نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(6)۔۔۔ رؤف کلاسرا

نیب کے پاس کوئی میکنزم نہ تھا کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی چھپی دولت کو ٹریس کر کے لاسکے ‘لہٰذا دو تین عالمی کمپنیوں کو ڈھونڈا گیا کہ وہ دولت ڈھونڈ کر لائیں

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنرل امجد کچھ لمحے سوچتے رہے کہ براڈ شیٹ کے سوال پر پانامہ لیکس کی اس انکوائری کمیٹی کے ممبر کو کیا جواب دیں۔جنرل امجد کو اندازہ ہوچلا تھا کہ سترہ برس بعد اگر ان سے براڈشیٹ کا سوال کیا جارہا تھا تو یقینا کوئی بات تھی جس کا علم صرف انکوائری کمیٹی کے ممبران کو تھا۔
35 برس فوج میں ملازمت اور نیب میں گزرے ایک برس کے بعد جنرل امجد کو یہ تو پتہ تھا کہ ایسے سوالات کا جواب پورا نہیں دیا جاتا مگر جنرل امجد کو بھلا کیا پتہ تھا کہ پانامہ انکوائری کمیٹی کے اس ممبر کے ذہن میں کیا چل رہا تھا کہ حدیبیہ پیپرز ملز میں شریف خاندان کی کرپشن اور لندن کی قاضی فیملی کے نام پر جعلی بینک اکائونٹس پر کی گئی منی لانڈرنگ پر گفتگو کرتے کرتے اچانک وہ براڈشیٹ پر آگئے۔
ابھی وہ گفتگو لندن کے بارے کررہے تھے اور اب سوال کا رخ امریکہ کی طرف مڑ گیا تھا جہاں براڈشیٹ کا ہیڈ آفس تھا۔ جنرل امجد نے فوراً خود کو سنبھالا اور پتہ نہیں چلنے دیا کہ وہ اس سوال پر الجھ گئے ہیں۔ جنرل امجد کے سامنے بیٹھے چھ افسران میں سے ایک ایف آئی اے‘ دوسرا نیب‘ تیسرا ایس ای سی پی سے تھا‘ایک سٹیٹ بینک سے اور دو ریٹائرڈ بریگیڈیئر تھے۔ جنرل نے چہرے پر تاثر نہیں ابھرنے دیا کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہے تھے اور پورے اعتماد سے جواب دیا: جی براڈ شیٹ ایک کمپنی تھی جس سے ہم نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کے لوٹے ہوئے پیسے واپس لائے گی اور اس دولت میں سے بیس فیصد شیئر اس کمپنی کو دیا جانا تھا۔
نیب کے پاس کوئی میکنزم نہ تھا کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی چھپی دولت کو ٹریس کر کے لاسکے ‘لہٰذا دو تین عالمی کمپنیوں کو ڈھونڈا گیا کہ وہ دولت ڈھونڈ کر لائیں اور اس میں سے اپنا بیس فیصد حصہ لے لیں۔ان کمپنیوںنے خود ہی سارے اخراجات کرنے تھے‘ پاکستانیوں کی دولت ٹریس کرنا تھی اور جب وہ پیسے ریکور ہوجاتے تو اس میں سے اپنا بیس فیصد لینا تھا۔
اس انکوائری کمیٹی کے ممبران کی آنکھوں میں ابھرتے سوالات دیکھ کر جنرل امجد کو اپریل 2000 ء کی اسلام آبا د میں نیب کے دفتر کی ایک دوپہر یاد آگئی جب ان سے لاہور کے دو بزنس مین ملنے آئے تھے۔ایک کا نام غضنفر علی سید اور دوسرے کا نام طارق فواد ملک تھا۔
غضنفر علی لاہور میں ایک چھوٹے ٹیکسائل یونٹ کے سربراہ تھے اور طارق فواد ملک وہ فیکٹری چلا رہے تھے۔ طارق فواد ملک کا بڑا تعارف یہ تھا کہ وہ ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل نعیم اکبر کے داماد تھے۔ یہ ملاقات ہونے کی بڑی وجہ جنرل نعیم اکبر کاریفرنس بھی تھا۔
طارق فواد ملک اس سے پہلے ایئرفورس میں پائلٹ تھے لیکن چند الزامات کی وجہ سے کورٹ آف انکوائری کے بعدسروس سے نکال دیے گئے تھے۔جنرل امجد کو طارق فواد ملک کے اس بیک گرائونڈ کا علم نہ تھا‘ انہیں صرف اتنا پتہ تھا کہ وہ جنرل نعیم کے داماد ہیں۔ طارق فواد ملک نے اپنی مل کے مالک غضنفر علی سید کا تعارف جنرل امجد کو یوں کرایا کہ وہ بہت بڑے بزنس مین ہیں اور ان کے گروپ کا نام GSA ہے جو دراصل غضنفر علی سید کے نام کا مخفف تھا لیکن یوں لگتا جیسے کوئی بہت بڑی عالمی کمپنی ہے۔
جنرل امجد کو یہ بھی علم نہ تھا کہ جنرل نعیم اکبر کا داماد طارق فواد ملک اسی GSA صاحب کا ملازم تھا۔طارق ملک نے جنرل امجد کو بتایا کہ ان کے پاس ایک بزنس پرپوزل ہے۔ فواد نے بتایا کہ وہ امریکہ میں ایک کمپنی Trouvons کے نمائندے ہیں۔طارق فواد ملک نے جنرل امجد کو کہا کہ وہ انہیں دنیا بھر میں پاکستانیوں کی غیر قانونی جائیدادوں اور بینکوں میں رکھا پیسہ ریکور کرنے میں اس کمپنی کی مدد دلاسکتے ہیں۔
فواد ملک کا کہنا تھا کہ نیب یہ فارن فرم ہائر کر لے تو بہت جلد پاکستانیوں کے بارے نہ صرف انہیں اطلاع ملنا شروع ہوجائے گی بلکہ ریکوری بھی شروع ہوجائے گی۔
جنرل امجد کو طارق ملک اور غضنفر علی سید کی باتیں سنتے ہوئے جنرل مشرف کا خیال آیا جو اِن سے بہت سی توقعات لگائے بیٹھے تھے۔جنرل مشرف نے جنرل امجد کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔
اگرچہ نواز شریف جیل میں تھے لیکن جنرل مشرف کا دباؤ نیب پر تھا کہ وہ ہر صورت نواز شریف خاندان کی کرپشن پر کام کرے اور ان کے خلاف کارروائی کرے۔ جنرل امجد اب تک درجنوں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو نیب کی جیل میں ڈال چکے تھے۔ ان کے جو ہاتھ لگا انہوں نے پکڑ کر نوے روز کیلئے جیل میں ڈال دیا اورپھر بھول گئے کوئی ان کا قیدی بھی تھا‘وہ زندہ تھا یا مر گیا۔جنرل امجد کو لگا کہ انہیں جس کمپنی کی تلاش تھی وہ مل گئی ہے۔
اب وہ اس کمپنی کے ذریعے نہ صرف شریف خاندان کے کڑاکے نکال دیں گے بلکہ سب کرپٹ سیاستدانوں اور سویلینز کی بیرون ملک پڑی جائیدادیں واپس لائیں گے۔ طارق فواد ملک نے کامیابی سے جنرل امجد کو پوری کہانی بیچ دی تھی۔
طارق فواد ملک نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک اور کارڈ کھیلا اور فوراً جنرل امجد کو امریکی دورے کی دعوت دی کہ وہ خود چل کر جس فرم سے ان کی ڈیل کرانا چاہتے ہیں‘ اس کا ہیڈکوارٹر دیکھیں اور وہاں لوگوں سے ملیں تو اندازہ ہوگا یہ کمپنی کس پیمانے پر کام کرتی ہے اور کیسے اسے اس کام میں مہارت رکھتی ہے کہ یہ دنیا بھر سے اثاثے تلاش کرکے پاکستان کے حوالے کرے گی۔ جنرل امجد طارق فواد ملک کی اس پیش کش پر فوراً امریکہ کے دورے پرتیار ہوگئے۔
جب جنرل امجد امریکہ کے ٹرپ سے لوٹے تو وہ مکمل طور پر نہ صرف متاثر ہوچکے تھے بلکہ اس کمپنی کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کرنے پر بھی تیار تھے۔ انہیں لگ رہا تھاکہ طارق فواد ملک نے انہیں بیٹھے بٹھائے آسمان سے تارے توڑ کر لا دیے ہیں‘ اب جنرل مشرف پوری قوم کو فخر سے بتا سکتے ہیں کہ میرے چیئرمین نیب نے کیا کمال کام کیا ہے۔
جنرل امجد امریکہ میں براڈشیٹ کے دفتر کے دورے اور وہاں ہونے والی ملاقاتوں کے نتائج سے بہت خوش تھے۔انہوں نے اسلام آباد اترتے ہی سب سے پہلے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم ملک کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ ہرگز دیر نہ کریں اور فوری طور پر اس کمپنی سے ایک عالمی معاہدہ کریں اور ان کی سروسز ہائر کر کے دنیا بھر میں پھیلی پاکستانیوں کی دولت کا سراغ لگا کر واپسی کے انتظامات کیے جائیں۔ جنرل امجد کو پتہ نہ تھا کہ انہیں اس کمپنی کے بہت سے معاملات کی خبر نہ تھی جس کے ساتھ وہ اتنا بڑا معاہدہ کرنے پہنچ گئے تھے۔
امریکہ میں جنرل امجد کی ملاقات کمپنی کے مالک جیری جیمز اور ڈاکٹر پیپرز سے کروائی گئی۔ ان دونوں نے جنرل امجد کو یقین دلایا کہ ان کے پاس وہ صلاحیتیں ہیں کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپی دولت ڈھونڈ کر ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیں گے۔ وہ نیب کو پوری مدد دیں گے۔جنرل امجد کو پوری طرح گھیرا جا چکا تھا۔ امریکہ کے دورے نے جنرل کو بدل دیا تھا۔ سولہ برس بعد جب جنرل امجد لندن میں جج انتھونی ایونز کو براڈشیٹ مقدمے پر گواہی ریکارڈ کرا رہے تھے تو انہیں پتہ تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا تھا لیکن وہ اب کیسے یہ بات گورے جج کو سمجھاتے؟
سوال یہ تھا کہ جنرل امجد جیسا بندہ یہ دھوکا کیسے کھا گیا؟ وہ اس سوال کا جواب برسوں بعد بھی خود سے چھپا رہے تھے۔ وہ راز جس کی وجہ سے پاکستان کو بیس برس بعد لندن کی عدالت میں پانچ ارب روپے کا جرمانہ بھرنا پڑ گیا۔ کروڑوں ڈالرز کے اس کارپوریٹ دھوکے کی بنیاد امریکہ واپسی پر جنرل امجد کے دفتر میں 2000ء میں رکھی گئی تھی۔ جنرل خود پر حیران تھا کہ وہ کیسے سامنے کی ایک اہم بات کو نظرانداز کرگئے جس کا اعتراف وہ لندن کے سر انتھونی ایونز کی عدالت میں 2016ء میں کررہے تھے۔ کیا جنرل نے اپنے جن قریبی لوگوں پر بھروسا کیا تھا انہوں نے انہیں دھوکا دیا تھا؟

(جاری)

یہ بھی پڑھیے:

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

About The Author