گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ کی تاریخ سے متعلق جو پرانی کتابیں دستیاب ہیں انکے مطالعے سے اس ضلع کے دلچسپ حقائیق سامنے آتے ہیں۔1878ء میں چھپنے والی ایک کتاب تواریخ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان جو منشی چرنجیت لعل نے لکھی اس کے صفحہ 99 پر بتایا گیا ہے کہ 150 سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں دُلھا کو گھوٹ اور دُلھن کو کنوار کہتے تھے اب بھی سرائیکی میں کہتے ہیں ۔
شادی والے دن جب جانجی(باراتی) روٹی سے فارغ ہوتے تو گھوٹ کے ہاتھوں شگنوں کی مہندی لگاتے۔نئی پوشاک پہنوا کر ایک چہلبند کپڑے کو بطور پیٹی گھوٹ کی کمر میں باندھ کر ایک چھری اس میں لٹکا دیتے۔گھوٖٹ کی بہن ایک گانہ جو ریشمی دھاگے ایک چھلے اور منکے سے مزین ہوتا گھوٹ کی کلائی میں باندھتی اور سر پر پھولوں کا سہرا۔۔۔
مبارک مبارک کا شور اٹھتا اور قند سیاہ یعنی گڑ تقسیم کیا جاتا۔ عورتیں گیت گاتے اور مرد ناچتے گاتے کنوار لڑکی کے گھر پہنچ کر نکاح اور پھر چُوری کی رسم ہوتی۔ چُوری گندم کے ڈھوڈھے۔دیسی گھی اور گُڑ ملا کر تیار ہوتی۔ چوری کا تھال لڑکی والے لاتے۔ دلھا دلھن باراتی تھوڑا چکھتے اور نائی کو رقم دیتے۔ اب گھڑی گھڑولہ کی رسم شروع ہوتی۔
اس میں کنوار کے دوپٹہ اور گھوٹ کی چادر آپس میں گانٹھ سے باندھ دی جاتیں۔عورتیں گاتیں ہوئی دونوں کو کھوہ یعنی کنواں پر لے جاتیں آگے آگے گھوٹ کی ہمشیرہ سر پر گھڑا اٹھاۓ چلتی۔کنواں سے گھڑے میں پانی بھر کر عورتیں واپس ہوتیں اور گھوٹ اپنی بہن کو کچھ رقم دے کر گانٹھیں کھلواتا۔پھر علیحدہ غسل خانے میں ایک کھارا ۔۔ سرکنڈوں سے بنا ہوا تھال۔۔پر بیٹھ کر گھوٹ اس گھڑے کے پانی سے نہاتا۔
جب باہر نکلتا تو گھڑے کا ڈھکن جسے چھونی کہتے ہیں الٹا پڑا ہوتا گھوٹ اس پر پیر مارتا اگر چھونی نہ ٹوٹتی تو عورتیں گھوٹ کو ہنس کر شرمندہ کرتیں یہ رسم چھونی کھارا کہلاتی۔ پھر ہم غلام حسین دامانی کی لکھی ہوئی کتاب سر زمین گل میں 1901ء سے 1985ء تک کے کچھ واقعات دیکھتے ہیں تو ڈاک کی تقسیم کے نظام کا پتہ چلتا ہے۔وہ لکھتے ہیں تقریبا” ایک سو بیس سال پہلے ڈیرہ کے ارد گرد دور دراز کے قصبوں کے درمیان ڈاکیہ پیدل یا دوڑ کر ڈاک پہنچاتے تھے ۔ جس کو ہرکارہ کہتے۔
اس ہرکارہ کی پگڑی خاکی ہوتی مگر اس کے کونے لال تھے۔اس کے ہاتھ میں بڑا سا سنگولہ یعنی نیزہ ہوتا جس کے ایک سرے پر گھنگھرو لگے ہوۓ تھے۔ہرکارہ جب دوڑتا تو گھنگھرو کی آواز دور تک سنائی دیتی۔اس نیزے کے دوسرے سرے پر فولاد کا تیزدار بلم ہوتا تاکہ بوقت خطرہ ہرکارہ اپنا دفاع کرسکے۔
ہرکارہ ڈیرہ سے پروا بیس میل روزانہ ڈاک لے جاتا اور واپس لے آتا۔یہ سڑک اس وقت کچی ۔جنگل سے گھری ہوئی ویران اور جنگلی جانوروں سے بھری ہوئی تھی مگر ہرکارہ سات روپے ماہوار پر یہ فرئض سرانجام دیتا۔ اسی کتاب کے صفحہ 61 پر ٹانک شھر کی خوبصورتی کا حال بھی لکھا ہے۔ اس زمانےنواب آف ٹانک غلام قاسم خان کے پاس کلاں باغ اور سرور خان والا باغ تھا۔سرور خان باغ میں تین چار منزلہ خوبصورت نقش و نگار والی ماڑی بھی تھی۔
ان دو باغات میں آم۔انار۔انجیر۔کھجور۔جامن۔شہتوت کے جھنڈ کے جھنڈ درخت تھے جن سے سیکڑوں من فروٹ حاصل ہوتا۔یہ تمام فروٹ نواب صاحب لوگوں میں مفت تقسیم کرتے۔ گلاب اور ربیل کے باغات پھولوں سے لدے رہتے اور دہلی سے درجنوں مور منگواے گئے تھے جو گھومتے پھرتے۔پورے ضلع ٹانک سے لوگ یہ باغات دیکھنے آتے اور فروٹ بھی مفت کھاتے۔ان باغات میں ہزاروں کی تعداد میں شھد کے چھتے تھے۔
جن سے کئی من شھد حاصل ہوتا۔ نواب غلام قاسم کے بعد ان کا بڑا بیٹا قطب الدین خان نواب آف ٹانک بنایا گیا جس نے مذید اصلاحات کیں۔۔کمال کی بات یہ ہے کہ ٹانک میں پولو۔ٹینس اور فٹبال کے گراونڈ کے علاوہ واٹر پولو کا گراوںڈ بنوایا گیا تھا۔ واٹر پولو گراونڈ ہاکی گراونڈ کے برابر چاروں طرف مٹی کے بند بنا کر پانی سے بھر دیا گیا اور ہاکی کی طرح گول پول لگا دیے۔پھر فٹ بال کے برابر گیند سے دو ٹیمیں مقابلہ کرتیں اور جس کے گول زیادہ ہوتے جیت جاتی۔اس میں کھلاڑیوں کی یونیفارم مٹی کیچڑ سے بھر جاتی اور خوب شغل میلہ لگتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر