کہتے ہیں گانے والوں کو جن چیزوں سے پرہیز ہوتا ہے، مثلاً کھٹائی وغیرہ، وہ اپنے سامنے بچوں کو کھلا کر خوش ہو لیتے ہیں۔
ہم جس شعبے میں رہے ہیں وہاں عام فہم زبان لکھنے کا جاری حکم ہے۔ ایک بار تو متضاد لکھنے پر بھی اعتراض ہوا، اس کی جگہ الٹ لکھنے کے لئے کہا گیا۔ ایسے ہی ایک ادارے میں تو ہدایت تھی کہ ایسی زبان لکھیں کہ آٹھ جماعتیں پڑھی گھریلو عورت بھی سمجھے۔
سو ہماری تو اچھی، بنی سنوری زبان لکھنے کی عادت ہی نہیں رہی لیکن ردعمل میں مرصع زبان اور اچھے اسلوب والی تحریروں میں دلچسپی بڑھ گئی۔ شورش کاشمیری سے اظہر سہیل اور ہارون الرشید اور انتظار حسین سے وجاہت مسعود تک کو اسی لیے بھی پڑھا۔ اتفاق ہونا یا نہ ہونا الگ بات رہی۔ نذیر ناجی، بینظیر دور میں نوائے وقت میں جو کالم لکھتے رہے، ان سے اتفاق قطعی نہیں ہوتا تھا لیکن اس وقت ان کی کرافٹ عروج پر تھی، اس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ وجاہت مسعود سے بالعموم اتفاق ہی رہا ہے لیکن کچھ عرصے سے انہوں نے جن سے لو لگائی ہے، ان پر ہمیں اعتبار نہیں۔ بہرحال پڑھتے تو انہیں ضرور ہیں۔
عرصے بعد ایک اور لکھنے والی سامنے آئی ہیں جن کی عمدہ زبان نے چونکا دیا۔۔۔۔ اور ان کے نقطہ نظر سے بھی اکثر وبیشتر اتفاق نکلا۔
یہ ہیں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی۔ وہ کوئی ڈیڑھ سال سے ویب سائٹ ہم سب پر لکھ رہی ہیں۔ انہوں نے متنوع موضوعات پر لکھا ہے لیکن ہمیشہ feminist نقطہ نظر سے۔ مجھے افسوس رہا کہ ان کی تحریروں پر میری نظر بہت بعد میں پڑی۔ لیکن ایک ڈیڑھ ماہ پہلے یہ اطمینان بخش خبر ملی کہ ان کی تحریروں کا مجموعہ چھپنے والا ہے۔
اب یہ مجموعہ” کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ ” کی صورت میں میرے سامنے ہے۔ اس میں ان کے ستر کے قریب مضامین / کالم شامل ہیں اور بیشتر وہ جو میں ان سے متعارف نہ ہونے کی وجہ سے پہلے نہیں پڑھ سکا تھا۔
ان مضامین میں کئی جگہوں پر وہ محاورے پڑھے جو کہیں بچپن میں اپنی مظفر نگر یوپی سے تعلق رکھنے والی پڑوسن چچی صفیہ یا پھر ساتویں جماعت میں اپنے حیدرآباد دکن کے مہاجر استاد سے سنے تھے۔ میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر طاہرہ کے والدین بھی یوپی کے ہوں گے لیکن یہ معلوم ہونے پر حیرت ہوئی کہ وہ دونوں پنجاب کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
ڈاکٹر طاہرہ نے سکول، کالج کی تعلیم پنڈی میں اور میڈیکل کی لاہور میں حاصل کی۔ پھر اٹھارہ سال پنجاب میں ہی ملازمت کر کے اس کا حق ادا کیا۔ اس کے بعد عرب ملکوں میں رہی ہیں۔ یوں زبان پر یہ عبور اور سوچ کی پختگی انہوں نے اسی دوران ذاتی مطالعے سے حاصل کی۔
کتاب کے مضامین کی فہرست سے ان کے موضوعات اور اسلوب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بیشتر مضامین انہوں نے اسی دن کے کسی واقعے یا بیان پر یوں سمجھیں، فی البدیہہ لکھے۔
میری اہلیہ پروفیسر مسرت کلانچوی فاطمہ جناح کالج میں ویمن اینڈ جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ بھی رہیں۔ اس دوران نصاب کی تیاری، امتحانات اور مختلف سرگرمیوں کے حوالے سے میٹنگز میں یونیورسٹیوں کے ایسے شعبوں کی پروفیسرز اور ایکٹویسٹ خواتین سے ملاقاتیں رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پروفیسرز تو بیشتر کیرئیرسٹ تھیں، ان کی کوئی کمٹمنٹ نہیں تھی اس مضمون کے ساتھ (بالکل اس طرح جیسے ہمارے بائیولوجی، فزکس وغیرہ کے استاد لیکچر کے آخر میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو سائنس ہے، لکھنا آپ نے یہی ہے، لیکن ہمارا دین اس بارے میں کچھ اور کہتا ہے) اور ایکٹویسٹ بھی اکثر محض نعرے باز تھیں یا کسی این جی او کی نوکری سے مجبور۔۔۔۔ لیکن ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی کتاب پڑھ کر مسرت کلانچوی نے کہا کہ اس خاتون کی تحریروں کے پیچھے اس کا دل اور دماغ دونوں ہیں۔
پروفیسر کی رائے کے بعد اب ہماری رائے کی کیا اہمیت ہے۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ کتاب پڑھ کر لطف اندوز ہوا۔
“کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ” لاہور کے سانجھ پبلشرز (03314686276) نے شائع کی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر