مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظریف ماموں بھی رخصت ہوئے۔ وہ میرے سگے ماموں نہیں تھے لیکن محبت ویسی ہی کرتے تھے۔ دور کے رشتے دار تھے، یعنی ہماری نانی اماں کے کزن کے بیٹے۔ اب کون ایسے رشتے یاد رکھتا ہے۔ لیکن سلوک اچھا ہو تو کوئی بھولتا بھی نہیں۔
ظریف ماموں کی کئی باتیں انوکھی تھیں۔ ایک ان کی منفرد اور تھوڑی چبھتی ہوئی آواز۔ لیکن لہجہ نرم اور الفاظ شائستہ۔ دوسرے ان کا پان۔ شاید گھر کا پان کھاتے تھے۔ ہونٹ ہمیشہ سیاہی مائل لال رہتے اور دائیں ہاتھ کی انگلیاں بھی۔ تیسرے ان کے ڈبو کھیلنے کا انداز۔
ڈبو کیرم جیسا کھیل ہوتا ہے لیکن اس کا بورڈ، اسٹرائیکر اور گوٹیاں بڑی ہوتی ہیں۔ سب لوگ اسٹرائیکر کو، جسے ڈبو کہتے ہیں، درمیانی انگلی کو لٹاکر پھینکتے ہیں۔ ظریف ماموں کیرم کی طرح اس انگلی کو ترچھا کرکے ڈبو پھینکتے تھے۔ میں نے کسی اور کو اس طرح ڈبو کھیلتے نہیں دیکھا۔
یاد آرہا ہے کہ بچپن میں ایک بار ان کے گھر پر فلمیں بھی دیکھی تھیں۔ یہ مڈ ایٹیز والا زمانہ تھا جب عام طور پر ویک اینڈ پر وی سی آر کرائے پر لیا جاتا اور رات بھر میں تین فلمیں دیکھی جاتیں۔ مجھے اس دن دیکھی ہوئی دو فلمیں یاد ہیں۔ ڈون اور دا گریٹ گیمبلر۔ دونوں میں امیتابھ بچن کا ڈبل رول تھا۔
ادھر فلم ڈون میں امیتابھ کھئی کے پان بنارس والا گارہا تھا اور ادھر ظریف ماموں مسکرا مسکرا کے نجمہ باجی کے ہاتھ کا بنا ہوا پان چبا رہے تھے۔ پتا نہیں کیوں ہم ظریف ماموں کو تو ماموں کہتے تھے لیکن ان کی بیوی نجمہ کو باجی۔
ظریف ماموں کی نوکری لگتی چھٹتی رہتی تھی۔ پاکستان کا سب سے بڑا پریس ان کے بہنوئی ابن حسن کا تھا۔ انھوں نے وہاں بھی کام کیا لیکن پھر دوسرے اداروں میں کام کرتے اور چھوڑتے رہے۔ میں نے 1995 میں اپنی پہلی کتاب کسی پبلشر سے نہیں چھپوائی تھی بلکہ خود چھاپی تھی۔ خود لکھی، خود پروف پڑھے، سامنے کھڑے ہوکر کاپی پیسٹنگ کروائی، خود کاغذ خریدا، پریس پہنچایا اور بائنڈنگ کروائی۔
اس کام میں ایک دن ظریف ماموں نے بھی مدد کی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پریس میں کیسے کام ہوتا ہے، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک پریس میں لے گئے اور سارا عمل دکھایا۔ پلیٹیں کیسے اور کتنی طرح کی بنتی ہیں، پرنٹنگ مشینیں کیسی ہوتی ہیں، کون سی انک استعمال کی جاتی ہے، انھوں نے بتایا۔
وہ پریس انکوائری آفس ناظم آباد میں تھا۔ اس علاقے میں متعدد پریس تھے اور ان میں کئی شیعوں کے تھے۔ شیعہ کارکن بھی کام کرتے تھے۔ ایک وقت آیا کہ سپاہ صحابہ کے قاتل آئے دن وہاں گشت کرنے لگے اور ایک ایک کرکے بہت سے شیعوں کو قتل کیا۔ پتا نہیں اب وہاں پریس ہیں یا نہیں۔
ذکر ماموں ظریف کا ہورہا تھا اور نجمہ باجی کا۔ شوہر بیروزگار ہوتے رہتے تھے۔ نجمہ باجی نے کپڑے سینے شروع کردیے۔ میں بچپن میں جب بھی ان کے گھر گیا، انھیں قینچی چلاتے یا سلائی مشین کا پہیہ گھماتے ہی دیکھا۔ امی نے بھی کئی بار ان سے کپڑے سلوائے۔
اس باہمت خاتون نے گھر بھی چلایا، بچوں کو بھی پڑھایا اور بیٹیوں کی شادی بھی کی۔ بیٹے بھی کمال کے نکلے۔ ٹین ایجر تھے کہ کمانے میں لگ گئے۔ پھر ماں باپ سے کہا کہ اب بس۔ آپ کام نہیں کریں گے۔ جلدی گھر سنبھال لیا۔ محمد علی اور اسد کو بہت شاباش۔
اب میں پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو وہ گلی خالی دکھائی دیتی ہے۔ کارنر والے مکان میں ہم کرائے پر رہتے تھے۔ مالک مکان بڑے ابا اور کاکا کے انتقال کو ایک زمانہ ہوا۔ سامنے والے گھر میں خالا شہزادی رہتی تھیں جو پی ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرتی تھیں۔ وہ بھی جاچکیں۔ ساتھ والا گھر رونق حسین صاحب کا تھا جو میرے دوست علی رضا کے والد تھے۔ وہ بھی ہم میں نہیں۔ پھر بالے بھائی کا گھر تھا جو محکمہ کسٹمز کے ملازم تھے۔ ان کا بھی انتقال ہوچکا۔
اسی گلی میں اچھی بھائی کے والد بھائی مسرت ٹہلتے نظر آتے تھے جنھیں پتنگ بازی کا شوق تھا۔ وہیں میری ممانی کی بہن ملکہ باجی اور معصوم بھائی رہتے تھے۔ معصوم بھائی کا عین میری شادی کے دن انتقال ہوگیا تھا۔ ڈئیر بھائی ان کے پڑوسی تھے۔ سامنے پروفیسر کاظم رہتے تھے۔ ان کے ہمسائے گھوڑے شاہ تھے جن کا نام مجھے آج بھی معلوم نہیں۔ گھوڑے شاہ اس لیے مشہور ہوئے کہ ذوالجناح پالتے تھے۔ یہ سب لوگ اب یادیں بن چکے ہیں۔
اس گلی میں جنگ گروپ کے ماضی اور مستقبل کے پانچ کارکن رہے اور سب امروہے کے۔ بالے بھائی کا بیٹا سجاد اور ظریف ماموں کا بیٹا اسد دونوں جیو میں کیمرامین ہیں جبکہ محمد حسین کاتب اور تصویب بھائی کتابت کرتے تھے۔ کتابت کا دور ختم ہوا تو محمد حسین صاحب نے انچولی شادی کارڈ کے نام سے مشہور کام کا آغاز کیا جسے ان کے بچوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ فٹبال کھیلنے کے شوقین تھے۔ امروہا فٹبال کلب کے لڑکے شام کو پریکٹس کرنے میدان میں آتے تو وہ بھی نیکر پہن کر ان کے ساتھ کھیلتے۔ امروہا کلب کے کپتان پاکستان فٹبال ٹیم کی نمائندگی کرنے والے عارف رضا تھے۔ ہائے ہائے عارف بھائی یاد آگئے۔ کتنے پیارے اور بھلے آدمی تھے۔ نوجوان بیٹے کی موت کا غم سہا اور خود بھی زیادہ نہیں جی سکے۔
جنگ کی شہہ سرخی لکھنے والے بھائی تصویب جنگ سے ریٹائر ہوئے اور اخبار جہاں میں ملازمت اختیار کرلی۔ جنگ کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے اکثر دکھائی دیتے۔ سلام دعا ہوجاتی۔ بھائی تصویب کا ابھی کچھ روز پہلے ہی انتقال ہوا ہے۔
جانے والوں کو یاد کررہا ہوں تو ریحان عادل شامی کا بھی ذکر کردوں۔ جیونیوز کے ویڈیو ایڈیٹر تھے۔ دبئی میں بھی ساتھ کام کیا۔ لمبے چوڑے بھاری بھرکم آدمی۔ غصہ کرنا آتا تو بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتے۔ لیکن نہیں آتا تھا۔ میٹھی اور ہنستی مسکراتی شخصیت۔ میں نے سو لفظوں کی کہانی شروع کی تو انھیں آئیڈیا پسند آیا۔ خود بھی سو لفظوں کی کہانیاں لکھنے لگے۔ ان کے ایک آئیڈیے پر میں نے کہانی لکھی اور کتاب میں ان کا نام لکھ کر اعتراف کیا۔ وہ ریحان بھائی کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے۔ فیس بک سے معلوم ہوا کہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور پھر انتقال کی خبر ملی۔
کہانیاں کہنے والے اور سننے والے آخر میں خود بھی کہانیاں بن جاتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر