وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے شاعری سے خصوصی شغف ورثے میں ملا ہے۔ بچپن ہی سے علامہ اقبال، مرزا غالبؔ، اکبر الہ آبادی اورمیر تقی میر کا مداح رہا ہوں۔ میں شعر و شاعری پڑھنا اور سننا دونوں پسند کرتا ہوں قطع نظر اس سے کہ شاعری اردو، انگریزی یا سرائیکی زبان میں ہو۔میر، غالب، داغ سے لے کر آج کے جدید دورتک، ہر دور میں شعرا نے اسی دور کی ترجمانی کی ہے اور غزل کو نئے نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ پھر چاہے وہ میر کا عاشقانہ انداز بیان ہویا پھر فیض احمد فیض کی شکایتی شاعری۔ شاعری نے ہر دور میں عام آدمی کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ہر خاص و عام نے غزل کے شعر میں اپنی زندگی کے آئینے کو بخوبی محسوس کیا ہے۔
کسی بھی شاعر اور ادیب کی تخلیق کا دارومدار اسکے تخیل کی اُڑان پر ہوتا ہے۔ وہ اپنی سوچ کو پَر لگا کر تخیل کی اُڑان کو ہموار بناتا ہے اسکا قلم اسکی اعلیٰ پرواز کا گواہ ہوتا ہے۔محترم شہاب صفدر صاحب کا قلم بھی انکی اعلیٰ ذہنی سطح اور اونچی پروازکا گواہ ہے۔ پروفیسر شہاب صفدر کے پہلے چار شعری مجموعوں ” لہریں لیتی پیاس، تکلم، نیلگوں، سبیل ” کو میں نے بار بارپڑھتے ہوئے انکے احساسات و جذبات میں ہر بار شدت کو محسوس کیا ہے اور وہ اپنا مدعا کہیں سادگی سے اورکہیں تشبیہات و استعارات سے مدد لیتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی سے اشعار میں اپنی جذباتی کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ شاعری صرف جذبات کی ترجمانی نہیں ایک فن ایک صناعی بھی ہے۔ شاعر الفاظ کی مدد سے اپنے حسیات و تخیلات، ولولوں، امنگوں اور اپنے تجرباتِ زندگی کو ایک تعمیری عمل کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اسے زبان میں تناسب، موزونیت اور توازن کا اسی قدر خیال رکھنا ہوتا ہے جیسا کہ ایک سنگ تراش کو مجسمہ بنانے میں۔ شاعری کی سوجھ بوجھ اور طبعیت کی حساسیت، تخیلات کی الہامی آمد جب ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو اشعار آپ ہی آپ صفحہ قرطاس پر اپنا جادو جگاتے جاتے ہیں۔ شاعری کی سوجھ بوجھ، طبعیت کی حساسیت اور تخیلات کی الہامی آمد کو اگر یکجا کر کے دیکھا جائے تو یہ تینوں کیفیات ہمیں پروفیسر شہاب صفدر کے تازہ شعری مجموعہ ” گُم گشتہ” میں نظر آتی ہیں۔
"گم گشتہ ” کی پر خلوص عطاء ہونے کے بعدجب قرات شروع کی تو مجھے پروفیسر شہاب صفدر ؔ زندگی اور معاشرے کے بہترین عکاّس نظر آئے ان کی فکر و سوچ کا زاویہ الفاظ کی بندش اور مضامین کی انفرادیت انھیں روایتی شاعروں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی ان کا وہ خاص اسلوب ہے جس کی بنا پرملکی سطع کا ادب پرست قبیلہ ان کو منفرد شاعر اور استادُ الشعراء کہتے ہیں۔ گم گشتہ کی ہر غزل کا ہر شعر پروفیسر شہاب صفدر کا سب کچھ کہہ کر، کچھ نہ کہنے کا فن ہے۔ انہوں نے بہت خوبصورت انداز سے اشارہ، کنایہ، رمز و ایماسے اپنا کام نکالا ہے۔ کم لفظوں میں بہت کچھ کہہ جانے کے پیرایے ہیں، جیسے کوئی شخص، آئینہ خانہ میں ایک چراغ روشن کر دے اور اُس کے پرتو سے، عکس در عکس مناظر پیدا ہوتے چلے جائیں۔ گم گشتہ کا خالق وحدت میں کثرت اور قطرہ میں دجلہ دیکھنے کا ہُنر جانتا ہے۔
اب آئنے سے تعارف ہوا تو بات کھلی
ہوئی ہے ساتھ ہمارے بھی واردات کوئی
ترے حوالے سے اک بات کرنا چاہتا ہوں
میں زندگی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں
بالا اشعار کے علاوہ ایسی کتنی ہی مثالیں پروفیسر شہاب صفدر کے کلام میں مل جائیں گی جوان کے اسلوب و کیفیات کو واضح کرتی ہیں۔ انہوں نے جدید شاعری سے مراد یہ کبھی نہیں لیا کہ جدیدیت میں رومانی شاعری منع ہے بلکہ انھوں نے رومانیت کو نئے لہجے میں پیش کیا ہے:
ڈوبا رہتا ہے اماوس کی اداسی میں شہاب
اب وہ ماہتاب لبِ بام کہاں ہوتا ہے
ہر شعر کے ایک ایک لفظ کو چن چن کر دھاگے میں پرونا اوراس کی معنی کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنا پروفیسر شہاب صفدر کی شاعری کی ہمیشہ ہی خاصیت رہی ہے۔ شہاب صفدربے باکانہ اظہار کے قائل ہیں مگر ان کا لہجہ مہذب آدمی کا لہجہ ہے۔ اسی لہجہ میں ڈھل کر کھردرے تجربات بھی ایک جمالیاتی آہنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا تخلیقی عمل جہاں انکے جذبات و احساسات کا مظہر ہے وہاں کے جلو میں ضو فشاں تخلیق کار کی وجدانی کیفیت اوردہشت گردی کی بدولت اپنے ہی وطن میں مہاجر بن کر ہجرت کے ارمان سے مسافرت تک کے جاں پہ گُزرنے والے صدمات کی باز گشت بھی قاری کے قلب و نظر پر گہرے اثرات مُرتب کرتی ہے۔
سب نے دیکھی ہے جو گزری ہے قیامت مجھ پر
ایسے حالات میں واجب ہوئی ہجرت مجھ پر
رونق مٹی مٹی کر دی اک نفرت کی آندھی نے
ورنہ کیسی جگمگ جگمگ نور نہاتی گلیاں تھیں
گم گشتہ کے تمام رنگ قدیم سے ابھرتے ہیں لیکن وہ جن آبشاروں میں نہا کر تر و تازہ ہوتے ہیں وہ آج کا عہد ہے وہ عہد جوان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اپنے پہلے مجموعہ کلام سے لے کر اس گم گشتہ کی رونمائی کے سفر تک شہاب صفدر نے مضامین کی ندرت اور اسلوب کی تازہ کاری سے غزل کی مسلسل آبیاری کی ہے۔میری نظر میں گم گشتہ شہاب صفدر کے ان احساسات کا بیان ہے جو اس سے پہلے لفظوں کی شکل اختیار نہ کر پائے تھے۔ انہوں نے اپنے الفاظ کو چہرہِ حال بنا کر حسن و خوبی سے آراستہ کر کے اس کی نشوونما آبِ تاثیر سے کی ہے۔ گم گشتہ دراصل رنگوں کی ایک دھنک ہے جو صفحات پر بکھرتی چلی جاتی ہے۔اب یہ قاری کے ذوقِ طبع پر منحصرہے کہ وہ تسکینِ دل کے لئے کس رنگ کا انتخاب کرتا ہے۔گم گشتہ میں شامل غزلیں، شہاب صفدر کی فنی پختگی، تازہ کاری اور شگفتگی کا مظہر ہیں۔ ان غزلوں کے ذریعے انہوں نے بحر و بر کی وسعتوں کا سفر کر ڈالا ہے۔ ان کے ذہن و فراست نے شش جہت کی گردش کی ہے۔ انسانی زندگی کو ہر پہلو سے دیکھا ہے پرکھا ہے۔ اس لیے ان کی غزلوں کا ہر شعر دل و دماغ میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کا ادبی حوالہ بہت مضبوط ہے تبھی تو پروفیسر شہاب صفدر کی ادبی زیرک نگاہیں نوجوان شعراء سید قیس رضا اور سید عون رضا پہ جا ٹھہری ہیں اور انکی شاعری میں انکو ڈیرہ اسماعیل خان کا مستقبل نظر آ رہا ہے۔ اسی لیے تو گم گشتہ کے زریعے کہہ رہے ہیں
فسوں گروں کے فسانے گزر نہیں جاتے
گزرتے ہم ہیں زمانے گزر نہیں جاتے
پروفیسر شہاب صفدر خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کی پابندی کی حتیٰ المقدور کوشش کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ طریقت اور معرفت سے بھی ڈھیر آگاہی رکھتے ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مثبت اور اعلیٰ روایت کے امین ہیں۔
اگر اپنی زبان سے جاؤں
جان بہتر ہے جان سے جاؤں
یہ مکاں بھی تو لامکاں سا ہے
کدھر اب اس مکاں سے جاؤں
آسمان و زمیں کا فاصل ہوں
گر نکل درمیاں سے جاؤں
شہرِ قاصر پہاڑپور، شہاب
روز ڈی آئی خان سے جاؤں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر