ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطہ ارضی پر انسان اور اس کا شعور ہزاروں سالوں سے ارتقائی سفر کی منازل طے کررہا ہے۔دو ہزار سال قبل بھی کچھ انسانی آبادیاں سماجی شعور کی انتہا کو پہنچ کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے رہی تھیں جہاں پر بنی نوع انسان ترقی کرسکے۔جہاں پر قانون کی عملداری ہو ، سماجی مرتبے سے قطع نظر انصاف ہواور بہتر زندگی ہر انسان کا مقدر ہو۔ابن مریم سیدنا عیسیٰ کی پیدائش سے بھی کم وبیش چار صدیاں قبل یعنی 399 قبل مسیح میں ایتھنز کی خوشحالی اور امن وسکون دیکھنے لائق تھا۔کوئی نہیں کہہ سکتاتھا کہ ایتھنز کچھ سال قبل تک جنگ وجدل کا مرکز رہا ہے اور اسپارٹا کی ایک خوفناک جنگ سے گذر چکا ہے۔آخری دوسالوں میں تیس کے مضبوط قلعہ کی حفاظت کرنے والوں نے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔ایتھنز میں جمہوریت قائم ہوچکی ہے۔جیوری کے اراکین مقرر ہوچکے ہیں اور ایوان اعلیٰ بھی قائم کردیا گیا ہے۔پرامان فضا میں نوجوان افلاطون سوچ رہا ہے کہ اب عملی طورپر سیاست میں حصہ لینا شروع کردے۔
امن کے انہی ایام میں ایک ستر سالہ بوڑھے فلسفی نے ایتھنز کی گلیوں میں سچ کی جستجو جاری رکھی۔یہ بوڑھا فلسفی کوئی اور نہیں بلکہ افلاطون کا استاد اور ماضی کا سنگ تراش سقراط تھا۔وہی سقراط جس نے سنگ تراشی یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ دیوتا اس سے عظیم کام لینا چاہتے ہیں۔سچ کی تلاش میں سرگرداں سقراط کی مروجہ سیاست اور سیاست دانوں پر نقطہ چینی ایتھنز کی حکمران اشرافیہ کو پسند نہیں آرہی تھی۔اس بوڑھے فلسفی کو کس طرح خاموش کرایا جائے اور بہت سوچ وبچار کے بعد مذہب کا سہارا لے کر دیوتاوں کی توہین کا الزام لگا دیا گیا۔
اور اس الزام کے تحت سقراط کو عدالت میں طلب کیا گیا تاکہ اس پر لگنے والے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جاے۔سقراط پر الزام یہ لگایا گیا کہ وہ ان دیوتاوں کو نہیں مانتا جن کا شہر معتقد ہے۔سقراط پر الزام تھا کہ وہ نئے دیوتاوں پر ایمان لے آیا ہےاور وہ شہر کے نوجوانوں کو اپنے باطل عقائد کے سبب گمراہ کررہا ہے۔ایک غیر معروف شہری مائیلی توس نے سقراط کے خلاف درخواست دی جس پر عدالت نے اُس کی مدد کے لیے مشہور مقرر لائی کون اور ایک مشہور سیاست دان انیطوس کو اسکا معاون مقرر کردیا۔ایتھنز کی 501 اراکین کی جیوری نے مقدمے کی سماعت کرنی تھی اور ایک ماہ کے اندر فیصلہ کرنا تھا۔
بالآخر مقدمے کا دن آن پہنچا۔صبح سویرے سقراط کا دوست کرائٹواور اس کا بیٹا بولس، افلاطون اور دیگر لوگ سقراط سے ملے اور اس کے ساتھ عدالت گئے۔جیوری اراکین آگئے اور مقدمے کی باقاعدہ کاروائی کاآغاز ہوا۔ سب سے پہلے درخواست گذار نے کھڑے ہو سقراط پر لگائے گئے الزامات دھرائے۔اس دوران سقراط خاموش اور بے خیال بیٹھ کر کچھ سوچتا رہا۔اب جیوری نے سقراط کو اپنے دفاع میں تقریر کرنے کی اجازت دی۔یونانی عدالتوں میں ملزم جب اپنے دفاع میں تقریر کرتا تو اس تقریر کو معذرت کہا جاتا تھا۔اور سقراط کی اس معذرت کوحرف بہ حرف اسکے شاگرد افلاطون نے تحریر کیا۔
سقراط نے تقریر کرتے ہوے کہا کہ ایتھنز کے لوگو،بحثیت سپاہی کے میں اسی مقام پر کھرا رہا جہاں میرے افسروں نے مجھے کھڑا رہنے کا حکم دیا تھا۔ان افسروں کو تم نے مجھ پر حاکم بنایا تھا۔پوٹیڈیا، ایمفیپولیس اور ڈیلی ام کی لڑائیوں میں میں بھی دوسروں کی طرح اپنی جگہ پر ڈٹا رہا اور موت سے کھیلتا رہا۔لیکن جو کام میں اسوقت انجام دے رہا ہوں اس پر دیوتا نے مجھے مامور کیا ہے۔یہ میرا خیال اور میرا عقیدہ ہے ۔دیوتا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنا اور دوسروں کا جائزہ لوں اور یوں فلسفہ کے لیے اپنی زندگی وقف کردوں۔ایتھنز کے لوگو اگر میں موت یا کسی دوسری چیز کے ڈر سے اپنے مقام پر ڈٹا نہ رہوں تو میرا یہ فعل نہایت برا ہوگا۔اگر میں ایسی حرکت کروں تو یہ بات غلط ہوگی اور تم کو حق ہوگا کہ تم مجھ پر دیوتاوں پر ایمان نہ لانے کا الزام لگاو۔
سقراط نے جیوری اور اہل ایتھنز کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ اگر تم مجھے اس شرط پر معاف کردو کہ میں اب خاموش رہوں گا تو میں اس شرط پر بھی رہا ہونے سے انکار کردوں گا۔اپنی تقریر کے اختتام پر سقراط نے متانت سے کہا کہ میری دعا ہے کہ دیوتااور عدالت ایسا فیصلہ صادر کریں جس میں میری بھی بھلائی ہو اورتم لوگوں کی بھی ۔اور اس کے بعد سقراط خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔عدالتی کاروائی چلتی رہی ۔نقیب نے اعلان کیا کہ جیوری فیصلے کے لیے راے شماری کرے گی۔ اس ضمن میں راے شماری ہوئی اور تیس ووٹوں کے فرق سے سقراط کو سزاے موت کا فیصلہ سنا دیا گیا۔
سقراط نے کھڑے ہوکر جیوری کے فیصلے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ مجھے یہ امید نہیں تھی کہ اتنے کم ووٹ میرے خلاف جائیں گے ۔جیوری توقع کررہی تھی کہ سقراط زندگی کی بھیک مانگے گا اور جلاوطنی کی درخواست کرے گا اور اگر سقراط یہ تجویز پیش کرتا تو شاید یہ تجویز مان بھی لی جاتی ۔مگر اس پر سقراط نے کہا کہ اگر میں اپنے شہر ایتھنز میں سچ نہیں بول سکتا تو پھر دوسری جگہ لوگ مجھے سچ کیسے بولنے دیں گے ۔اس نے کہا کہ میں خاموش نہیں رہ سکتا کیونکہ دیوتا نے مجھے بولنے کا حکم دیا ہے ۔
سقراط کو جیل بھیج دیا گیا اس کے دوستوں نے سقراط کو جیل سے فرار کرانے کا منصوبہ بنایا مگر سقراط نے اس کو رد کردیا۔مقررہ دن آن پہنچا اور جیل میں سقراط کی بیڑیاں کاٹ دی گئیں ۔اس موقع پر سقراط کی بیوی زم ٹیپی اور بچے بھی موجود تھے۔جیلر نے زہر کا پیالہ سقراط کو دیا جو سقراط نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ لیا اور خاموشی سے زہر کو پی لیا۔اس پر کرائٹو رونے لگا تو سقراط نے کہا کہ زندہ رہنااتنا اہم نہیں ہے جتنا صحیح انداز سے زندہ رہنا اہم ہے ۔سقراط زہر پی کر امر ہوگیا۔اسی کیفیت کو کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے کہ
اٗس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
تحریر: ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر