مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روشنی کب آتی ہے؟۔۔۔ملک سراج احمد

اگر روشنی کا یہی معیار ہے تو ہماری حکمران اشرافیہ کی آنکھوں کے اندھیرے کب دور ہوں گے۔اقتدار کے ایوانوں کے خوابیدہ محلات کی نیم روشن خواب گاہوں میں مکمل روشنی کب ہوگی۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روشنی کب آتی ہے؟
کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی نے اپنے حلقہِ ارادت میں بیٹھے ہوئے مُریدوں سے پُوچھا ” روشنی ” کب آتی ہے ؟؟؟ ایک مُرید نے بڑے ادب سے جواب دیا : حضرت” جب سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق نظر آنے لگے یہی روشنی ہے” دوسرے مُرید نے عرض کی "ُحضور جب دُور کے درختوں کو دیکھ کر معلوم ہوجاۓ کہ بیری کا درخت کونسا ہے اور شیشم کا درخت کونسا تو سمجھیئے یہ روشنی ہے۔
مُرشد نے یہ جواب سُن کر دیگر حاضرین کی طرف نظر دوڑائی،کسی اور کے پاس کہنے کو مزید کُچھ نہ تھا ،اس پر مُرشد نے ارشاد کیا جب تُم ضرورت مند کے چہرے پر اُس کی ضرورت پڑھ سکو تو جان لو کہ”روشنی آ چُکی ہے۔
اگر روشنی کا یہی معیار ہے تو ہماری حکمران اشرافیہ کی آنکھوں کے اندھیرے کب دور ہوں گے۔اقتدار کے ایوانوں کے خوابیدہ محلات کی نیم روشن خواب گاہوں میں مکمل روشنی کب ہوگی۔کب اتنا اجالاہوگا کہ مسند نشین حاکم کی آنکھیں بائیس کروڑ ضرورت مندوں کے چہروں پر اُن کی ضروریات کو پڑھ سکیں گی۔کوئی ان محلات کے مشعل برداروں سے کہے کہ اپنی مشعلوں کی لو کو زرا اونچا کریں تاکہ کچھ روشنی ہو کسی کو کچھ دکھائی دے۔
زیادہ روشنی درکار نہیں ہے بس اتنی ہی روشنی چاہیے کہ ظل الہیٰ کو چہروں پر لکھی ضرورتیں نا سہی کم سے کم انسانی چہرے ہی دکھائی دینے لگ جائیں۔بدنصیبی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوے عوام کو اتنا بھی بہت ہے ۔یہی تسلی یہی دلاسہ بھی بہت ہےکہ ان کا ناخدا ان کو دیکھ سکتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ کسی دن میرے حاکم کے دل میں رحم آجائے اور وہ ان چہروں کو غور سے دیکھ لے اور شائد وہ ان چہروں پر لکھی ہوئی ضرورتیں بھی پڑھ لے۔
عصر حاضر میں اقتدار کو آسمانوں کا تحفہ سمجھنے والے جب تک صاحب مسند کو نائب خداوند سمجھتے رہیں گے یہی کچھ ہوتا رہے گا۔کسی بھی صاحب مسند کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔چاہے جتنی بھی روشنی کرلو بدنصیب چہروں کی ضرورتوں کو پڑھنے کے لیے یہ روشنی ناکافی ہوگی۔کیونکہ یہ تو لفظی ریاست مدینہ ہے۔حقیقی ریاست مدینہ میں تو ایک عام شخص کھڑا ہوکر خلیفہ کی پہنی ہوئی قمیض پر سوال اٹھاتا تھا کہ مال غنیمت کے کپڑے سے میری قمیض تو نہیں بن سکی آپ کی کیسے بن گئی اور خلیفہ اس پر جوابدہ ہوتے ہوئے جواب دیتا تھا۔
یہ روشنی کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے ۔بلکہ یہ روشنی یہ اجالا بلا رنگ ونسل اور مذہب کے انسانی شعور کا معاملہ ہے ۔جس وقت برصغیر کا ایک بادشاہ اپنی محبوب ملکہ کی دوران زچگی وفات پر تاج محل تعمیر کرا رہا تھا اسی عہد میں یورپ کا ایک بادشاہ اپنی ملکہ کی دوران زچگی وفات کی وجوہات تلاش کررہا تھا ۔یہ تھا شعور کا فرق کہ ایک بادشاہ نے بے فائدہ اور بے مصرف تاج محل تعمیر کیا اور دوسرے نے زچگی کے بہتر طریقہ کے لیئے نرسوں کی تربیت کا ادارہ قائم کیا ہسپتال بنائے۔وقت نے ثابت کیا ہے کہ تاج محل بننے والے برصغیر میں چاہے اب یہ خطہ کئی ملکوں میں تقسیم ہوچکا ہے انسان قابل علاج بیماریوں کے باوجود مررہے ہیں جبکہ یورپ میں انسانوں کو بہترین طریقہ علاج دستیاب ہے۔
حاکم وقت سے گلہ کی تاریخ بھی کم وبیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ پرانی ہے ۔کیا یہ ضروری ہے کہ روشنی صرف محلات میں ہو اور حاکم وقت کو ہی انسانی چہروں پر ضرورت نظر آسکے ۔اتنی روشنی کیوں نا ہو کہ انسان ایک دوسرے کے چہروں پر لکھی ضرورتوں کو پڑھ سکیں۔ ایک دوسرے کی تکالیف کا اندازہ کرسکیں ۔اور کچھ نہیں تو اتنا تو اجالا ہو کہ جب آئینہ دیکھیں تو اپنے چہرے کو ہی ٹھیک طرح سے دیکھ سکیں اور ضرورتوں کا اندازہ کرسکیں۔
جس دن اتنی روشنی ہوگئی کہ ہم ایک دوسرے کے چہروں کو غور سے دیکھ سکیں گے اور ان پر لکھی ہوئی ضرورتوں کو سمجھ سکیں گے تو شائد محلات اور ایوان اقتدار کے اندر بھی روشنی بڑھ جائے گی۔اس لیئے پہلے ہمیں خود محرومی ، پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں سے نکلنا ہوگا۔اپنے حق کے لیئے بولنا ہوگا اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہر اس نقش کہن کو مٹانا ہوگا جو تاج محل کی طرح ہمارے اعصاب پر سوار ہے۔
زرخیز زمینوں ، میٹھے پانی کے دریاوں اور بہترین موسموں کے باوجود اگرہم بھوک اورافلاس کا شکار ہیں تو یہ کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا قصور ہے ۔زاتی مفادات کی خاطر ہر بیرونی حملہ آور کو خوش آمدید کہنے کی روایت اب ترک کرنی ہوگی۔اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے ہمیں خود روشنی کرنا ہوگی ۔ظلم اور جبر کے اندھیرے جتنے گہرے ہوں فرق نہیں پڑتا ۔پو پھٹے گی اور ضرور روشنی ہوگی۔
رہی بات مسند نشین حاکم کی تو سمجھنے کی ضرورت ہے تھوڑا ساتاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔بہترین مثال نا سہی مگر سمجھانے کی خاطر ضروری ہے کہ مغل ایمپائر کے بانی اکبر اعظم کی جدوجہد سے حاصل کی گئی حکومت اور اسی کے جانشین محمد شاہ رنگیلا کی تخت نشینی اور طرز حکمرانی میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
تقسیم کے وقت بننے والے ملک کے بانی کے جذبے اور حالیہ سیاسی عہد کے مسند نشین کی طرز حکمرانی میں دن اور رات کا فرق ہے۔سوچ کا فرق ہے عمل کا فرق ہے۔یاد رہے کہ جب تک حاشیہ برداروں ، مفاد پرست درباریوں اور سپہ سالاروں کی پشت پناہی سے رنگیلے برسراقتدار آتے رہیں گے حالات نہیں بدلیں گے روشنی نہیں ہوگی کبھی اجالا نہیں ہوگا ۔ حالات کی تلخیاں اور سختیاں کالک بن کر ہمارے چہروں کو سیاہ رنگ کردیں گی اور بدنصیبی کی اماوس راتوں میں ہمارے یہ کالے چہرے کسی کو نظر نہیں آئیں گے چاہے کوئی جتنی ہی روشنی کرلے چاہتے مشعل کی لو جتنی اونچی کرلے۔
تحریر : ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

%d bloggers like this: