سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونچے عہدوں اور بڑے منصبوں والے یہ سرو کے درخت دردِ دل سے عاری اور انسانیت سے خالی ہیں۔ کورونا سے ہر روز لوگ مولی اور گاجر کی طرح کٹتے جا رہے ہیں لیکن یہاں پر بےحسی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا کہ پاکستانیوں کو ویکسین کب ملے گی؟ کتنا عرصہ لگے گا۔
کیا ضروری نہیں تھا کہ ملک کے سارے وسائل، ساری توانائیاں ویکسین کو لا کر پاکستانیوں کو محفوظ بنانے پر خرچ کی جاتیں مگر مجال ہے کہ مراعات یافتہ سرو کے درختوں کے کانوں پر جوں تک بھی رینگی ہو۔
کورونا کی چند ہی منٹ کے اندر تشخیص کے لئے انالائزر غیرملک نے تحفے میں دیے، یہ سارے سرو نما افسروں کے گھروں کی زینت بن گئے۔
دنیا میں ویکسین لگانے کے لئے کیٹیگریز بنائی گئی ہیں، پہلے ڈاکٹروں اور 80سال سے اوپر کے معمر افراد کو ویکسین لگائی جا رہی ہے کیونکہ اُنہیں کورونا کے حملے کا خدشہ زیادہ ہے۔ جبکہ ہمارے تضادستان میں سارے سرو دھڑا دھڑ ویکسین لگوا چکے ہیں اور گھاس پھونس یعنی عام لوگ اِس بیماری میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں جس ملک میں غریب اور امیر سرو اور گھاس پھونس، مراعات یافتہ اور غیرمراعات یافتہ، افسر اور نوکر، حکمران اور رعایا کا فرق اِس قدر ہو اُس ملک کا کامیابی سے چلنا محال ہوتا ہے۔
کیا سرو کے درختوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کو غریب اور لاچار کی بارش میں چھت ٹپکنے کا خیال پریشان کر دیتا ہو؟ کیا ایک بھی سرو ایسا نہیں جسے گھاس پھونس کو خوراک نہ ملنے کا آئیڈیا پریشان کرتا ہو؟ کیا مراعات یافتہ اور حکمران طبقہ میں ایک بھی ایسا نہیں جسے مہنگائی اور بےروزگاری کا مسئلہ پریشان کرتا ہو؟
کیا اونچے عہدوں والوں میں ایک بھی ایسا نہیں جسے رات کو ملک میں ہونے والی ناانصافیوں پر نیند نہ آتی ہو؟ بظاہر تو یونہی لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ اور حکمران طبقہ غیردانش مند اور نا مہربان ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ملک کی سمت کا تعین ہی ٹھیک طرح نہ ہو۔
سچ کہنے دیجئے کہ اِس وقت ملک پر اختیار رکھنے والے لوگ معاشی اور سماجی مسائل تو ایک طرف ملک کے سیاسی مسائل پر بھی سنجیدگی سے نہ غور کر رہے ہیں اور نہ ہی اُنہیں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ اگر وہ اپنے وقتی فائدوں اور مراعات سے باہر نکل کر سوچیں تو سیاسی مسائل کو حل کرنے کا انہیں ہی دور رس فائدہ ہو گا۔
ملکی حالات پر جتنا غور کریں اتنا ہی سرو اشرافیہ پر افسوس ہوتا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا منتخب ادارہ پارلیمان موجود ہے مگر اس کی حیثیت گھاس پھونس والی ہو چکی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت پارلیمان میں مل بیٹھنے اور ملک کے مسائل کا حل نکالنے کو تیار ہی نہیں لگتے۔
پارلیمان کا اجلاس اس لئے بلایا نہیں جا رہا کہ جیلوں میں پڑے اراکین کو بھی لانا پڑے گا اور قانون سازی اس لئے نہیں کی جا رہی کہ اپوزیشن کی بھی سننا پڑے گی، لگتا یوں ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر جیسی متوازن شخصیت بھی حکمران جماعت کے دبائو میں آ کر اپنی کوششیں چھوڑ چکی ہے، اپوزیشن اب اسپیکر کے ساتھ ایجنڈے پر بات کرنے تک کو تیار نہیں۔ ڈیڈ لاک ہے، مکمل ڈیڈ لاک!!
کیا ایسے میں ضروری نہیں کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان فیصلہ کن طاقتیں ملک و قوم کی بہتری کے لئے کوئی کردار ادا کریں؟ کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے پارلیمان کی ناکامی کا حشر دیکھتے رہیں گے؟ کیا سرو کے درخت، گھاس پھونس کی تباہی و بربادی کا منظر یونہی دیکھتے رہیں گے؟ کیا اشرافیہ کے یہ لوگ، غریب عوام کی عسرت اور بےبسی کا یونہی تماشا دیکھتے رہیں گے؟
کیا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کا یونہی نظارہ کیا جاتا رہے گا اور کوئی بھی اپنا مثبت اثر اِس صورتحال کو بہتر کرنے میں نہیں ڈالے گا؟ اگر معاملہ یونہی چلتا رہا تو تاریخ سرو کے ان بےفیض درختوں پر نوحہ ضرور لکھے گی اور نظام کا خون ہونے کا الزام بھی انہی پر دھرا جائے گا۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیاست سے سرو کا کیا تعلق؟ کیا پینٹا گون مثبت مشورے نہیں دیتا؟ سیاست پر جرنیل بھی دنیا بھر میں بات کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے سرو کا جب جی چاہتا تھا تو وہ کسی کو ہرانے یا جتانے کیلئے اپنا زور لگاتا رہا ہے۔ کبھی کسی کو جیل میں ڈالتا رہا ہے اور کسی کو زندان سے آزاد کرکے مراعات بھی دیتا رہا ہے۔
1985اور 2002کی اسمبلیوں اور حکومتوں کی مثالیں اظہر من الشمس ہیں۔ اب بھی سرو کو شجر سایہ دار سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اگر سسٹم چل گیا تو سرو بھی سب سے اونچا اور بھرا پُرا لگے گا۔ اگر گھاس پھونس مر گیا، سیاست کا جنگل اجڑا رہا تو سرو کے پتے بھی زرد ہو جائیں گے۔
کہتے ہیں کہ سرو کے درخت سنٹرل ایشیا سے لا کر اگائے گئے۔ تاریخ کہتی ہے کہ مغل بادشاہ چہار باغوں اور شالیمار باغوں میں سرو کے درخت اس طرح سے لگاتے تھے کہ اونچے قد کے سرو قطار اندر قطار نظر آئیں گے مگر سرو اس طرح سے لگائے جاتے تھے کہ گھاس پھونس کی ہریالی پر ان کے قد کا اثر نہ پڑے۔
بدقسمتی یہ ہو گئی ہے کہ ہمارے نظام کے سرو قد کے تو لمبے ہیں لیکن باغ میں اپنے لمبے قد کا حسن اسے لوٹانے کو تیار نہیں۔ سرو کے اردگرد جھاڑیاں نہ ہوں، پھول پودے نہ ہوں، برگد اور پیپل نہ ہو تو اکیلا سرو انتہائی بھدا اور لم ڈھینگ نظر آتا ہے۔
اس ملک میں موجود سرو کے درختوں کو باغبانی کا یہ سبق یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ باغ کی ہریالی کو فروغ دے کر خود بڑے نظر آ سکتے ہیں جس طرح آج کل سیاسی باغ ویران اور اجڑا ہوا لگ رہا ہے۔ ایسے میں سرو کا درخت لاکھ لمبا ہو وہ حسین ہرگز نظر نہیں آ سکتا۔
پاکستانی اقتدار اعلیٰ نے اگر تاریخ میں اپنا نام روشن رکھنا ہے تو انہیں سیاسی نظام کو چلانے کے لئے ایڈوائس اور مدد دینا ہوگی۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ سرو کا سیاست سے تعلق نہیں، سیاست ہو گی تو نظام ہو گا، سرو بھی نظام کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر