مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کتاب "دامان رنگ” کے قارئین کیا کہتے ہیں؟ ۔۔۔گلزار احمد

یہ کتاب ہر عام و خاص کیلئے سود مند ہے کیونکہ اس میں آسان پیرائے میں مشکل بات کرنے کا اسلوب اپنایا گیا جو گلزار احمد کی ہی خاصیت ہے

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ اعتدال کے کالموں پر مشتمل نئی کتاب ۔۔دامان رنگ ۔۔پر جو ہمارے قارئین نے تبصرے کیے ہیں وہ شکریہ کے ساتھ اس کالم میں شائع کیے جا رہے ہیں۔
غلام فاطمہ ۔۔ماہر تعلیم
اس بار نئے سال کا آغاز برادر محترم جناب ابوالمعظم ترابی صاحب اور محترم گلزار احمد صاحب کی مشترکہ فون اور پھر اس کے بعد بصد اصرار اور چائے کے ایک پیالہ کی خواہش کے اظہار( میری طرف سے) سے ھوا جو ان دونوں حضرات کی طرف سے قبول کر لیا گیا۔
میں بہت مشکور ھوں کے آپ نے نہ صرف اس قدر قیمتی، نایاب اور خوبصورت کتاب "دامان رنگ” تحفتہ ” عنایت کی بلکہ میرے دفتر بھی تشریف لائے۔۔
چائے کے بہانے دونوں ادیبوں سے مختلف موضوعات پہ کھل کے گفتگو ھوئ۔۔گفتگو کیا تھی ۔۔نوحہ عصر کہیے اسے۔۔ وقت گزرنے کا پتہ ھی نہیں چلا گفتگو ابھی بھی تشنہ ھی تھی۔
دامان رنگ جو کہ چھیاسٹھ مضامین پہ مشتمل ھےان میں سے بیشتر ان کے کالم اور فیس بک پہ پڑھنے کا اعزاز مجھے حاصل رھا ھے۔،کتابی شکل میں سرورق سے اختتامیے تک بھت شاندار ھے۔سرورق پہ ڈیرہ کا دریا اور بحری جہاز جو گلزار صاحب کی بیشتر تحریروں کا محور رہا ھے،ڈیرہ کی قدیم ثقافت، سرائیکی اجرک کا نیلا رنگ دریا کنارہ اور ڈیرہ کی دیہاتی زندگی کو اجاگر کرتا بہت اچھا لگا۔
کتاب کا آغاز رحمت اللہ عامر صاحب کے اشعار سے ھے جو گلزار صاحب کی شخصیت اور تحریروں کا احاطہ کر رہے ھیں۔انتساب گلزار کے والدین کے نام اور پھر ابوالمعظم ترابی ،عرفان مغل سید حفیظ اللہ گیلانی ،اور وجاھت علی عمرانی صاحب کی بھاری بھرکم تحریریں ھیں جو صاحب کتاب کے حالات زندگی اور فنی سفر کے کچھ پہلوؤں کو اجاگر کر رہی ھیں ۔۔لیکن ان تحریروں میں صاحب کتاب سے محبت بھی نمایاں ھے کتاب کا اختتامیہ محترم جناب ارشاد حسین شاہ بخاری صاحب کی مختصر لیکن جامع تحریر سے ھے
مجموعی طور پہ یہ کتاب متنوع موضوعات پہ لکھی گئی ھے لیکن محور صرف اور صرف ڈیرہ اسماعیل خان ۔سرائیکی وسیب اور دامان کی محبت رہی ھے
مصنف بستی بستی ۔شھر شھر اور دیس دیس گھوما لیکن جہاں گیا دل اپنے شہر ھی میں ٹکا رھا۔۔ا
ڈیرہ سے یہ محبت مصنف کے ھر ھر لفظ سے ٹپکتی ھے۔
گلزار صاحب نے اپنے ان کالموں کو کتابی شکل دے کر مجھ جیسے ماضی پرست لوگوں اور نئ نسل کے لیے بہت گراں قدر خدمات انجام دی ھیں اور نئ نسل کو اپنی ثقافت اور روایات سے جوڑ دیا ھے۔۔
میں دعا گو ھوں کہ وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں اور گلزار صاحب کی عزت جان و مال اللہ پاک برکت ڈالے امین،
——————————————
پروفیسر ڈاکٹر محمد انور مروت ۔۔ خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک
Indeed a moment of high prestige for a student who receives the intellectual book of his versatile teacher Gulzar Ahmad. The contents of Book are carrying deep insights of my teacher and mentor about cultural diversification of DIKhan Division in particular and Southern Pakistan in general. I am trying to set up Cultural Diversity Centre with collaboration of UNESCO for exploring the changes and variations in civilization of Indus Valley since Buddha era. This Book will be our guide in the proposed project. Well written book Sir Gulzar Ahmad.
————————————
امجد حیات خان سدوزئی -ماہر تعلیم
سوشل میڈیا کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ محض وقت گزاری کا ذریعہ ہے۔مگر چند گنے چنے افراد نے اس میڈیم کو بہتر انداز سے استعمال کر کے لوگوں کی معلومات اور ادبی ذوق میں اضافے کا ذریعہ بنایا ہے،انہی خاص افراد میں جناب گلزار احمد صاحب کا نام نامی سر فہرست ہے،جنہوں نے اپنی مٹی کی بھولی بسری ثقافت کو اپنے کالموں کے ذریعے نوجوان نسل کو روشناس کرایا۔اگرچہ ان کے کالم اخبارات کی زینت بنتے رہے مگر نئی نسل میں اخبار بینی کا شوق نہ ہونے کے باعث ان تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ اُنہوں نے فیس بک کو بنایا۔جس سے ہمارے شہر کا ہر باسی،چاہے وہ مُلک کے کسی بھی حصے یا بیرون ملک ہو،اُن تک اپنے الفاظ کے ذریعے اپنی مٹی کی خوشبو پہنچانے کی کوشش کی۔جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔اور پھر کُتب بینی کے شائقین کے لئے اپنے کالموں کو کتابی شکل دے کر "دامان رنگ”کی صورت میں قارئین تک پہنچایا۔
میری گلزار احمد صاحب سے ملاقات فیس بک پر اُن کے کالموں کے ذریعے ہوئی۔آج صبح میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب مجھے اُن کی محبت بھری کال موصول ہوئی جس میں اُنہوں نے مُجھ ناچیز کو اپنی تصنیف "دامان رنگ”بطور تحفہ دینے کا مژدہ سنایا ۔
اگرچہ تا دم تحریر میری اُن سے بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی مگر ایک قلیل عرصہ میں اُنہوں نے مجھے اپنی محبتوں کا اسیر اور قرضدار بنا دیا ھے۔
مُجھ میں الفاظ کا چناؤ کرنے کا فن اُس طرح موجود نہیں جو گلزار احمد صاحب کا خاصہ ہے مگر اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں میں اُن کو خراج تحسین کرتے ہوئے یہی کہہ سکتا ہوں کہ
حلقہ کیے بیٹھے رہو اِک شمع کو یارو۔۔
کچھ روشنی باقی تو ہے، ہر چند کہ کم ہے۔
——————————–
سعد الدین سعد ۔۔درابن
عشق ہے ماضی کی ہر تصویر سے ۔
پیاس بجھتی ہے تری تحریر سے ۔
باندھ کر رکھے ہیں قاری ہر جگہ۔
گم شدہ تہزیب کی زنجیر سے۔
(رحمت اللہ عامر)
"ڈیرہ پھلا دا سہرہ "ہم عرصہ دراز سے یہ کہتے تو آرہے ہیں لیکن کبھی غور نہیں کیا کہ ڈیرہ تو ایک سہرہ ہے لیکن اس سہرے میں جو پھول ہیں یہ کون ہیں تو میں کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ جو ڈیرہ کے وہ باسی ہیں جو اس سے محبت کرتے ہیں ،اس کی خوشحالی کیلئے کوشاں ہیں ،اپنی بساط کے مطابق اس کا عروج لانے کی کوشش کرتے ہیں وہی لوگ ہی اس سہرے کے پھول ہیں
اسی طرح ڈیرہ کے سہرے کا ایک پھول گلزار احمد ہے شاید اعتدال اخبار کے قارئین کیلئے یہ نام نیا نا ہو کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ان کی تحریر اخبار میں ہو اور کوئی نہ پڑھے کیونکہ ان کا عنوان ہی قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور جوں جوں پڑھتا جاتا ہے تحریر میں دلچسپی اور گلزار احمد سے محبت بڑھتی جاتی ہے۔
اسی طرح گلزار احمد کے ساتھ تعلق کا آغاز اعتدال اخبار سے ہوا جب ان کی ایک تحریر نظر سے گزری تو پڑھنا شروع کیا اور اس کے بعد فیس بک پر آکر سرچ کیا تو” ڈیرہ اسماعیل خان اولڈ فوٹو” گروپ میں آپ کی کئی عظیم الشان تحریر سامنے آگئیں اور پھر ان کے کالم کی وجہ سے ہی روزانہ اعتدال اخبار پڑھنا شروع کیا کیونکہ میں جس چیز کی کھوج میں تھا وہ مجھے ان کے کالم میں مل رہی تھی اور چند دن پہلے پتہ چلا کہ ان کی کتاب منظر عام پر آگئی ہے تو پہلی فرصت میں ہی کتاب خریدی اور پڑھنا شروع کیا تو یہ کتاب ایک مکمل شاہکار تھی اور دامان کی تہزیب کے وہ پہلو جو کہ شاید دامان کے باسی رنگ رلیوں میں گم ہوکر بھلا چکے تھے وہ اس کتاب میں مل رہے تھے ۔
آپ نے اپنے کالم میں اپنی تہزیب و ثقافت سے محبت کا اظہار ایسے شائستہ و شگفتہ انداز میں کیا ہے کہ قاری پڑھ کر داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ایک عام سی چیز کو خاص بنانے کا ہنر قدرت نے آپ کو ہی دیا ہے۔
یہ کتاب ڈیرہ اسماعیل خان کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار اور ایک دستاویز ہے
یہ کتاب ہر عام و خاص کیلئے سود مند ہے کیونکہ اس میں آسان پیرائے میں مشکل بات کرنے کا اسلوب اپنایا گیا جو گلزار احمد کی ہی خاصیت ہے
اور آپ نے بجائے بدیہہ گوئی کا چیستان مرتب کرنے کے اختصار میں جامعیت کا پہلو نکالا یہ کتاب ایسی تحاریر کا نادر ذخیرہ ہے جو قاری کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی سطح کو جھنجوڑ کر اسے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ کیسے کبھی یہ دامان ہوا کرتا تھا اور آج ہم نے اسے کیا بنا دیا ہے اور میں اس کتاب میں جہاں ڈیرہ کی خوبصورتی بیان ہوئی ہے وہاں لاہور کے مناظر بھی بیان کئے گئے ہیں آپ کے موضوعات ہی ایسے ہوتے ہیں جو ہر کسی کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں جیسے گاؤں کی شادی کی رسمیں ،ڈیرہ کی حسین راتیں ،گاؤں کا رومانس ،آدھا چاند آدھی عید ،ڈیرہ کی جلتی بلتی گلیاں اور عید ،،ہماری ٹرٹر اور لوڈ شیڈنگ ،ڈیرہ اسماعیل خان اور دھاونڑی وغیرہ۔

%d bloggers like this: