سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوبائی وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت کا کہنا ہے کہ صوبہ بننے کے لئے قانونی طور پر دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ صوبہ بنانے پر کوئی پارٹی تیار نہیں، جس پارٹی سے بات کرتے ہیں وہ مانتی نہیں، مطلوبہ اکثریت ملنے پر صوبہ بنائیں گے۔
مخدوم ہاشم جواں بخت کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے پر کوئی پارٹی تیار نہیں کا بیان انتہائی تشویشناک ہے کہ 2018ء کے الیکشن سے قبل سرائیکی صوبہ محاذ پریشر گروپ کے طور پر بنایا گیا اور پاکستان تحریک انصاف میں شرکت کے لئے حکومت بنانے کے بعد 100روز کےاندر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ تاحال پورا نہیں ہوسکا ہے۔
ادھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں علیحدہ سرائیکی صوبہ بنانے کے لئے قرارداد بھی منظور کروالی تھی اور 30نومبر کے ملتان جلسے کے موقع پر مریم بی بی کی جانب سے سرائیکی میں تقریر کے ساتھ علیحدہ صوبے کی بھی بات کی گئی اسی طرح کئی اہم مواقع پر مسلم لیگ ن کے قائدین علیحدہ صوبے کی زبانی کلامی تو حمایت کرتے رہے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کبھی بھی سرائیکی صوبہ بنانے کے حق میں نہیں رہی اس سے اس کا اقتدار کمزور پڑتا ہے اور 30 ، 40برس سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی راہ میں اصل رکاوٹ مسلم لیگ ن ہی تھی اور اب اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جنوبی پنجاب صوبہ بنانے سے انکاری ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ بلاشبہ عددی اکثریت ہے تو دوسری طرف ایسا کرنے سے اس کا اپر پنجاب میں اقتدار بھی خطرے میں پڑجائے گا اور وہ کسی صورت ایسا نہیں چاہے گی کہ اس کے ہاتھ سے اپر پنجاب نکلے۔
تاہم دوسری طرف سیاسی جماعتوں کو بھی یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عوام کو نمبرگیم سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ طویل عرصے سے محرومیوں اور پسماندگی کے شکار سرائیکی وسیب کے عوام کے لئے زندگی گزارنا جان جوکھوں کا کام بن گیا ہے کیونکہ ارباب اختیار کی جانب سے ان کی بہتری کے لئے اقدامات نہ کئے جانے کےبعد وہ حسرت و یاس کا منظر پیش کررہے ہیں۔.
جنوبی پنجاب کے کئی شہر تو آج بھی ایسے ہیں جہاں عوام کو صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ہر وقت عوام کے لئے درددل رکھنے والے عمران خان سے عوام میں یہ امید پیدا ہوئی کہ اب ان کے دکھوں کا ازالہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی سبیل ضرور کی جائے گی اور ان کے حالات بھی بدلیں گے مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی روایتی ثابت ہوئی اور سابقہ حکمرانوں کی روش پر گامزن ہے یعنی برق گرتی ہے تو بیچارے غریبوں پر۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب کے لئے 2علیحدہ سیکرٹریٹ بنانے کا بھونڈا سا اعلان کیا گیا اور عرصہ دراز سے نظرانداز ہونے والے وسیب کے باسی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ چلو کچھ تو بہتری ان کے حالات میں آئے گی مگر سچ تو یہ ہے کہ حکومت کو اعلانات کرنے کی تو بڑی جلدی ہے اسی لئے آج بھی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے معاملات زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہیں۔ اگرچہ اب کچھ دنوں سے دونوں سیکرٹریٹ فنکشنل ہونے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے لیکن ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ کے مصداق عوام کے لئے سب اچھا نہیں ہے۔
اگر خان صاحب اپنے اڑھائی برس کے دوران اعلانات کی ایک فہرست بنائیں اس کے لئے کئی جلدیں درکار ہوں گی۔ اسی طرح اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سرائیکی صوبے کے قیام کا لالی پاپ دے کر اگلے الیکشن تک عوام کو ٹرخالیا جائے گا تو میں اس سطور کے ذریعے حکمرانوں کو یہ بتادینا چاہتی ہوں کہ سرائیکی وسیب کا دانشور طبقہ اپنی آواز اس ظلم کے خلاف اٹھاتا رہے گا اس لئے بہتر یہی ہوگاکہ معاملات کو ٹرخانے کی بجائے سنجیدہ انداز میں لیا جائے اور ایسا صرف اسی صورت میں ہوگا کہ جب محرومیوں، پسماندگی اور غربت سے اٹے چہروں پر تازگی لانے کے بارے میں کچھ سوچا جائے گا۔
تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے چونکہ کبھی عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اسی لئے اس مخلوق کی بہتری کے لئے کوئی سنجیدہ اقدامات کو ضروری نہیں سمجھا گیا حالانکہ جنوبی پنجاب اپنی انفرادیت اورجداگانہ شناخت کی بنا پر دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے جس سے فائدہ اٹھانا حکومت کا کام ہے لیکن حکومت تو جس طرح آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط پر یس سر، یس سر کررہی ہے اس کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی عوام کے سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کردیا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کرنے جیسی احمقانہ شرط پر بھی عملدرٓمد بارے سوچا جارہا ہے۔
ابھی چند روز قبل حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساڑھے 3روپے کا خطیر اضافہ کیا جبکہ آئندہ چند روز میں بجلی کی قیمتوں میں 2سے 3روپے اضافے کاامکان ہے جس کے بعد بجلی کے بل عوام پر کیا ستم ڈھائیں گے، کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ اطلاعات کے مطابق نئے بلدیاتی نظام کے تیار کردہ ڈرافٹ میں ریڑھی، کریانہ شاپ اور دودھ پر بھی ٹیکس لگانے کے لئے حکومت نے کمر کس لی ہے۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ چکی چلانے اور نائی کی دکان والا بھی یونین کونسل کو ٹیکس دے گا۔ یاد رہے کہ یونین کونسل اپنی مرضی سے ٹیکس لگانے بارے بااختیار ہوگا۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب تیل کی قیمتوں میں بے بہا اضافے کے بعد تعمیراتی کاموں کو مکمل بریک لگ گئی ہے جس کے بعد لوہے کی چادریں، گاڈر ٹی آر کا کاروبار کرنے والے کروڑوں کی سرمایہ کاری کےبعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں اور یوں ملتان کی سب سے بڑی لوہا مارکیٹ ویران ہوگئی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف حکومت کاروبار میں ریلیف فراہم کرنے کے بلندبانگ دعوے تو کرتی ہے لیکن تاجر برادری کا گلہ ہے کہ حکومت نے تاجروں کو کوئی سبسڈی نہیں دی ہے۔
ادھر حکومتی عہدیداران معاشی اعشاریوں میں بہتری کے ہر وقت دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن عوام کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔ سرائیکی صوبہ کا قیام وقت کی اہم ترین ضروری ہے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت جنوبی پنجاب صوبے کاجائزہ مطالبہ پوراکرنے کی طرف توجہ دے کیونکہ اگر محرومیوں کے ستائے عوام اب مزید ظلم اور جبر برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں اس لئے ہاشم جواں بخت اپنی قیادت کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کریں۔
وزیراعظم عمران خان کا ملتان کا دورہ چند روز میں متوقع ہے، ہم کئی مرتبہ ان سطور کے ذریعے ارباب اختیار سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ وسیب کے اصل واسیوں سے وزیراعظم کی ملاقات کروائیں تاکہ وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اس خطے کے مسائل اجاگر کرسکیں کیونکہ مفادات کے مارے سیاستدانوں سے کچھ بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے اس لئے حکومت پر لازم ہے کہ جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کے مطالبے کو زبانی جمع خرچ تک نہ محدود رکھے بلکہ عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے بلاتاخیر بہترین عوامی مفاد میں فیصلہ کرے، یہی وقت کی آواز ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر