گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Project Based Learning(PBL)
ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا تعلیم کے میدان میں بھت آگے نکل گئی ھے اور وہاں ہر سال پڑھانے کے نئے تجربے کیے جا رھے سیلیبس تبدیل کیے جارھے ہیں اور ہم بچوں کو الف انار ۔۔ب بندر سے آگے نہیں لے جا سکے۔ ہماری تعلیم کا موجودہ نصاب کبھی بھی اکیسویں صدی کے چیلنجز قبول کرنے کے قابل نہیں۔ دنیا چاند سے آگے ستاروں پر کمند ڈال رہی ھے جبکہ ہمارا تعلیمی نظام کیڑوں کی طرح رینگ رہا ھے ۔۔
ہمارے ماہر تعلیم خواب غفلت میں سوۓ ہوے ہیں ۔ہم بڑے گریڈ حاصل کرنے کے لئے Phd کی ڈگریاں تقسیم کر رھے ہیں مگر ان ڈگریوں سے ملک و قوم کو ککھ بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔کوئی نئی ایجادات سامنے نہیں آ رہیں۔ ۔ ہماری انڈسٹری جانماز تک نہیں بنا سکی اور یہ بھی غیر مسلم بنا کر ہم پر بیچ رھے ہیں۔ ہم نے جو ترقی کی ھے وہ غیبت۔جھوٹ۔ چغلی۔ملاوٹ۔ رشوت۔ کرپشن میں کی ھے ۔ہم نے کپڑے دھونے والے پاوڈر اور یوریا کھاد سے دودھ بنا ڈالا جو شیطان بھی نہیں سوچ سکتا اور قوم کے نونہالوں کو وہ دودھ پلا کر معذور کر دیا۔
ہم گڑ اور کیمیکل ملا کر شھد بنا لیتے ہیں اور معاشرے میں بیچ کر بیماری پھیلاتے ہیں۔ ہم دفتروں میں کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں اور کام نہ کرنے کی حکومت سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ ہم نے سفارش سے وہ ٹیچر بھرتی کر لئے جو سکول جا کر وہ مضامین پڑھانے سے انکار کر دیتے ہیں جن کے لیے بھرتی کیے گیے ۔ہم نے غیر معیاری میڈیکل کالج بناۓ ڈاکٹروں کو جعلی ڈگریاں دیں اور معاشرے میں انہیں علاج کے لیے بھرتی کر لیا کہ وہ پاپولیشن پلاننگ کا کام کرتے رہیں۔ ہمارا محکمہ تعلیم رشوت اور۔سفارش کا گڑھ بن چکا ھے جہاں پڑھانے والے اساتذہ کو ذلیل کیا جاتا ھے اور سفارشی اساتذہ کو نمبردار بنا دیا جاتا ھے۔
سیاستدانوں کی محکمہ تعلیم میں مداخلت اتنی بڑھ گئ تھی کہ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں سیاسی گروپ کھلم کھلا اپنی وابستہ جماعتوں کا کام زیادہ اور ڈیوٹی کم سرانجام دیتے۔ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیۓ متعلقہ عوامی نمائندے فیصلہ کرتے ہیں اور اگر ایجوکیشن افسروں کے ہاتھ ٹرانسفر پوسٹنگ دی جاے تو وہ معماران قوم سے کھلم کھلا رشوت لیتے ہیں۔امتحانی ہال تک بیچ دئیے جاتے ہیں۔محکمہ تعلیم کی تعلیمی نظام بہتر بنانے پر ذرہ بھر توجہ نہیں ۔
بات دور نکل گئی مجھے یہ بتانا تھا کہ دنیا کے اعلی تعلیمی اداروں میں PBL سسٹم کامیابی سے کام کر رہا ھے ہم کوئی نیا تعلیمی نظام ایجاد کرنے سے تو رھے کم از کم کامیاب نظام کی نقل کر کے اپنے آپ کو ذلت و رسوائی کے گڑھوں سے نکال تو سکتے ہیں اور بچوں کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں۔یہ تعلیمی سسٹم بڑی کامیابی سے امریکہ ۔فن لینڈ ۔جرمنی اور کئی دوسرے ممالک میں کام کر رہا ھے۔ خوش قسمتی سے کچھ پاکستانی نوجوانوں نے بھی باھر سے اس سسٹم کی ٹریننگ لے رکھی ھے ۔
ہم ان کی مدد سے ماسٹر ٹرینرز کی ایک کھیپ تیار کریں اور پھر ایمرجنسی نافذ کر کے سکولوں میں نافذ کر دیں ۔تین سالوں میں پاکستان کی قسمت بدل جاۓ گی۔ آجکل جدید ممالک زراعت اور انڈسٹری سے زیادہ سروس سیکٹر سے اربوں ڈالر کما رھے ہیں۔ سروس سیکٹر میں skill کی ضرورت پڑتی ھے اور skill وہی قوم سیکھ سکتی ھے جو جدید تعلیم کی باریکیوں سے آگاہ ہو ۔ہم کب تک دنیا میں کاسہ گدائی لے کر بھیک مانگتے رہینگے؟
اور بھیک مانگنے والوں کی دنیا میں کہاں عزت ھوتی ھے؟۔ اللہ کے بندو جاگو ۔تمھارے پاس دنیا کے خزانے پڑے ہیں ہمت کر کے انہیں کام میں لاو۔PBL طرز تعلیم کا مطلب ھے۔۔
Learning by doing.
مطلب یہ ھے کہ طلبا کے دماغ میں علم ٹھونسا نہیں جاتا بلکہ اس کو ایک پراجیکٹ دیا جاتا ھے جسے وہ اپنی سوچ سے مکمل کرتا ھے وہ اپنے دوستوں ۔کتابوں ۔کمپوٹر کو کنسلٹ کرتا ھے اور قدم بہ قدم اپنا پراجیکٹ مکمل کرتا ھے۔پراجیکٹ مکمل کرنے کے دوران اس کے اندر ایک جذبہ اجاگر ہوتا ھے جو جنون کی شکل میں اس کی تخلیقی صلاحتیوں کو مہمیز دیتا ھے اور جب سٹوڈنٹ وہ پراجیکٹ مکمل کر لیتا ھے تو کتاب کے تمام چیپٹر خود بخود اس کو ازبر ہو جاتے ہیں ۔
اس کا اعتماد آسمان کو چھونے لگتا ھے وہ اپنے آپ کو ایک موجد تصور کرتا ھے اور پھر وہ ستاروں ک آگے کے جہان کی تلاش میں نکل کھڑا ھوتا ھے۔ جب وہ تعلیم مکمل کر کے باھرآتا ھے تو دنیا اسے ایک لیبارٹری کی شکل میں نظر آتی ھے اور دنیا میں موجود اشیا اس کے آلات اور خام مال بن جاتے ہیں ۔وہ روزانہ نت نئے تجربے کر کے نئی ایجادات عمل میں لے آتا ھے اور معاشرہ اس کی ایجادات سے فیض یاب ھوتا ھے۔ PBL کی بات ہو گئی مگر اس کو عملی جامہ کون پہناۓ گا ۔۔
سیاستدان تو حکومت گرانے یا بچانے میں اتنے مصروف ہیں کہ قوم کو صحرا میں آوارگی کے لیے چھوڑ دیا۔ اگلے سو سال تو جمھوریت کا ٹنٹہ ہی ختم نہیں ھونا !!! ۔ باقی رہا قوم کی رہنمائی کا میڈیا ۔۔وہ دن رات یہ ثابت کرنے پر لگا ھے کہ کوا حلال ھے یا حرام؟قوم کسی ہلاکو یا چنگیز خان کا انتظار کرے اور تب تک روز سکرین پر ایک ہی قسم کے بوتھے دیکھے۔اور انکے بھاشن سنے۔۔۔۔
نوٹ ۔۔اس کالم کے لکھنے میں اسلام آباد سے محترم دوست اور ماہر تعلیم ہمایوں ایم تارڑ صاحب سے مدد لی گئی جو کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے PBL کی ٹریننگ لے چکے ہیں اور ماسٹر ٹریننر ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر