نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قرآن پاک کا معجزہ ۔۔۔گلزار احمد

ان کے ادارے نے دلی میں بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وھی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قران پاک کا معجزہ
اللہ سبحانہُ تعالے نے تمام پیغمبروں کو معجزے عطا فرماۓ مگر ان پیغمبروں کے وصال کے ساتھ ہی وہ معجزے بھی ختم ہو گئیے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے پوری انسانیت کے لئیے پیغمبر بنا کے بھیجا اور ان کے بعد اب کوئی نبی نے نہیں آنا تو ان کو اللہ نے قران پاک کی شکل میں وہ معجزہ عطا کر دیا جو قیامت تک باقی رھے گا اور لوگوں کو ہدایت کے نور سے روشن کرتا رھے گا۔ ویسے بھی عربی میں معجزوں کو آیات کہتے ہیں اور ہمارے پاس کم و بیش6666 کے قریب قران میں آیات سورج اور چاند کی طرح چمک رہی ہیں اور نور کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔قران کے نور میں جو خوبیاں موجود ہیں اسے اپنے پرایۓ سب مانتے ہیں۔ ایک تو جو بلاغت کی خوبی قران میں ھے وہ اور کسی تحریر میں نہیں ملتی۔ دوسری بات یہ ھے کہ کوئی کتنا ہی قادرالکلام ہو قران کی طرح ایک آیت بھی نہیں بنا سکتا۔اس بات کو مکہ کے کافروں نے بھی تسلیم کیا جو رسولؐ کے سب سے بڑے مخالف تھے اور اپنی زبان پر ناز کرتے تھے۔تیسری بات جو قران میں سائنسی حقائق بیان کر دئیے گیے ہیں اب دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان ان حقائق کی صداقت کو اپنے تجربوں کی شکل میں ثابت کر رھے ہیں اور کئی تو صرف قران کے سائنسی حقائق اور صداقت دیکھ کر مسلمان ھو گئے۔۔قران پاک کی سورت رحمن میں اللہ نے فرمایا ھے دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ ھے اور وہ آپس میں نہیں مل سکتے یعنی نمکین اور فریش پانی آپس میں ٹکرانے کے باوجود جدا رھتے ہیں ۔۔ آپ کیپ ٹاون جنوبی افریکہ کے قریب یہ نظارہ دیکھ سکتے ہیں۔فرانس کا ایک مشھور سائنسدان ۔۔ Jacques Cousteau جو سمندر کی تہہ میں تحقیق کرتا اور فلمیں بناتا رہا جب اس نے قران کے حقائق کو ان تجربوں سے منطبق دیکھا تو فوراً اسلام قبول کر لیا۔ وہ ایک oceanograppher یا ماہر بحریات اور کئ کتابوں کا مصنف تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں اس نے کہا اسلام قبول کرنا اس کی زندگی کا صحیح ترین فیصلہ تھا اور وہ اپنی موت تک مسلمان ھی رہا۔ اس نے کئی سمندروں میں دیکھا کہ پانی آپس میں مکس نہیں ھوتا تو بڑا حیران پھرتا ۔پھر اس کی ملاقات ایک دوسرے فرانسیسی ڈاکٹر Maurice Bucaille سے ھو گئی جو پہلے ہی اسلام قبول کر چکا تھا۔بکیلی نے اسے قران کی وہ آیت دکھائی جس میں دو سمندروں کے درمیان پانی مکس نہ ھونے کی آڑ کا ذکر ھے تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کوسٹیو نے کہا خدا کی قسم یہ قران کسی شخص کا کلام نہیں ھو سکتا بلکہ یہ اللہ کا سچا کلام ھے جو چودہ سو سال پہلے جدید سائنس کے حقائق بیان کر رہاھے۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ نے اس کی آنکھیں کھول دیں ۔پھر جوں جوں وہ قران میں کائنات کی سچائیاں ۔انسانیت کی بھلائیں اور انصاف کے قوانین پڑھتا وہ بھت حیران ھوتا۔ چوتھی بات جو قران سے معلوم ھوتی ھے وہ تاریخی ریکارڈ ھے ۔جو چیزیں قران نے بیان کر دیں وہ اب کھل کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ حضرت آدم کی پیدائش سے قیامت تک جو واقعات بیان ھوۓ ہیں وہ اب ثابت ہو رھے ہیں۔آپ دیکھیں تین ھزار سال پرانے فرعون اور حضرت موسیؐ کے واقعات پوری تفصیل سے بیان کئیے گئیے ہیں اور اب آثار قدیمہ کے ماہر جدید آلات استعمال کر کے وہ ثابت کرتے چلے جا رھے ہیں۔فرعون جب سمندر میں غرق ہوا تو اللہ نے فرمایا تیری لاش کو محفوظ رکھونگا اور آئندہ لوگوں کے لئیے عبرت بناونگا۔ قران کے نزول کے وقت تو اس فرعون کی لاش کا پتہ تک نہیں تھا مگر وہ لاش محفوظ رہی اور 1974 میں بادشاھوں کے قبرستان سے دریافت کر کے مصر میں رکھ دی گئی۔۔ اب جو اللہ نے فرمایا عبرت دکھاونگا تو آپ دیکھیں فرعون کی ممی کو ضروری دیکھبال اور مرمت کے لئے فرانس لے جانا اور پھر سپین میں اس کی نمائش کرنے لے جانا تھا ۔دونوں ممالک مردہ فرعوں کو پاسپورٹ اور ویزہ کے بغیر اپنے ملک میں داخلے کے اجازت نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ مردہ فرعون کا پاسپورٹ اور ویزہ بنانا پڑا اور شاید دنیا میں واحد مردہ فرعون ھے جو پاسپورٹ رکھتا ھے۔اور جگہ نمائش ہوتی رہی ۔یہ ھے اللہ کی نافرمانوں کی رسوائی۔۔۔
پانچواں قران کا معجزہ ھے کہ اس کتاب فرقان کی تمام پیشگوئیاں حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں۔ چھٹی بات قران کی وہ چیلنجز ہیں جو اس وقت کے کافروں اور مخالفین کو دئیے گئیے جن کو نہ کسی نے قبول کیا نہ اس کا کوئی جواب دے سکا۔ آپ نےہندوستان کی یہ کہانی تو پڑھی ہوگی کہ
پنڈت نول کشور جو کہ ہندو تھا جب مر گیا تواس کی چتا پر کئی ٹین گھی کے ڈالے گئے تھے لیکن چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی . وہ کوئی عام ہندو نہیں تھا انڈیا کا بہت بڑا نام تھا. اس لئے اس کی چتا کو آگ نہ لگنے والے واقعے کی خبر منٹوں میں پورے انڈیا میں پھیل گئی .
لوگ جوق در جوق شمشان گھاٹ پہنچنے لگے . اس کی جامع مسجد دلی کے امام بخاری سے بہت دوستی تھی امام صاحب بھی یہ واقعہ سن کر فورآ شمشان گھاٹ پہنچے . انہوں نے اس کے لواحقین کو سمجھایا کہ اس کی ارتھی کو آگ نہیں لگے گی چاہے پورے ھندوستان کا گھی اس پر ڈال دو . بہتر یہی ہے اسے دفنا دو.
لہذا پہلی بار ایک ہندو کو جلائے بغیر شمشان گھاٹ کے اندر ہی دفن کرنا پڑا .
اس کی ارتھی کو آگ کیوں نہیں لگ رہی تھی ؟کیونکہ وہ قرآن کا احترام مسلمانوں سے بھی بڑھ کر کرتا تھا۔ بات کچھ یوں ھے کہ تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے . پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے. دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا. نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی.
دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا.
وقت گزرتا رھا طباعت و اشاعت کا کام جاری رھا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ھوئی۔ مسلمان ھندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاھور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔
ان کے ادارے نے دلی میں بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وھی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھے ھوگئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسلہ اسی طرح قائم رکھا۔
آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ھاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ھونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے۔ ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ھوا۔ نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رھی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہین ھوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہین لگ رھی۔
مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رھے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شماشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔
اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہین ھو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ھے جیسے احترام کیا ھے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ھی نہیں سکے گی چاھے آپ پورے ھندوستان کا تیل گھی چتا پر ڈال دیں۔
اس لئے بہتر ھے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئیے۔ چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتے ھوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ھندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا ۔

About The Author