مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منگل کو سب سے بڑی خبر سینیٹ میں ری پبلکن لیڈر مچ مک کونل کا بیان تھا کہ کانگریس پر حملے کے ذمے دار صدر ٹرمپ تھے۔
مچ مک کونل کی بیوی ٹرمپ کابینہ کی وزیر تھیں لیکن انھوں نے کانگریس حملے کے بعد استعفا دے دیا تھا۔
یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ری پبلکن پارٹی اب صدر ٹرمپ سے فاصلہ چاہتی ہے اور چار سال بعد انھیں اپنا امیدوار نہیں بنانا چاہتی۔
نائب صدر مائیک پینس نے بھی صدر ٹرمپ کی خواہش کے خلاف کانگریس میں جو بائیڈن کی انتخابی کامیابی کی توثیق یقینی بنائی تھی۔ وہ حلف برداری میں بھی شرکت کریں گے۔
وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق صدر ٹرمپ ایک نئی پارٹی بنانا چاہتے ہیں جس کا نام پیٹریاٹ پارٹی ہوگا۔
میرا خیال ہے کہ اگر یہ پارٹی نہ بنی تو امریکا میں مقامی دہشت گردی شروع ہوجائے گی۔
یہ سول وار جیسی تو نہیں ہوگی لیکن اس سے بہت سے سیکورٹی خدشات پیدا ہوجائیں گے۔
اگر ٹرمپ پارٹی بنانے اور کچھ سخت گیر قدامت پسند رہنماؤں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے، جس کی وہ مکمل اہلیت رکھتے ہیں، تو ری پبلکن پارٹی تقسیم ہوکر کمزور ہوجائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں نہ آتے اور صدر نہ بنتے تو بھی ری پبلکن پارٹی کو زوال کا شکار ہونا تھا۔
تمام ریاستوں میں ڈیموکریٹ ووٹ بڑھ رہے ہیں اور ایک کے بعد ایک ریاست ری پبلکنز کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ جیسے اس بار جارجیا سے نہ صرف بائیڈن جیتے بلکہ سینیٹ کی دونوں نشستیں بھی ڈیموکریٹس لے گئے۔ اس سے پہلے یہ ریڈ اسٹیٹ یعنی ری پبلکنز کا گڑھ سمجھی جاتی تھی۔
ہم جس ریاست میں رہتے ہیں، یعنی ورجینیا، یہ بھی ریڈ سے بلو ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ ساؤتھ کی وہ ریاست ہے جہاں سول وار میں کنفیڈریٹس کا دارالحکومت تھا۔
اسی طرح ٹیکساس میں آبادی کا تناسب بدل رہا ہے اور ڈیموکریٹس ماضی کے مقابلے میں کم فرق سے ہارے ہیں۔ دو تین انتخابات کے بعد ٹیکساس بلو ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔
ٹرمپ کی پارٹی بنی تو کیا ہوگا؟ قدامت پرست ووٹ تقسیم ہوگا۔ ڈیموکریٹس کا صدر آتا رہے گا۔ وہ تسلسل سے صدارت اور کانگریس کے انتخاب جیتیں گے۔
اس وقت بائیڈن کا آنا مبارک ہوگا لیکن کوئی نہیں چاہے گا کہ ایک پارٹی کا تسلط ہوجائے۔ اس طرح سسٹم میں بگاڑ آتا ہے۔
ری پبلکن پارٹی کو اپنے نظریات میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔ امیگرنٹس کے لیے پرکشش وعدے کرنا ہوں گے۔ مستقبل میں ٹرمپ جیسے کسی امیدوار کو آگے آنے سے روکنا ہوگا۔
ٹرمپ صدر نہ بنتے اور پھر پارٹی بناتے یا الیکشن لڑتے تو راس پرو جیسا حشر ہوتا۔ ری پبلکن پارٹی نے انھیں اپنی صفوں میں جگہ دے کر اور آگے بڑھا کر اپنے پیر پر کلہاڑی ماری ہے۔ اس غلطی کا خمیازہ ری پبلکن پارٹی ہی کو نہیں، امریکی سیاست کو طویل عرصے تک بھگتنا پڑے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر