شمائلہ حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں ایک لڑکی نے اپنی ہی سہیلی کی شادی اپنے شوہر سے کروا دی۔
سوتن بنا کر اپنی ہی دوست کو بخوشی بیاہ لانے کا یہ واقعہ مرد قارئین نے کس قدر خصم خیز نگاہوں سے پڑھا ہو گا۔
اسی طرح جب دو، تین یا چار بیویاں ایک ہی چھت تلے ایک ہی شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہی ہوں اور ان کی کوئی خبر سامنے آئے تو ہماری بھی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
سننے والا کیسی کیسی تصویر بناتا ہے۔ یعنی ایک گھر، گھر میں چار کمرے، چاروں میں ایک ایک بیوی، یا پھر وہی ایک گھر، اس کے چار پورشن، شوہر کا ناشتہ ایک کی طرف، دوپہر کا کھانا دوسری کے ہاں، شام کی چائے تیسری کے وہاں اور رات کا کھانا چوتھی منزل پر ہوتا ہو گا۔ کیسا بہن چارہ ہوتا ہو گا، گھر تو جیسے جنت سمان ہوگا!
لیکن اندر کے حالات تو کثیر الزوجین شخص خود ہی جانتا ہے یا اللہ۔ ہمارے معصوم پڑھنے والے عموماً ایسی شیر و شکر بیویوں کے خواب سجائے عمریں گزار دیتے ہیں۔
کچھ اس نسخے پر عمل کرنے کے چکر میں اپنی اکلوتی بیوی کی ناراضی بھی مول لیتے ہیں جن میں سے ایک دو فیصد حضرات شاید ایسا کر گزرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہوں۔
عموماً گھروالیاں ایسے کسی قدم کے حق میں کم ہی ووٹ دیتی ہیں اور مرد بھی عورتوں کے اس رویے کے خلاف ہمیشہ سراپا احتجاج رہتے ہیں ۔
عورت کہتی ہے ایک گھر تو اس سے چلتا نہیں، دوسرے گھر کا خرچہ بھی ہمارے پیٹ سے نکالے گا۔ اگر کوئی خوشحال خاندان ہے تو وہاں خاتون خانہ دوسری عورت کا وجود نہ سہنے کی کوئی بھی معقول وجہ رکھ سکتی ہیں اور اسے منوا بھی سکتی ہیں۔
دوسری عورت کا وجود ہنس کے قبول کر لینے کے پیچھے مضبوط خاندانی روایات یاعورت کا مرد پر شدید معاشی انحصار ۔۔۔ ان دو کے علاوہ کوئی نارمل وجہ کم ہی ہوتی ہے۔
منکوحہ عزت کا مقام چھوڑ کر مطلق رل جانے کا خوف مارے باندھے ایسا کچھ بھی ہونے کی اجازت دے دیتا ہے ۔
باقی پھر سب سے زیادہ طاقتور وجہ مذہبی استدلال ہے۔ دینی عالم خواتین اس بات کے شدید حق میں ہوتی ہیں کہ ہر مرد کو دو دو شادیاں ضرور کرنی چاہئیں اور اگر معاشی طور پر اتنا مضبوط ہے کہ زیادہ شادیاں افورڈ کرسکے تو اسے چار شادیاں تو ضرور ہی کرنی چاہئیں۔
چاہے اندرکھاتے ان معزز عالم بہنوں کے اپنے ذاتی شوہر بے چارے ایک کے بعد دوسری کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہوں لیکن ان کو سننے والی اور ماننے والی بہت سی عورتیں دیکھا دیکھی اپنے شوہروں کو اٹھتے بیٹھتے دوسری شادی کی اجازت کا عندیہ دینے لگ جاتی ہیں۔
مگر ان گنہگار آنکھوں نے ایسے واقعات بھی دیکھے کہ جب میاں صاحب اس اجازت کو سنجیدہ سمجھ کر کہیں عمل کر بیٹھے تو گھر میں وہ طوفان اٹھا کہ الامان۔
اب وہ صاحب عورتوں کے جھوٹے اور دغاباز ہونے کی شکایت اکثر کرتے سنائی دیتے ہیں۔
لیکن اب لمحہ بھر کو ٹھہریئے۔
مذہب اور سماجی روایات کو تھوڑی دیر ایک طرف کر کے ہم انسانوں کے زر اور زمین سے شروع ہونے والے احساس ملکیت پر غور کریں تو کیا ایسا نہیں دکھائی دیتا کہ ہم نے رشتوں کو بھی اپنی ملکیت ہی سمجھنا شروع کر دیا ہے؟
اس احساس ملکیت کو ہم احساس ذمہ داری یا عزت یا وقار یا غیرت کے نام دے کر ہمیشہ سے گڈ مڈ کرتے چلے آرہے ہیں۔
دنیا میں ہمیشہ طاقت کا سکہ چلتا ہے اور یہ طاقت لا محالہ معاش کے ساتھ ہی مشروط ہے ۔ پوری دنیا میں معاشی معاملات چونکہ مردوں کے ہاتھ میں ہی رہے تو مرد کا ملکیتی حق بھی ہمیشہ مقدم رکھا گیا اور آج تک کسی نہ کسی صورت اسے ہی پروموٹ کیا جاتا ہے۔ زور کس پر چل سکتا تھا ؟ عورت پر، سو چلایا گیا۔
آپ یک زوجگی اور کثیر زوجگی کے مناظرے میں مرد کی یکبارگی کروڑوں تولیدی جرثومے ریلیز کرنے کی اہلیت اور عورت کے ایک ہی بیضے کی تھیوری پیش کریں یا حمل کے دنوں میں ہارمونل بدلاؤ کے بعد عورت کے شوہر کو ‘دستیاب’ نہ ہونے کا نظریہ لائیں تو سائنس ان چیزوں کو ہرا دیتی ہے۔
جب سے مانع حمل ادویات اور دیگر مختلف طریقے ایجاد ہوئے ہیں، اس بات سے انکار ممکن نہیں رہا کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح ایک وقت میں زیادہ تعلقات رکھ سکتی ہیں۔ اسی طرح وہ بھی اپنےلائف پارٹنر کو لے کر اتنی ہی پوزیسو ہوتی ہیں جتنے مرد۔ کیا یہ تاویل انہیں کوئی ملکیتی حق نہیں دے گی؟
اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرتی سسٹم میں چونکہ مذہبی اور روایتی طور پر مرد کا ایسا ملکیتی حق جتانا مردانگی ، غیرت اور عزت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اس لیے نہ صرف جائز ٹھہرتا ہے بلکہ پسندیدہ بھی کہلایا جاتا ہے۔
اس کے برعکس جب عورت اس احساس کے تحت کوئی ملکیتی حق جتائے یا بصورت دیگر ایک سے زیادہ مردوں کی طرف رجحان ظاہر کرتی ہے تو اسے بدکرداری کی سند تھما کر راندہ درگاہ کر دیا جاتا ہے۔
دیکھیے اصل میں عورت مرد کو ایسی کوئی آزادی دینے کو تیار ہوتی ہے نہ مرد عورت کے لیے ایسی کسی رعایت کے حق میں ہوتا ہے۔
بات سمیٹتے ہیں، یہاں چلتا سب کچھ ہے لیکن پردے کے اندر رہ کر! جو جتنا بڑا اداکار ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے۔ جس کا پردہ چاک ہو گیا وہ رسوا ہوا۔
میں ایسے کسی فعل کی حمایت نہیں کر رہی مگر اس ساری گفتگو کا مقصد صرف اتنا ہے کہ سوال تو اٹھایا جائے، امکانات تو بحث میں لائے جائیں، سوچا تو جائے کہ اگر ویسا ہو تو کیسا ہو!
مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو جیتا جاگتا ، سانس لیتا ، اپنی اپنی پسند نا پسند اور پرسنل سپیس رکھنے والا انسان کیوں نہیں سمجھ سکتے؟
جو آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اپنے پیاروں کے لیے بھی وہی پسند کریں، باقی آپ سمجھدار ہیں!
نوٹ: یہ بلاگ ڈی ڈبلیو ویب سائٹ پر شائع ہوچکا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر