حسن مرتضٰی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول آگے جا رہا ہے ۔ دارا جو اپنے علی پور کی ٹریجڈی ، شاہ بانو جیسی ماں کے ساتھ ہوئے ظلم کو ساتھ لیے وقت کے دھارے میں سفر کررہا ہے اس کےلیے ابھی سب کچھ بے معنی سا ہے سوائے لالین کی محبت کے۔
بے نظیر کی راولپنڈی آمد جس کے سبب پسے ہوئے طبقات کے نمائندہ حلاجی بہت ہی پرجوش ہیں دارا پر اتنا اثرانداز نہیں ۔ فلحال اس کےلیے لالین کی محبت ، اس کے فیورٹ کلرز میں اس کا نام ، موبائل میں اس کی خوبصورت فوٹو بہت اہم ہے۔ دوسری طرف پروفیسر عمر اور دیگر حلاجیوں کے ساتھ اس کا نظریاتی تعلق اور اس کی آزاد خیال سوچ اسے بلکل غیر سیاسی بھی نہیں ہونے دیتی۔
شاید وہ تھک چکا ہے۔ وہ تسلسل ہے ضیا الحق کی ڈالر جہاد پالیسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے المیوں کا ۔ اور اس سب سے فرار کا راہ لالین کے ساتھ دور کہیں جا کر ڈیرہ ڈالنے میں ہے جہاں کوئی سیاسی شور نا ہو، کوئی لاؤڈ اسپیکرز سے آتیں بے ہنگم آوازیں نا ہوں، وردی پوش سپاہی ، مدرسے اور فوجی گاڑیاں بھی دکھائیں نا دیں ۔
دوسری طرف کرنل برق اور اس کے فوجی بیٹوں کی منافقانہ مذہب پرستی جو اپنے ہر عمل کا جواز رکھتے ہیں ۔ یوسف جو خود آرمی افسر ہے اور انٹیلی جنس میں کام کرتا ہے ۔ کس قدر تکبر اور رعونت سے حلاجیوں کا مذاق اڑاتا ہے ، بنگالیوں کو گالیاں دیتا ہے ، بے نظیر کی شکل میں عورت کی حکمرانی کو ناقص اور امریکی ایجنڈا سمجھتا ہے ۔ جب کے آگے وہ خود اس دانش پر فخر کرتا ہے جو اسے امریکہ میں وار کورس کے دوران امریکیوں نے دی وہ بھی امریکی پیسے پر۔
بے نظیر کا مذاق اڑاتے ، بریلویوں کے معاملے میں بھی اتنے ہی متنفر ہیں ۔ شیعہ کے جلوس انھیں ایک فضول اور احمقانہ ایکٹویٹی لگتے ہیں۔ آخر میں یوسف یہی تھیوری پیش کرتا ہے کہ یہ عوام ہیں ہی تماش بین جن کو چند سالوں بعد نیا تماشہ چاہیے. ہاں انقلاب بس وہی ہے جو 1400 سو سال پہلے آچکا ۔
دسویں باب تک سفر مکمل ہوا۔ زیدی صاحب نے خوبصورتی کے ساتھ پاکستانی اداروں میں ضیا کی باقیات کی مینٹیلٹی اور ان کا طریقہ واردات بتایا ہے ۔ جو سب کو قتل کرنے کا جواز بھی پیش کرسکتے ہیں ۔ نفرت کا جواز بھی ان کے پاس موجود ہے ۔ اور مدرسے کے بچوں سے بدفعلی کا جواز بھی موجود ہے ۔ یہ منہ زور طبقہ بظاہر منہ زور ہے ۔ مگر سب جانتے ہیں کہ ان کی پشت پناہی کون کرتا ہے۔ ناول بہت سے سوالوں کے جواب بھی دے رہا ہے اور پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی سامنے اداروں کی بے بسی کا بھی جواب بھی انھیں صفحات میں موجود ہے۔
بہت جرات کی بات ہے کہ کوئی اس قدر کھل کر بات کررہا ہے ۔ ناول محض مذہبی جنونیت پرستوں اور حلاجیوں کے درمیان مکالمے تک محدود نہیں ۔ بلکہ سوسائٹی کو انتہا پسندی کی جال میں لپیٹنے کی پوری داستان بیان کرتا ہے ۔ اور دوسری طرف دارا کی بے چین محبت اور اضطراب اسے کو بھرپور رومانوی رنگ بھی دے رہا یوں دلچسپی کم نہیں ہوتی ۔
دارا خود کلامی میں کیا گیا طاقتور اعتراف کہ محبت دنیا فتح کرنے کی شکتی تو دیتی ہے مگر دوسری طرف کمزور بھی کردیتی ہے۔ ہر شے سے بے نیاز دارا دعا مانگتے ہوئے بھی لالین کا چہرہ تصور میں دیکھتا ہے ۔ جو اس کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔
کیفے منیر ، لیاقت باغ اور علی پور کو لیے پاکستانی شہری سماج میں جہادی انتہا پسندی اور اس میں اداروں کے ملوث ہونے کے عمل کو بیان کرتے ہوئے ناول ایک اس نظریاتی اقلیت کی المناک داستان بھی ہے جو قلیل ہونے باوجود مساوات ، عوامی حکمرانی اور مذہبی ہم آہنگی کا خواب دیکھتے ہیں ۔ اور شاید انجام سے آگہی کے سبب حلاجی کہلائے جاتے ہیں۔
دیکھتے ہیں کہ ناول 27 دسمبر کی المناک شام اور دردناک قتل عام کی طرف بڑھتے ہوئے مزید کونسی کہانیاں کھول کر سامنے لاتا ہے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی