ٹُوپاں تے ٹائیر۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر