دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(5)۔۔۔ رؤف کلاسرا

براڈ شیٹ کے ساتھ جون 2000 ء میں کیے گئے اس معاہدے کے سترہ برس بعد نیب کے چیئر مین جنرل امجد 29 جون 2017ء کو اسلام آباد میں چھ ممبران پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

براڈ شیٹ کے ساتھ جون 2000 ء میں کیے گئے اس معاہدے کے سترہ برس بعد نیب کے چیئر مین جنرل امجد 29 جون 2017ء کو اسلام آباد میں چھ ممبران پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ ایک وقت تھا جنرل امجد، جنرل پرویز مشرف سے بھی زیادہ طاقتور سمجھے جاتے تھے‘ اب وہ اب پانامہ سکینڈل پر بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے بیٹھے تھے۔
جنرل امجد کو جب نوٹس ملا کہ وہ پانامہ انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوں تو انہیں اندازہ نہ تھا کہ انہیں اس معاملے میں کیوں طلب کیا جارہا تھا۔ جنرل امجد سے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کے علاوہ پانچ ممبران سوالات کررہے تھے۔ انہیں سوالات سے اندازہ ہوا کہ انہیں دراصل اس لیے بلایا گیا تھا کہ وہ اسحق ڈار کے ساتھ ہونے والی اُس ڈیل کی تفصیل بتائیں جس کے تحت انہوں نے ڈار کو اٹک قلعہ سے نکلوا کر لاہور نیب کے دفتر بلا کر پندرہ منٹ ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد جنرل امجد نے اسحق ڈار کو نیب کی قید سے رہا کر دیا تھا۔
جنرل امجد سے پوچھا گیا کہ اسحق ڈار کو جو معاف کیا تھا اور اس کے بدلے انہوں نے حدیبیہ پیپر ملز اور لندن کی قاضی فیملی کے جعلی بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات نیب کو فراہم کی تھیں‘ وہ بیان زبردستی تو نہیں لیا گیا تھا؟ جنرل امجد نے انکوائری کمیٹی کے ممبران کو دیکھا اور پھر بولنا شروع ہوئے کہ ایک دن انہیں ان کے سٹاف نے بتایا کہ اسحق ڈار ایک اعترافی بیان دینا چاہتے ہیں۔ اس پرانہوں نے کہا‘ ٹھیک ہے ڈار کو میرے سامنے پیش کرو۔ ڈار جب ڈی جی نیب لاہورکے دفتر میں پیش ہوئے تو جنرل صاحب نے ان سے صرف پندرہ منٹ ملاقات کی۔
اسحق ڈار پر نیب کا دبائو تھا کہ وہ پوری تفصیل بتائیں کی شریف فیملی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں کس طرح منی لانڈرنگ کی تھی اور اس میں کون کون لوگ شامل تھے۔ڈار نے ایک دن نیب افسران کو پیغام بھیجاکہ اگر وہ شریف خاندان کی منی لانڈرنگ اور اس میں ملوث افراد کی پوری تفصیل دیں تو اس کے بدلے انہیں کیا ملے گا؟ اسحق ڈار کا جو تعلق 1990ء میں شہباز شریف اور نواز شریف سے بنا تھا وہ اب بریک ہونے کے قریب تھا۔ اسحق ڈار کو نواز شریف، شہبازشریف اور نیب سے آزادی میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔
نواز شریف اور شہباز شریف ابھی جیل میں تھے اور ڈار کو خیال آیا کہ دونوں بھائی لمبے اندر گئے ہیں اور جنرل مشرف کا مارشل لاء جلدی نہیں جائے گا۔ قید میں بیٹھے بیٹھے ڈار نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے اپنے پاس موجود شریف خاندان کی انفارمیشن کو بیچیں گے۔ ڈار کو سب پتہ تھا کہ منی لانڈرنگ کیسے کی گئی تھی کیونکہ یہ سب کام ڈار کی نگرانی اورسربراہی میں ہواتھا۔ انہیں ایک ایک تفصیل یاد تھی کہ کیسے لندن کی اُس قاضی فیملی کو دھوکا دے کر ان سے پاسپورٹس لے کر ان کے ذریعے لاہور میں بینک اکاؤنٹس کھلوا کر ان میں شریفوں کے ڈالرز ڈالے گئے تھے۔ 1992ء کا اکنامک ایکٹ اس لیے بنایا گیا تھا کہ پاکستان میں اکاؤنٹ میں پیسے ڈال دو اور باہر نکلوا لو کوئی اس کا سورس نہیں پوچھے گا۔یہ تھا وہ قانونی طریقہ جس کے ذریعے قانونی طور پر منی لانڈرنگ کی گئی تھی۔ جب حدیبیہ پیپر ملز منی لانڈرنگ سکینڈل سامنے آیا تو قاضی فیملی نے انکوائری میں بیان حلفی لکھ کر دیے تھے کہ ان کے ساتھ اسحق ڈار نے دھوکا کیا تھا۔ قاضی فیملی کے مطابق انہوں نے وہ پاسپورٹس کی کاپیاں اسحق ڈار کو دی تھیں کہ انہوں نے پاکستان میں شناختی کارڈز بنوانے تھے لیکن ایک دن انہیں پتہ چلا کہ ان کے مختلف بینکوں میں لاکھوں ڈالرز جمع ہوگئے ہیں؛ تاہم اسحق ڈار نے بیان دیا کہ قاضی فیملی کے سربراہ کو سیاست کا شوق تھا‘ جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقات کروائی تھی اس کے بعد اس فیملی کے شریفوں سے اپنے تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ اسحق ڈار کے بقول لندن کی اس فیملی نے شہباز شریف کو اپنے پاسپورٹس کی کاپیاں دی تھیں اور انہیں شہباز شریف نے وہ دستاویزات دی تھیں کہ ان پر بینک اکاؤنٹس کھلوا لیں اور ان میں ڈالرز ڈال دیں۔اور پھر اسحق ڈار نے بینک اکاؤنٹس کھلوائے اور باقاعدہ منی لانڈرنگ کی گئی جس کے سب ثبوت موجود تھے۔اسحق ڈار نے یہ ساری سٹوری جنرل امجد کو ان کے دفتر میں ان پندرہ منٹس میں سنائی تھی۔
پانامہ جے آئی ٹی کے ایک ممبر نے جنرل امجد سے پوچھا کہ اسحق ڈار آپ کو ہی کیوں سب تفصیلات بتانے پر تیار ہوئے؟ جنرل امجد نے فوراً جواب دیا کہ ان کا خیال ہے اسحق ڈار کو پتہ تھا کہ انہوں نے شریف خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کیلئے جعلی بینک اکاؤنٹس کھلوائے تھے اور ان کا اس میں مرکزی کردار تھالہٰذا انہیں علم تھا کہ ان کے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا اور انہیں سزا ہو جائے گی ؛ چنانچہ وہ ڈیل کرکے آزادی چاہتے تھے۔جنرل امجد کا کہنا تھا: انہوں نے کوئی دبائو نہیں ڈالا تھا‘ اسحق ڈار کو عدالت لے جایا گیا اور ایک مجسٹریٹ کے سامنے انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اس بیان کو ریکارڈ کرانے سے پہلے سے مجسٹر یٹ نے اسحق ڈار سے پوچھا تھا کہ ان پر دبائو تھا ؟ تو ڈار نے جواب دیا کہ ان پر کوئی دبائو نہیں اور وہ مرضی سے بیان دینا چاہتے ہیں۔ اس پر بھی مجسٹریٹ نے اسحق ڈار کو کہا کہ آپ کچھ دیر عدالت کے کونے میں بیٹھ کر سوچ لیں کہ بیان حلفی دینا چاہتے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ تک ڈار کو وقت دیا گیا اور پھر انہوں نے مجسٹریٹ کو بیان حلفی لکھ کر دیا۔ جنرل امجد نے انکوائری کمیٹی کو بتایا کہ وہ بیان ان کے سامنے لایا گیا تھا جو اسحق ڈار نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ جنرل امجد نے وہ بیان پڑھ کر اس کے بدلے فوری طور پر اسحق ڈار کے وعدہ معاف گواہ بننے کی منظوری دے دی۔
جنرل امجد یہ سب تفصیلات پانامہ کی جے آئی ٹی کے ممبران کو سنا رہے تھے۔ جنرل امجد کا کہنا تھا کہ اب سنا ہے اسحق ڈار کا یہ کہنا ہے کہ انہیں نیب نے ڈرا دھمکا کر بیان حلفی لیا تھا ‘ یہ اس لیے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی شریف خاندان کے ساتھ اب رشتہ داری ہے‘ اس لیے مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔ جنرل امجد نے انکشاف کیا کہ اسحق ڈار کے اس بیان حلفی کے بعد وہ لندن گئے اور لندن کی اس قاضی فیملی سے ملے۔ قاضی فیملی نے ان تمام باتوں کی تصدیق کی جو اسحق ڈار نے انہیں وعدہ معاف گواہ بنتے وقت بتائی تھیں کہ سب جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے تھے۔ جنرل امجد نے انکشاف کیا کہ جب وہ قاضی فیملی کے گھر لندن گئے تو انہیں یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ وہاں رحمن ملک پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ جنرل امجد کے بقول انہیں پتہ نہیں تھا کہ رحمن ملک وہاں موجود تھے یا پھر لندن کی فیملی نے خود رحمن ملک کو بلوایا تھا تاکہ وہ جنرل امجد کی آمد کے وقت وہاں موجود ہوں۔ جنرل امجد اور رحمن ملک نے ایک دوسرے کو ہیلو ہائے کیا۔
اچانک جے آئی ٹی کے ایک ممبر نے جنرل امجد سے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھ لیا کہ جنرل صاحب لندن کو چھوڑیں یہ بتائیں کوئی براڈ شیٹ نام آپ کے ذہن میں آتا ہے؟ آپ نے کبھی یہ نام سنا ہے؟ جنرل امجد نے چونک کر انکوائری کمیٹی کے ممبر کی طرف دیکھا۔ اس سوال نے جنرل امجد کو چکرا دیا کہ اسحق ڈار اور لندن کی قاضی فیملی کی باتیں ہوتے ہوتے اچانک براڈشیٹ کا ذکر کہاں سے آگیا ۔ پانامہ سکینڈل پر بنی جے آئی ٹی اب سترہ برس بعد براڈ شیٹ کا ان سے کیوں پوچھ رہی تھی جس کا بظاہر اس پانامہ سے کوئی تعلق نہیں بن رہا تھا؟جنرل صاحب سوچ میں پڑ گئے کہ اس اہم لیکن مشکل سوال کا کیا جواب دیں؟سب انکوائری افسران کی نظریں اب جنرل امجد پر جمی ہوئی تھیں کہ وہ اس اہم سوال کا کیا جواب دیں گے؟

(جاری)

یہ بھی پڑھیے:

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

About The Author